درود اس پر کہ جس کے خُلق کی تفسیر قرآں ہے

میرا کالم سید امتیاز الدین
آج حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادتِ باسعادت کا دن ہے ۔ جی نہیں چاہتا کہ ایسے دن کسی معمولی دنیوی موضوع پر بات کی جائے ۔ لیکن نہ تو ہمارے قلم میں وہ طاقت ہے نہ ہمارے محدود علم میں اتنی وسعت کہ آپؐ کے ذکر مبارک کا حق ادا ہو ۔ کسی نعت گو شاعر نے کہا ہے ۔
رخِ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ ہماری بزمِ خیال میں نہ دکانِ آئینہ ساز میں
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ہم دنیا جہاں کی معلومات اکٹھی کرتے پھرتے ہیں ، لیکن اپنے پیارے رسولؐ کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں ۔ جب ہمارا یہ حال ہے تو ہم سے چھوٹوں کی حالت کیا ہوگی ؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کیونکہ اُن تک سیرت طیبہ کے واقعات پہنچانے کی ذمہ داری ہماری ہے ۔ ابھی ایک ہفتہ قبل ہماری مسجد کے خطیب مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے ایک مختصر سا کتابچہ مسجد میں تقسیم کرایا جس میں رسول اکرمؐ کے بارے میں چند باتیں لکھی ہوئی تھیں ۔ ویسے تو یہ کتابچہ چھوٹے بچوں کے لئے ہے ، لیکن اسے دیکھنے کے بعد ہمیں اندازہ ہوا کہ بہت سی باتیں خود ہمیں نہیں معلوم تھیں ۔ یہ توشاید سبھی جانتے ہیں کہ حضورؐ کے والد ماجد کا نام عبداللہ اور دادا کا نام عبدالمطلب اور والدہ ماجدہ کا نام آمنہ تھا ، لیکن اس کے آگے بہت کم لوگوں کو کچھ معلوم ہے ۔ ہم کو اسی کتابچے سے معلوم ہوا کہ آپ کے پردادا کا نام ہاشم ، نانا کا وہب ، دادی کا نام فاطمہ اور نانی کا نام برّہ تھا ۔

آج کا یہ مبارک دن صرف اس لئے نہیں کہ ہم اپنے گھروں میں اچھے اچھے کھانے پکوالیں یا بہت ہوا تو سیرت طیبہ کے کسی جلسے میں شریک ہوجائیں اور یہ متبرک دن بھی اور دنوں کی طرح ختم ہوجائے ۔ آج کا دن ایک مستقل دعوت ہے ۔ دعوتِ فکر و عمل ۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا گیا کہ آپؐ کے اخلاق کیا تھے ۔ انہوں نے فرمایا کہ جسے اخلاق دیکھنے ہوں قرآن دیکھ لے ۔ قرآن کے عجائبات قیامت تک تمام نہیں ہوں گے تو سیرت طیبہ کے عجائبات کہاں تمام ہوسکتے ہیں ۔ قیامت تک لاکھوں بیان کرنے والے بیان کئے جائیں پھر بھی سیرت مکمل بیان نہیں ہوسکتی ۔

