خوشیوں کا دامن تھامیں

فریدہ راج

ہم جو زندگی جیتے ہیں وہ آسان نہیں، بعض اوقات ایک طویل عرصے کے لئے ہم ایسے مشکل دور سے گذرتے ہیں کہ بے اختیار ہم یہ کہہ اُٹھتے ہیں کہ ’’ آخر ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں ؟ ۔‘‘ اُتار چڑھاؤ ہر ایک کی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ زندگی کا یہ سفر نہایت ہی سہانا اور خوبصورت ہوسکتا ہے بشرطیکہ ہم صعوبتوں اور تکلیفوں سے ہٹ کر سوچیں۔ میرا ماننا ہے کہ ہم اکثر اُن باتوں پر زیادہ وقت صرف کرتے ہیں جو منفی احساس لئے ہوتی ہیں اور یہ ہماری فطرت کا ایک حصہ بن چکی ہوتی ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان کی نشاندہی کرتے ہوئے ہم مثبت احساسات و عادات کو اپنی شخصیت کا حصہ بنائیں،لیکن اس کے لئے ہمیں پرانی عادات کو الوداع کہنا ہوگا جو آسان نہیں۔ کچھ لوگوں کی زندگی اتنی مشکل نہیں ہوتی جیسا وہ سوچتے ہیں۔ بعض اوقات نادانستہ طور پر وہ اُن حالات کے عادی ہوجاتے ہیں جو ان کی زندگی اجیرن کردیتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس تھوڑا سا وقت ہوتو آیئے

اُن حالات پر نظرِ ثانی کریں جو جینا مشکل کردیتی ہیں، ہوسکتا ہے کہ آپ انجانے میں انہیں اپنائے ہوئے ہوں۔٭ روز مرہ کی زندگی میں ہمیں کئی فیصلے کرنے ہوتے ہیں، بعض تو نہایت ہی سیدھے سادے ہوتے ہیں جیسے دعوت میں کیا پہن کر جانا ہے، شادی میں کیا تحفہ دینا ہے ،وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب کوئی اہم فیصلہ کرتے ہیں تو ہم میں کئی ایسے ہیں جو رہ رہ کر اسی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ہر زاویہ سے اس کو دیکھتے ہیں، پرکھتے ہیں یہاں تک کہ ہم خود اپنے ہی کئے ہوئے فیصلے کے بارے میں شک و شبہات میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کا رویہ خواہ مخواہ ہی ہمیں ذہنی تناؤ کا شکار بنادیتا ہے۔ آپ نے سوچ سمجھ کر جو فیصلہ کیا ہے اس پر قائم رہیں۔ قیاس آرائیاں کرنا چھوڑ دیں۔ یاد رکھیں تجربات ہم میں صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں اور ہمارے غلط فیصلے ہی ہمارے تجربات میں شامل ہیں۔٭ یہ سوچ کہ دوسرا ہماری خوشیوں کا ذمہ دار ہے۔ جیسے میں اسوقت انتہائی خوش ہوں گی جب میرا شریک حیات میری توقعات پر پورا اُترے گا۔ یا پھر نئے ماڈل کی کار یا اپنا ذاتی مکان خوشی کا ضامن ہوگا۔ غرض فہرست ایسی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لے، بس یہی آپ کے خوش نہ رہنے کی وجہ ہے۔ فہرست ضرور بنائیں لیکن اُن چیزوں کی جو آپ کی زندگی میں خوشیاں لے آئیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں جیسے علی الصبح بغیر کسی خلل گرما گرم چائے، آپ کی زندگی میں جو کچھ اچھا ہوا اُس کے بارے میں سوچنا، آپ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دے گی۔٭ یہ سوچ کر پریشان ہونا کہ اگر میرے ساتھ ایسا ہوا تو کیا ہوگا۔ جیسے اگر مالک مکان نے گھر خالی کرنے کو کہہ دیا۔؟ اگر میری نوکری چلی جائے۔؟ اگر میرا شوہر مجھ سے بے وفائی کرے یا پھر اگر مجھے کوئی خطرناک و جان لیوا بیماری گھیرلے۔؟ یہ سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ ایسی سوچ خوامخواہ ہی ہماری نیندیں اُڑا دیتی ہے۔

سوچ کو بدلیں اور ’ اگر ‘ کو اپنی ڈکشنری سے نکال دیں۔٭ کبھی اس بات کا اعتراف نہ کرنا کہ آپ کسی مشکل دور سے گذر رہی ہیں۔ مثلاً آپ کا خیر خواہ آپ سے پوچھے ’’ سب کچھ ٹھیک ہے ؟ ‘‘ تو مشکلات میں گھرے ہونے کے باوجود بھی آپ مسکرا کر کہیں ’’ ہاں ! سب ٹھیک ہے! ‘‘۔ اس طرح کی سوچ میں کوئی بہادری نہیں بلکہ کھلے ذہن سے بات کرنے پر ہوسکتا ہے آپ کے مسائل کا حل مل جائے اور کچھ نہ سہی تو دِل ہی ہلکا ہوجائے۔٭ ہرلمحے، ہر قدم پر یہ ظاہر کرنا کہ میں تم سے بہتر ہوں۔ میرے پاس تم سے بہتر چیزیں ہیں۔ سوچیں کیا اس طرح کا رویہ یعنی دوسرے کو نیچا دکھانا کیا واقعی آپ کو خوشی دیتا ہے۔؟٭ ہمیشہ ہاں کہنا۔ آپ کبھی بھی کسی کو ’’ نہ ‘‘ نہیں کہہ سکتیں۔ ہر دَم یہ احساس رہتا ہے کہ کہیں دوسرے کو بُرا نہ لگے۔ نتیجتاً آپ ہمیشہ دوسرو ں کی مانگیں پوری کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔ دوسرے بے شک خوش ہوں گے لیکن دلی خوشی آپ سے کوسوں دور ہوگی۔٭ ہم سب سے غلطیاں ہوتی ہیں کچھ چھوٹی، کچھ بڑی ، بُرا تو لگتا ہے لیکن پھر ہم آگے بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن آپ اگر اپنی ہر غلطی پر نادم و پشیماں ہوں، خود کو بار بار بُرا بھلا کہیں ، کوسیں تو زندگی ضرور دوبھر ہوجائے گی۔
اس مضمون کو قلمبند کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم سب میں خوش رہنے کی اہلیت ہے، زندگی کو خوشی خوشی جینا یا اس کو بوجھ سمجھنا ہمارے بس میں ہے۔ اگر ہم سب اوپر دی گئی عادات کو ترک کردیں یا اپنے وجود سے نکال دیں تو بے شک خوشیاں ہمارا دامن تھامے رہیں گی۔