داستانِ غم

اویدہ بیگم ورنگلی
سفر بڑا طویل تھا ، خاموش بیٹھے بیٹھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے زبان قوت گویائی سے محروم ہو کر رہ گئی ہو ۔ عورت کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ خاموش بیٹھی نہیں رہ سکتی ۔ اگر کوئی اس کی باتیں سننے والا نہ ہو تو وہ در و دیوار سے ہی باتیں کرنے لگتی ہے ۔ جب سفر گھنٹوں کا ہو اور قربت میں بھی کوئی خاتون ہی بیٹھی ہوں تو یہ خاموشی اور بھی تکلیف دہ بن جاتی ہے ۔ مگر ہمسفر خاتون کو مخاطب کرنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی ۔ آخر بہت ہمت کرکے ہمسفر خاتون کو مخاطب کرتے ہوئے موسم پر اظہار خیال کرتے ہوئے بولی کہ آج کا موسم بڑا اچھا رہا ہے ۔ خاتون محترم جیسے موسم سے جلی بیٹھی تھیں ، تڑخ کر بولیں ’’کیا خاک اچھا جارہا ہے موسم ۔ یہ بھی کوئی بارش کا موسم ہے ، ایک دم بادل چھاجاتے ہیں ، برستے ہیں ، پھر مطلع صاف ہوجاتا ہے ۔ بادلوں کا گھر کر آنا اور فوراً ہی برس کر چلے جانے سے کاروبار زندگی معطل ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ وہ گھٹاؤں کا جھوم جھوم کر اٹھنا ، بارش کا رم جھم برسنا ۔ وہ باورچی خانوں سے اٹھنے والی سوندھی سوندھی خوشبو کچھ بھی تو باقی نہ رہا ۔ وہ برسات کی رنگینیاں ہیں نہ دل میں وہ امنگیں ، زندہ بے مزہ ہو کر رہ گئی ہے‘‘ ۔
’’زندگی کا کاروبار تو ہر حال میں چلتا ہی رہتا ہے ۔ مگر موسم کا اپنا ایک حسن ہوتا ہے ۔ بالکنی میں کھڑے ہو کر نظارہ کرنے میں کس قدر لطف آتا ہے ۔ گھٹاؤں کا اٹھنا پھر چھاجانا ۔ پھر بارش کا برسنا دیکھنے کے قابل ہوا کرتا تھا ۔ اب تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ بارش کا موسم کب شروع ہوا اور کب ختم ہوا ۔ ہاں ٹی وی کے ذریعہ طوفانوں کی حشر سامانیاں اور بربادیاں دیکھ کر زندگی میں اداسیاں گھل جاتی ہیں‘‘ ۔
انسان ہمیشہ سے قدرتی مصائب کا شکار ہوتا آرہاہے ۔ حالات ، انسان کو چیلنج کرتے ہیں اور انسان خداداد صلاحیتوں سے کام لے کر ان حالات کا مقابلہ کرتا آرہا ہے ۔ آج کل تو زمانہ بہت ترقی کرگیا ہے ۔ انسان پیش آنے والے حالات کا پہلے ہی سے اندازہ کرلیتا ہے اور انکا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے ۔

کیا خوب ! حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے پہلے ہی تیار ہوجاتا ہے ۔ یہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ طوفان کی نذر ہوجاتے ہیں اور یہ نئی نئی بیماریوں کا انسان جو شکار ہورہا ہے ۔
