دبستان جلیل

ڈاکٹر منیر الزماں منیر
حیدرآباد کی علمی و ادبی روایات بہت زرخیز ہیں ۔ جلیل جب حیدرآباد آئے اس وقت حیدرآباد شعر و ادب کا گہوارہ بنا ہوا تھا ۔ دہلی اور لکھنؤ کے شعراء اور ادبا حیدرآباد دارالسلطنت میں سمٹ آئے تھے ۔ خود حیدرآباد میں فارسی اور اردو کے سینکڑوں بلند پایہ ادیب اور باکمال شاعر پیدا ہوئے ۔ باہر کے شاعر و ادیب جب حیدرآباد آئے تو ان سے ایسے گھل مل گئے کہ اپنوں اور بیگانوں میں کوئی فرق باقی نہ رہا ۔
سلاطین دکن بالخصوص خاندان آصفی کے افراد نہ صرف شاعروں اور شعر و ادب کے قدرداں اور سرپرست تھے بلکہ خود بھی شاعر تھے اور شعر و ادب کا ذوق سلیم بھی رکھتے تھے ۔ دور محبوبی اور عہد عثمانی میں جن شعراء نے یہاں کے شعری ماحول کو شاعرانہ بنارکھاتھا ان میں نمایاں نام نظم طباطبائی ، اصغر دہلوی ، بیدل سہارنپوری ، صبا دہلوی ، ضامن کنتوری ، شیفتہ لکھنوی ، عبداللہ حاں ضیغم ، نادر علی برتر ، احسن مارہروی ، نادان دہلوی ، فروغ لکھنوی ، ناطق ظہیر دہلوی اور مرزا داغ دہلوی وغیرہ ایوان دکن کی زینت بنے ہوئے تھے بلکہ ان کی وجہ سے شعر و شاعری کا بازار گرم تھا ۔
دکن میں جلیل کی شعری خدمات کا آغاز ان مشاعروں سے ہوتا ہے جن میں پہلے پہل انہوں نے شرکت کی ۔ ان مشاعروں میں لکھنؤ اور دہلی کے شعراء کے علاوہ ایک بڑی تعداد مقامی یعنی دکن کے شعراء کی تھی ۔ ان میں سرکشن پرشاد شاد ، نوازش علی لمعہ امداد حسین اعظم ، یاور الملک ، وزیر ، لقمان الدولہ دل ، اعظم علی رونق ، احمد علی عصر ، وحید الدین عالی ، احتشام حسین تجلی ،عبدالغفور خاں نامی ، جلال الدین توفیق ، ڈاکٹر احمد حسین مائل ، رضی الدین کیفی ، نصیر خان خیال ، حبیب اللہ ذکار اور ترک علی شاہ ترکی قابل ذکر ہیں ۔
ان مشاعروں میں جلیل نے اپنا رنگ سخن پیش کیا۔ فصیح الملک داغ دہلوی کی مقبولیت نے یہاں پہلے ہی سے اپنا رنگ جما رکھا تھا ۔ ان استاد شاعروں کی یکجائی نے مشاعروں میں گنگا جمنی تہذیب کی بنا رکھی یعنی مختلف مکاتب کے ملے جلے رنگ کی فضا پیدا کی ۔ پہلے دہلی اور لکھنؤ کے رنگ ہائے سخن کا ٹکراؤ رہا ۔ بعد ازاں رفتہ رفتہ شاعری کا ایک ایسا رنگ پیدا ہوا جو ماضی سے قدرے مختلف تھا اور یہیں سے جلیل کے دبستان کی شاعری کے سوتے پھوٹتے ہیں ۔