سچی بات یہ ہے کہ ہمارے رسولؐ کی عادات و اطوار ایسی تھیں جن پر دنیا بعد میں عمل پیرا ہوئی ۔ آج ہمارے ملک میں صفائی کا مشن چل رہا ہے ۔ آپؐ نے صفائی اور پاکیزگی کا عملی نمونہ دنیا کو دکھایا اور سکھایا ۔ عرب لوگ تہذیب و تمدن سے کم آشنا تھے ۔ مسجد میں آتے تو عین نماز میں دیواروں پر یا سامنے زمین پر تھوک دیتے تھے ۔ دیواروں پر تھوک کے دھبے نظر آتے تو خود آپؐ چھڑی کی نوک سے کھرچ کر مٹاتے ۔ ایک دفعہ تھوک کا دھبہ دیوار پر دیکھا تو ناراض ہوئے اور چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا ۔ ایک انصاری خاتون نے دھبّے کو مٹایا اور اس جگہ خوشبو ملی ۔ آپؐ خوش ہوئے ۔ مسجد نبوی میں جھاڑو پابندی سے دی جاتی تھی ۔ پیاز اور لہسن جیسی چیزیں کھا کر مسجد میں آنے سے آپؐ نے منع فرمایا ۔ آپؐ مسواک کا بہت اہتمام فرماتے ۔ عیادت کے لئے جب کسی بیمار کے پاس تشریف لے جاتے تو اس سے تسکین آمیز گفتگو فرماتے ۔ پیشانی اور نبض پر دست مبارک رکھتے ۔ صحت کے لئے دعا فرماتے ۔ کسی سے ملنے کے لئے جاتے تو پہلے اس کے گھر کے دروازے سے ذرا ہٹ کرسلام کرتے اور پھر اجازت لے کر داخل ہوتے ۔ اگر آپ کسی سے مصافحہ فرماتے تو اس وقت تک ہاتھ نہیں کھینچ لیتے ، جب تک وہ شخص ہاتھ جدا نہیں کرتا ۔ اسی طرح آپ کسی کی بات کاٹ کر گفتگو نہ فرماتے ۔ اپنی مجالس میں پہلے آپ اہل حاجت کی طرف متوجہ ہوتے اور ان کی معروضات سن کر ان کی حاجت براری فرماتے ۔

حضورؐ کی سخاوت اور فیاضی بے مثال تھی ۔ کبھی کسی سوالی کو رد نہیں فرماتے ۔ ایک بار عصر کی نماز پڑھ کر خلاف معمول گھر کے اندر تشریف لے گئے ۔ صحابہ کو تعجب ہوا ۔ آپؐ نے فرمایا کہ مجھ کو خیال آیا کہ کچھ سونا گھر میں پڑا رہ گیا ہے ۔ گمان ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ رات ہوجائے اور وہ گھر میں پڑا رہ جائے اس لئے جا کر خیرات کردینے کو کہہ آیا ۔ حضورؐ کو حضرت فاطمہؓ سے بے حد محبت تھی ۔ سفر پر جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ سے ملاقات فرماتے اور واسپی پر سب سے پہلے اُن سے ملتے ۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ سے بھی نہایت محبت تھی ۔ اسی طرح ہر بچے کے ساتھ آپ نہایت شفقت سے پیش آتے ۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت کسی کو بُرا بھلا کہنے کی نہ تھی ۔ کوئی آپ کے ساتھ بُرائی کرتا تو آپ درگزر فرماتے اور معاف فرمادیتے ۔ جس کام کو جس طریقے سے جس وقت آپ نے شروع فرمایا اُس پر ہمیشہ قائم رہے ۔ سنّت کا لفظ ہماری شریعت میں اسی اصول سے پیدا ہوا ہے ۔

حضور کا حسن سلوک اور اخلاق کریمانہ ایسے تھے کہ لوگ آپ کے گرویدہ ہوجاتے تھے ۔ آپؐ غزوۂ حنین سے واپس آرہے تھے ۔ حضرت ابومحذورہ جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے ، چند دوستوں کے ساتھ گشت لگارہے تھے ۔ اذان کی آواز سن کر اس کی نقل اتارنے لگے ۔ حضورؐ نے ان کو بُلواکر ان سے اذاں سنی اور دعا دی ۔ آپؐ کے التفات اور شفقت سے متاثر ہو کر ابومحذورہ نے اسلام قبول کرلیا اور صحابی رسول کے اعلی منصب سے سرفراز ہوئے ۔