انسان کے ساتھ بیماریاں ہمیشہ سے لگی ہوئی ہیں مگر آج کا انسان ان بیماریوں سے نمٹ رہا ہے ۔ آج بہت کم ایسی بیماریاں ہیں جن کا علاج دریافت نہ کرلیا گیا ہو ۔ مہلک بیماریاں جیسے طاعون ، چیچک وغیرہ کا وجود ہی باقی نہ رہا ہو بعض موذی مرض دق سل پر قابو پالیاگیا ۔
آپ کی باتیں ! ہر مرض کا علاج دریافت کرلیا گیا ہے ۔ جب ہی تو زندگی دواخانوں کے چکر لگانے میں گذر رہی ہے ۔ پیٹ دواخانہ بن کر رہ گیا ہے ۔ ہزاروں روپئے ڈاکٹروں کی نذر ہوگئے ہیں ۔ ایک مرض کی تشخیص کے لئے نہ صرف کئی ڈاکٹروں بلکہ کئی کئی شہروں کے ڈاکٹروں سے رجوع کرنا پڑتا ہے ۔ پاؤں ہمیشہ دکان میں والی بات ہو کر رہ گئی ہے۔
اللہ نے آپ کوذرائع و وسائل دے رکھے ہیں ۔ صحت کے بہانے سیر و تفریح کے مواقع حاصل ہوجاتے ہیں ۔
آپ بھی کیسی باتیں کرتی ہیں ۔ سیر و تفریح کیا خیال بھی دل میں آسکتا ہے جب ہزاروں اندیشے دل کو لگے ہوں ۔ خدانخواستہ کوئی جان لیوا مرض نہ لگ گیا ہو ۔ آج کل غذاؤں نے بھی صحت کا ستیاناس کرکے رکھ دیا ہے ۔ دوائیں دے دے کر اناج اگایا جارہا ہے ۔ جس میں غذائیت ہوتی ہے ، نہ مزہ بس پیٹ کی آگ بجھ جائے ۔ مگر صحت کو گھن لگ رہا ہے ۔ آدمی جوانی میں بوڑھا لگ رہا ہے ۔
آپ شاید غلط کہہ گئیں جوانی میں بوڑھا لگ رہا ہے ۔ آج کا بوڑھا تو جوان لگ رہا ہے ۔ بہترین علاج مناسب دیکھ بھال ، ہر دم اپنے آپ کو بنانے سنوارنے سنبھالنے سے بوڑھا نہ صرف جوان بلکہ جوانوں کو چیلنج کرتا نظر آرہا ہے ۔ آج کل ماں بیٹی کو ساتھ دیکھ کر یہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ اس میں کون ماں ہے اور کون بیٹی !

یہ میری بدنصیبی ہے بیٹی جیسی نعمت سے محروم ہوں اللہ نے صرف بیٹے دے رکھے ہیں ۔ بیٹیاں آج کا نازک مسئلہ بن گئی ہیں ۔ ان کی عزت و عصمت کی حفاظت پھر ان کی شادی کے موقع پر ہزاروں کا لین دین ۔ ایک دم سے ہزاروں مسائل ان کے ساتھ لگ گئے ہیں ۔
یہ تو اپنی اپنی سوچ ہے ۔ بیٹیاں گھر کی رونق ہوا کرتی ہیں ۔ ان کے سریلے قہقہے ، ان کی چوڑیوں کی جھنکار ، زندگی میں خوشی کی لہر دوڑادیتی ہے ۔ ان کے بغیر گھر کیسا سونا سا لگتا ہے ۔ اللہ نے آپ کو بہت کچھ دے رکھا ہے ۔ اس لئے زندگی کے سنگین مسائل سے آپ کو سابقہ نہیں پڑا ۔
دیکھنے والوں کوٹھاٹ باٹ شان و شوکت نظر آتی ہے ۔ گھر پہ دولت اپنے ساتھ کس قدر مشکلات لاتی ہے ۔ کسی کو نظر نہیں آتا ۔ سکون کی نیند حرام ہو کر رہگئی ہے ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ’’بے فکری سے سونا بھی بڑی دولت ہے‘‘ ۔ رشک آتا ہے ان لوگوں پر جو بے فکری سے جہاں جگہ ملی مزے سے سوجاتے ہیں ۔ چور ڈاکو کا ڈر نہ دشمنوں سے جان کا خطرہ ۔ یہ دولت تو ہزاروں دشمن پیدا کرتی ہے ۔ اپنے پرائے سب دشمن ۔ دشمنوں کے درمیان رہ کر زندگی گذارنا کس قدر اذیت ناک ہوتا ہے ۔