امیر مینائی ، مرزا داغ اور جلال لکھنوی اپنے سلسلوں کے علمبردار اور استاد مانے جاتے تھے اور ان کے شاگردوں کی کثرت تھی ۔ چونکہ جلیل سلسلہ مصحفی کے نامور استاد تھے اس لئے مصحفی نے اپنے تذکروں میں استادی اور شاگردی کے جو حدود قائم کئے تھے اور جس روایت کی بنیاد رکھی تھی وہ بالواسطہ جلیل تک پہنچی ۔ یہاں تک کہ دکن پہنچ کر جلیل کا رنگ چوکھا ہوا ۔ اس میں داغ کے ان شاگردوں کی شمولیت بھی تھی جو داغ کے انتقال کے بعد جلیل کے زمرہ تلامذہ میں داخل ہوگئے تھے ۔ اس طرح گویا جلیل اس سلسلے کی کڑی تھے جو مرزا سے شروع ہوتا ہے ۔
جلیل نے اپنے ابتدائی دور میں اپنے استاد امیر مینائی سے مکمل استفادہ کیا اور اپنے کلام کو استاد کے رنگ میں رنگ لیا ۔ اس دور اول کا کلام کا سب سے نمایاں عنصر دبستان لکھنؤ کی پیروی میں قدیم مروجہ رسمی مضامین کا ہے لیکن جیسا کہ سطور بالا میں لکھا جاچکا ہے کہ جلیل کی شاعری کے بعد کے دور میں (جس کا تعلق دکن کی سرزمین سے ہے) بالعموم سادگی ، صفائی اور زبان و بیان کی طرف زیادہ توجہ دی گئی تھی ۔ یہ وہی طرز شاعری تھا جس کو بالخصوص سرزمین دکن کے شعری ماحول میں قبول عام حاصل تھا ۔ دہلی اور لکھنؤ دونوں دبستانوں کی شاعری میں خوشگوار تبدیلی آچکی تھی اور اس کی جگہ سادگی و صفائی نے لے لی تھی ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جلیل کی غزلوں میں صفائی ، سادگی ، رنگینی و شوخی کا بڑا اہتمام ہے ۔ انہوں نے عام لب و لہجہ ، روز مرہ اور بول چال کے قریب رکھا جس کی وجہ سے اشعار کی اپیل اور تاثیر زیادہ ہوگئی ۔ چنانچہ جلیل کے کلام کی خصوصیات سادگی ، نغمگی ، برجستگی عام فہم خیالات و جذبات کی ترجمانی ، ترنم ، بحروں کا انتخاب ، زبان کی فصاحت ، سلاست اور روانی ہے ۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ زمانہ جلیل کی فراغت وخوشحالی کا تھا اس لئے اس میں نشاطیہ کیفیت کی فراوانی ہے جس میں زندگی اپنے فطری انداز میں ہنستی کھیلتی اور اٹھکھیلیاں کرتی نظر آتی ہے جیسا کہ ذیل کے اشعار سے ظاہر ہوتا ہے ۔
عہد شباب چشم زدن میں گزر گیا
جھونکا ہوا تھا ادھر آیا ادھر گیا
ہم تم ملے نہ تھے جدائی کا تھا ملال
اب یہ ملال ہے کہ تمنا نکل گئی
حسن دیکھا جو بتوں کا تو خدا یاد آیا
راہ کعبے کی ملی ہے مجھے میخانے سے
جلیل کے آخری دور کی شاعری کا تعلق ان کی زندگی کے آخری حصے سے ہے جب شعری رجحانات بڑے تیزی سے بدل رہے تھے ۔ اس آخری دور میں جلیل کی شاعری کی آواز پچھلی شاعری سے یقیناً بلند نظر آتی ہے زبان وبیان کی شگفتگی اور کلاسیکی رنگ پر نکھار آیا ہے ۔ فکر میں سنجیدگی اور گہرائی مثلاً۔

