داؤد اِبراہیم تک پہونچنے کی کوشش

آپ نے بونے درختوں سے ثمر تو لے لئے
راہ گیروں کے لئے پرچھائیاں کم ہوگئیں
داؤد اِبراہیم تک پہونچنے کی کوشش
ہندوستان میں خاص کر تجارتی شہر ممبئی میں اغوا، زبردستی رقومات کی وصولی، قتل ، بھتہ خوری اور جرائم کی وارداتوں میں ملوث چھوٹا راجن کو ہندوستان لانے کے لئے جو وی آئی پی طریقہ اختیار کیا گیا ہے، اس کے عقب سے داؤد ابراہیم کی تصویر بھی جھانگتی دکھائی دیتی ہے۔ انڈر ورلڈ ڈان داؤد ابراہیم کو ہندوستان لانے کی مہم میں سرگرم ہندوستانی پولیس، سی بی آئی اور دیگر خفیہ اداروں کو مرکز کی مودی حکومت کے اس واحد ٹاسک کو پورا کرنے کے لئے چھوٹا راجن جیسے ’’پیادوں‘‘ کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ چھوٹا راجن اور داؤد ابراہیم کے درمیان دوستی پھر دشمنی اور پیشہ ورانہ رقابت کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کے حصہ کے طور پر اگر چھوٹا راجن کو ہندوستان لایا گیا ہے تو ہندوستانی پولیس کو داؤد ابراہیم تک پہونچنے میں مدد ملے گی یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ اس وقت مودی حکومت کے لئے چھوٹا راجن کی گرفتاری اور ہندوستان حوالگی کا مرحلہ اہمیت کا حامل ہے۔ تمام محاذوں میں ناکام ہونے کا داغ چھپانے کے لئے مودی حکومت کو کچھ نہ کچھ ایسے کام انجام دینے کی فکر ہے کہ لوگوں کو بی جے پی کے انتخآبی منشور میں کئے گئے ’’اچھے دن‘‘ کے وعدے سے غافل رکھا جاسکے۔ ہندوستان کے سب سے بڑے مالیاتی شہر ممبئی میں 1993ء کے دوران جو واقعات ہوئے تھے، اس کے لئے داؤد ابراہیم ہندوستان کے لئے شدت سے مطلوب انڈر ورلڈ ڈان ہے۔ اس کی پاکستان میں موجودگی کا یقین ظاہر کرتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ داؤد ابراہیم کو ہندوستان لانے کی کوشش کی جائے گی۔ اب جبکہ چھوٹا راجن کی انڈونیشیا کے ایرپورٹ پر گرفتاری اور ہندوستان کو حوالگی کا عمل پورا ہوا ہے تو یہ چھوٹا راجن کی ہی زبانی لغزش اور غفلت کا نتیجہ ہے۔ گزشتہ ماہ انڈونیشیا ایرپورٹ پر مفرور گینگسٹر چھوٹا راجن سے ایمیگریشن آفیسر نے شبہ کی بنیاد پر اس کا نام پوچھا تو اس نے پاسپورٹ میں درج فرضی نام ’’موہن کمار‘‘ بتانے کے بجائے اصل نام ’’راجندر نکلجے‘‘ بتادیا۔ دراصل موہن کمار کے نام پر وہ آسٹریلیا میں روپوش تھا اور اس نام سے پاسپورٹ رکھتا تھا لیکن زبان کی لغزش نے اسے پولیس کے جال میں پہونچا دیا۔ اس طرح کی زبان کی لغزش داؤد ابراہیم کی اہلیہ مہہ جبین شیخ نے بھی کی تھی جب ہندوستانی ٹی وی چیانل کے رپورٹر نے کراچی میں مقیم داؤد ابراہیم کی اہلیہ سے فون پر ربط پیدا کیا تو یہ اعتراف کیا تھا کہ داؤد ابراہیم کراچی میں مقیم ہے۔ اس کے بعد مودی حکومت اور اس کے وزراء کے مخالف پاکستان بیانات کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے پارلیمنٹ کو بھی بتایا تھا کہ ہندوستان کو داؤد ابراہیم کے ٹھکانے کا علم ہے۔ یہ بھی پتہ چلایا گیا تھا کہ داؤد ابراہیم کی اہلیہ مہہ جبین شیخ، فرزند معین نواز اور دختران ماہ رُخ، مہرین اور مازیا بھی کراچی کے پاش علاقہ میں مقیم ہیں، لیکن حکومت ہند مفرور داؤد ابراہیم کو ہندوستان لانے سے قاصر ہے۔ پاکستان ہمیشہ ہی اس بات کو مسترد کرتا رہا ہے کہ داؤد ابراہیم اس ملک میں مقیم ہے۔ حکومت کی سطح پر دونوں ملکوں کے عہدیداران داؤد ابراہیم کے بارے میں متضاد بیانات دیتے رہے ہیں۔ اب چھوٹا راجن کو حاصل کرنے کے بعد سی بی آئی اور ممبئی پولیس داؤد ابراہیم تک پہونچنے میں کامیاب ہونے کی کوشش کرے گی۔ پیر کے دن قومی سلامتی مشیر اجیت دوول اور پاکستانی قومی سلامتی مشیر سرتاج عزیز کے درمیان ہونے والی ملاقات میں داؤد ابراہیم ہی اصل موضوع ہوگا۔ ہندوستان اپنی جانب سے دستاویزی ثبوت بھی پیش کرے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا پاکستان ان دستاویزی ثبوتوں کے باوجود داؤد ابراہیم کی اپنے ملک میں موجودگی کا اعتراف کرے گا؟ چھوٹا راجن کو ہندوستان لانے میں کامیاب سی بی آئی اور پولیس کا اگلا نشانہ داؤد ابراہیم ہے تو پھر مودی حکومت اس مہرہ کا استعمال اس وقت کرے گی جب ملک میں عوام مودی حکومت کی ناکامیوں سے شدید ناراض ہوں گے اور مخالف حکومت لہر پیدا ہوگی۔ اگر داؤد ابراہیم ہندوستانی پولیس کے ہاتھ لگتا ہے تو پھر مودی حکومت اس انڈر ورلڈ ڈان کو ہندوستان لانے کا سہرا اپنے سَر لینے کی کوشش کرے گی۔ اس طرح کی فضول تگ و دو میں مودی حکومت، ہندوستان کے اندر پیدا ہونے والی معاشی تباہی سے غافل رہے گی تو عوام کو مہنگائی سے دوچار ہوکر نئے نئے معاشی چیلنجس کا سامنا کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑے گا۔ کالادھن لانے میں ناکام مودی حکومت، چھوٹا راجن جیسے غنڈوں کا تعاقب کرتے ہوئے ساری مشنری اور قوت کو جھونک کر کیا ثابت کرنا چاہتی ہے، یہ سمجھ دار عوام بخوبی جانتے ہیں۔
ہندوستانی معیشت اور عدم رواداری ماحول
ہندوستانی معاشرہ کو تباہ کرنے والے حالات میں عدم رواداری اور صبر و تحمل کے فقدان کا دخل زیادہ ہوتا جارہا ہے ۔ کہیں پرتشدد احتجاج ہورہا ہے تو کہیں فرقہ واریت ، مذہبی انتہاپسندی اور عدم رواداری کی شکل میں شہریوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ اس عدم رواداری کے واقعات کے خلاف احتجاج بلند کرتے ہوئے کئی مصنفین اور ادیبوں کے علاوہ فلمی شخصیتوں نے اپنے ایوارڈس واپس کردیئے ہیں ۔ فلم اداکار شاہ رخ خاں نے بھی ان احتجاجی ادیبوں اور فلمی شخصیتوں کی حمایت میں اپنا ایوارڈ بھی واپس کرنے کا اشارہ دیا تو بی جے پی اور اس کی محاذی تنظیموں نے انہیں پاکستان کا ایجنٹ قرار دیا اور انہیں ملک دشمن بنانے کی کوشش کی ۔ ایوارڈ واپس کرنے والے ادیبوں ، مصنفین اور فلم سازوں اور سماجی کارکنوں نے اجتماعی فیصلے کو بی جے پی اور آر ایس ایس نے سنجیدگی سے لینے کے بجائے بدبختانہ طور پر ایوارڈس واپس کئے اس احتجاج کو ہی مسترد کردیا ہے ۔ حکومت کی لعنت و ملامت کرنے والی شخصیتوں کے غم و غصہ پر توجہ دینے کے بجائے سنگھ پریوار اب بھی عوام پر اپنی مرضی اور رائے مسلط کرنے کی ضد پر قائم ہیں ۔ مودی حکومت کی شروعات میں پرزور حمایت کرنے والے صنعت کاروں نے بھی حکومت کی من مانی کارکردگی ، لیبر قوانین میں تبدیلی ، سود کی شرح میں کمی اور خاص طور پر نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لئے سرمایہ کاری کرنے کی جانب حکومت کی نااہلی اور سست روی کا نوٹ لیا ہے اور مودی حکومت کے خلاف احتجاج شروع کیا ہے ۔ اروندھتی رائے سمیت 24 شخصیتوں نے ایک ہی دن اپنے قومی ایوارڈس واپس کردیئے ہیں اس کے اثرات بہار اسمبلی انتخابات میں دکھائی دیں گے ۔ اگر مودی حکومت اس حقیقت کو نظر انداز کرکے اپنی خرابیوں اور کوتاہیوں کی دنیا میں مست قلندر کی طرح رہے گی تو پھر انتہاپسند ہندو گروپس کی اشتعال انگیزیاں اور تشدد کے واقعات اس ملک کی رواداری کو تباہ کردیں گی ۔