دشمنوں کے درمیان اپنے بھی ہوتے ہیں ۔ جن کا وجود تقویت کا باعث ہوتاہے ۔
اپنوں سے اللہ بچائے ۔ مل بیٹھیں تو جل اٹھیں ۔ الگ ہوں تو دھواں دیں ۔ پھر اپنے اس قابل کہاں کہ ان کو منہ لگایا جائے ۔ زمانہ کس قدر ترقی کرگیا مگر وہ لوگ وہی دقیانوسی کے دقیانوسی ، فرسودہ خیالات ، پرانی قدروں کو گلے لگائے ہوئے ، اپنی دنیا میں مست ایسے لوگ بھلا اونچی سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل ہوسکتے ہیں ۔ ان لوگوں کو دور کا سلام ۔

میں بڑی عبرت سے اس خاتون کی باتیں سن رہی تھی جن کو اللہ نے اپنے فضل سے وہ سب کچھ دے رکھا تھا جس کی کوئی اس دنیا میں تمنا کرسکتا ہے ۔ مال و دولت ، عزت و پوزیشن ، صحت و تندرستی اور اولاد نرینہ ۔ ان نعمتوں کو پا کر اپنے دینے والے کا شکر ادا کرنے کے بجائے کوئی نہ کوئی پہلو ایسا ڈھونڈھ کر نکال رہی تھیں جس کی بنیاد پر تقدیر کا رونا رویا جاسکتا ہے ۔
’’اے اللہ مجھے اپنے قلیل بندوں میں شامل فرما‘‘ جب یہ دعا خلیفہ حضرت عمر فاروقؓ کے کانوں میں پڑی تو وہ دعا کی گہرائیوں میں کھوگئے۔ طواف کے بعد بدو کو اپنے روبرو طلب فرمایا اور دریافت کیا کہ اس دعا سے تمہارا کیا مطلب ہے ۔
اس پر بدو نے جواب دیا ’’کیا آپ نے قرآن میں اللہ کا ارشاد نہیں پڑھا ’’قلیلاً ماتشکرون‘‘ شکر گذاربندے قلیل ہوتے ہیں‘‘ ۔ بے اختیار دل پکار اٹھا ’’اے مالک تیرا فرمان حق ہے ۔ بے شک ہم تیرے بندے بڑے ہی ناشکرے ہیں ۔ تو ہم پر اپنی رحمتوں کی مسلسل بارش کرتا رہتا ہے اور ہم تیرے بندے ان نعمتوں کو پاکر تیرا شکر ادا کرنے کی بجائے کوئی نہ کوئی پہلو ایسا ڈھونڈھ نکالتے ہیں جس کی بنیاد پر شکایات کا دفتر کھولا جاسکے ۔
اللہ اللہ تم نے اپنی تمام مخلوقات میں اشرف بنایا ۔ زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ۔ عقل و شعور کی دولت سے نوازا ۔ ہم کو یہ توفیق تو ہی دے سکتا ہے کہ ان نعمتوں کو پاکر صحیح معنوں میں تیرا شکر ادا کریں ۔ اے اللہ ! کائنات کا ذرہ ذرہ تیری تعریف کے گن گاتا ہے ، تیری حمد و ثنا بیان کرتا ہے ۔ تیرا مطیع و فرمانبردار ہے ۔ ہم تو وہ ہیں جو کو تونے اپنے فرشتوں سے سجدہ کروایا ، جو مقام بلند تو نے ہم کو دیا اس مقام کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا کر ۔ ہمیں اپنا مطیع فرمان بنا ۔ اپنا شکر گذار بنا ۔کفران نعمت سے بچا ۔ آمین