عدم کے دشت میں پایا گیا ہوں
کہاں سے میں کہاں لایا گیا ہوں
لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو
یہ بہ شیشہ ہے کہ ٹوٹے بھی تو آواز نہ ہو
کہوں کیا ماجرا اپنا حقیقت ہے عیاںمیری
اداسی نام ہے میرا خموشی بے زباں میری
مجموعی طور پر جلیل کے مسلک میں زبان کی صفائی ، سلاست ، لہجے کی شگفتگی ، بندش کی چستی ، شوخی و رنگینی ، ردیف و قوافی کا مکمل ارتباط ، شبنم کی نرمی ، شعلہ کی گرمی اور ان سب سے بڑھ کر ایک مہذب سطح اور ایسا ستھرا پن ملتا ہے جو ان کے ہم عصر شاعروں کے یہاں بہت کم دیکھنے میں آتا ہے ۔ اس طرح جلیل نے اپنے فن سے زبان و شعر کی خدمت کی ہے ۔
شعرائے لکھنؤ پر بالعموم یہ اعتراض ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی ساری قوت شعر گوئی ، شعر کے ظاہری حسن و خوبی پر صرف کردی یعنی خارجی خیالات کی پرورش زیادہ کی ہے لیکن جلیل پر یہ اعتراض وارد نہیں ہوتا کیونکہ ان کے یہاں ایسے اشعار کی کمی نہیں جو داخلی شاعری کی کسوٹی پر پورا اترسکتے ہیں ۔اگرچہ یہ تصور ان کے خالص لکھنؤیت کے تصور کے ساتھ بظاہر بے جوڑ ہے لیکن ان کے کلام میں ہم خارجیت اور داخلیت کو پہلو بہ پہلو پاتے ہیں ۔ ڈاکٹر حفیظ قتیل کے الفاظ میں :
’’جلیل عموماً خارجیت کے تخیلی پیکروں میں اپنے احساسات اس طرح منتقل کردیتے ہیں کہ خارجیت اور داخلیت ایک دوسرے کے ساتھ جسم وجاں کی طرح پیوست ہوجاتے ہیں ۔ شاعرانہ مسیحائی کا یہ معجزہ انہیں مصحفی کے دبستان سے ملا‘‘ (مجلہ عثمانیہ جلیل نمبر ص 106)
ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اپنی کتاب ’’دبستان لکھنو‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جلیل کے کلام میں جتنی بڑی تعداد میں سہل ممتنع میں اچھے اشعار ملتے ہیں اتنی بڑی تعداد عام طور پر اردو کے مشاہیر شعراء کے یہاں بھی کم ملے گی ۔ سہل ممتنع کی مثالیں جلیل کے کلام میں ۔
وصال یار بھی ہے دور میں شراب بھی ہے
قمر بھی ہے مرے پہلو میں آفتاب بھی ہے
یا خدا درد محبت میں اثر ہے کہ نہیں
جس پہ مرتا ہوں اسے میری خبر ہے کہ نہیں
پینے سے کرچکا تھا میں توبہ مگر جلیل
بادل کا رنگ دیکھ کر نیت بدل گئی
رعایت لفظی دبستان ناسخ کی ایک اہم صنعت ہے ۔ اس پر اب تک جو اعتراضات ہوئے ہیں ان سب کا جواب شمش الرحمن فاروقی نے یوں دیا ہے
’’رعایت لفظی کو برادری باہر کردینے کی وجہ سے شعر میں تزئین کا عنصر کم ہوگیا پھر یہ دیکھا گیا کہ غالب ، میر اور انیس ، کیا اقبال تک کے یہاں رعایت لفظی کیاتنے پہلو موجود ہیں اگر ان کو خوبصورت نہ مانا جائے تو شاعری کے بنیادی تفاعل اور اچھی شاعری کی ایک خاص داخلی صفت سے دستبردار ہونا پڑے گا‘‘ ۔ (تنقیدی افکار ص 76)

جہاں تک لہجہ کی انفرادیت کا سوال ہے جلیل نے اپنے ہم عصر شعراء کے مقابلہ میں غزل کو جو نیا اسلوب دیا وہ لائق غور ہے ۔ کلاسیکی اور روایتی انداز میں اس تبدیلی کو نمایاں کیا ہے ممکن ہے کہ ارباب نقد اس تبدیلی کو نئی تبدیلی تصور نہ کریں لیکن رنگ اور اسلوب کی یہ تبدیلی ، بجائے خود ایک حقیقت ہے ۔ یہ رنگ یہ اسلوب صرف جلیل کا ہے ۔
جلیل کے دبستان کی ایک اور خصوصیت غنائیت ہے جو الفاظ کے انتخاب کی تکرار کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ۔ جلیل کا خاص اسلوب شعر یہ ہے کہ وہ اشعار میں منظم یا غیر منظم طرز پر لفظ مکرر لاتے ہیں ۔ یہ صوتی رعایت یعنی تکرار کی یہاعلی فنکاری ان کے کلام میں ان کی افتاد طبع کی مناسبت سے غیر شعوری طور پر در آئی ہے ۔ شاعری میں تکرار الفاظ کوئی نئی بات نہیں لیکن جلیل کے یہاں تکرار کا ایک خاص میلان ہے جس کی ترجمانی ذیل کے اشعار سے ہوتی ہے ۔

آتے آتے آئے گا ان کو خیال
جاتے جاتے بے خیالی جائے گی
ذرا ذرا سی شکایت پہ روٹھ جاتے ہو
نیا نیا ہے ابھی شوق دل ربائی کا
راحت نہ مل سکی کہیں میخانہ چھوڑ کر
گردش میں ہوں میں گردش پیمانہ چھوڑ کر
حاصل یہ کہ جلیل کا رنگ سخن اردو کے بہت سے مشاہیر غزل کے کلام سے الگ بھی ہے اور موثر بھی ۔ اگر بہ نظر تحقیق دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جلیل کی غزل گوئی کا اثر نہ صرف ان کے تلامذہ بلکہ ان کے معاصر اور بعد کے شعراء پر بھی پڑا ۔ بالخصوص دکن کی زبان و شاعری پر جلیل نے جو اثر ڈالا ہے اسے تسلیم کرنا پڑتاہے ۔ جلیل کا اجتہاد یہ ہے کہ انہوں نے ایک خاص اسلوب سخن اختیار کیا ایسا منفرد کہ اشعار کے الفاظ خود پکار کر کہہ دیتے ہیں کہ یہ شعر جلیل کا ہے ۔ یہی انکا دبستان ہے ۔