ہجرت سے قبل دشمنان اسلام آپؐ کو اور آپؐ کے صحابہ کو ایذا پہنچاتے تھے ۔ ایک صحابی نے آپ سے عرض کیا یا رسول اللہ !دشمنوں کے حق میں بددعا فرمایئے ۔ یہ سن کر آپ کا چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا ۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں لعنت نہیں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ آپ نے اپنے عزیز ترین چچا حضرت حمزہ کے قاتل کو بھی معاف فرمادیا ۔
یہ چند باتیں ہم نے محض تبرکاً علامہ شبلی نعمانی کی کتاب سیرت النبی سے نوٹ کرلیں ورنہ سچی بات تو یہ ہے کہ حضورؐ کی صفات عالی کا احاطہ کرنا کسی بڑے سے بڑے عالم کے بس کی بات نہیں ۔ اگر یہ کہا جائے تو درست ہوگا کہ اللہ تعالی نے دوقرآن نازل فرمائے ایک تو وہ قرآن جو صحیفۂ آسمانی ہے اور ساری کائنات کے لئے مکمل دستورِ حیات ہے اور دوسرا قرآنِ مجسم جو رسول اکرمؐ کی ذات مبارکہ ہے ۔ جو قرآن کا کہا ہوا ہے وہ آپؐ کا کیا ہوا ہے ۔ آپ کے اسوۂ مبارک کو جو پیش نظر رکھے اور اس پر عمل پیرا ہو اسے کسی اور طرف نگاہ اٹھانے کی ضرورت نہیں ۔ ہم داعی ہیں مدعو نہیں ۔

ہم نے کچھ دن پہلے علمائے کرام کا ایک بیان اخبار میں پڑھا تھا کہ عید میلاد کے موقع پر جلوسوں اور غیر ضروری اسراف سے احتراز کیا جائے ۔ جو پیسہ ہم جلوسوں ، شاندار کمانوں اور روشنیوں میں صرف کرتے ہیں اگر وہی پیسہ غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد میں خرچ کریں تو یہ ہمارے نبی اکرمؐ کی خوشنودی کا باعث ہوگا ۔ آپؐ کے در سے کبھی کوئی خالی ہاتھ واپس نہیں ہوا ۔ آج کتنے ممالک ہیں جہاں مذہب کے نام پر برسرعام قتل و خون ہورہا ہے ۔ امتِ محمدیؐ کو سراپا عفو و درگزر کا نمونہ ہونا چاہئے ۔ اس کے برخلاف ہم اسلام کی ایسی تصویر پیش کررہے ہیں جو لوگوں کے دلوں میں خوف اور شک و شبہ پیدا کررہی ہے ۔ بے شک مغربی میڈیا بھی نفرت انگیز پروپگنڈہ پھیلانے میں پیش پیش ہے ، لیکن یہ وقت ہمارے لئے بھی خود احتسابی کا وقت ہے ۔ ایسے میں ہمیں خواجہ الطاف حسین حالی کی وہ نعت یاد آتی ہے ، جو آج سے سو برس پہلے لکھی گئی ہوگی ، لیکن آج بھی حسب حال ہے ۔اسی نعت کے چند اشعار پر یہ کالم ختم کرتے ہیں۔

اے خاصۂ خاصانِ رُسُل وقتِ دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
جو دین کہ تھا شرک سے عالم کا نگہباں
اب اُس کا نگہبان اگر ہے تو خدا ہے
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے
اُس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے
جس دین نے تھے غیروں کے دل آکے ملائے
اُس دین میں خود بھائی سے اب بھائی جدا ہے
جو دین کہ ہمدردِ بنی نوعِ بشر تھا
اب جنگ و جدل چار طرف اُس میں بپا ہے
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے
نسبت بہت اچھی ہے اگر حال بُرا ہے
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی
ہاں ایک دعا تیری کہ مقبولِ خدا ہے
کر حق سے دعا امتِ مرحوم کے حق میں
خطروں میں بہت جس کا جہاز آکے گھِرا ہے