خورشید احمد جامیؔ حیدرآباد کی علمی و ادبی شخصیت

ڈاکٹر امیر علی
حیدرآباد (دکن) زمانے قدیم ہی سے علم و ادب اور تہذیب کا گہوارہ رہا ہے ۔ حیدرآباد کے عوام کی مہمان نوازی ، رواداری اور علم دوستی ساری دنیا میں مشہور ہے ۔ اس کو فروغ دینے اور پروان چڑھانے میں حکمرانِ وقت کے علاوہ کئی نامور شعراء علماء اور اہل کمال نے گراں بہا کارنامے انجام دیئے ، جس کے اجلے نقوش آج بھی موجود ہیں۔ جن شعراء نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے اردو زبان و ادب اور تہذیب کی خدمت انجام دی ہے ، ان میں خورشید احمد جامیؔ کا نام بھی شامل ہے۔ جامیؔ حیدرآباد کے ایک ذی علم گھرانے میں 15 مئی 1914 ء کو آنکھ کھولی ۔ والد محمد یعقوب اردو اور فارسی کے مشہور عالم تھے ۔ نانا قاضی صدیق احمد فہیم اردو اور فارسی کے شاعر اور قاضی پربھنی اور کویل سرکار ہائی کورٹ تھے ۔ جامیؔ اپنے بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے ۔ جامیؔ کا اصل نام ابوالحمید خورشید احمد اور شاعری میں جامیؔ تخلص ہے ۔ جامیؔ جدید اردو غزل کے منفرد شاعر ہیں۔ غزل ان کی محبوب صنف سخن ہے۔ جامیؔ نے اپنی شاعری کا آغاز کم سنی یعنی گیارہ (11) برس کی عمر (1925 ئ) سے کیا تھا ۔ جامی 1958 ء سے پہلے تک مختلف موضوعات پر مسلسل لکھتے رہے جس میں نثر اور شاعری دونوں اصناف شامل ہیں۔ اس دوا کے حالات پر جامی کی گہری نظر تھی ۔ انہیں جاسوسی ناولوں (انگریزی اور اردو) کے مطالعے کا بھی شوق تھا اور اس شوق نے اُن سے تین مشہور جاسوسی ناول لکھوائے اور اس کے علاوہ شاعری میں ان کے شعری مجموعے بھی شائع ہوئے ۔ جامیؔ پہلی جنگ عظیم کے زمانے میں پیدا ہوئے تھے ۔ جنگ کے واقعات ، حالات اور اس کی تباہ کاریوں سے ان کے کان بچپن اور لڑکپن ہی میں آشنا ہوئے ہوں گے ۔ دوسری جنگ عظیم کے دور میں تو جامیؔ (25) برس کے تھے ۔ انقلاب روس (1917 ئ) (جس نے دنیا کے حالات کا رخ پلٹ کر رکھ دیا تھا) جامیؔ کی پیدائش کے تین سال بعد وقوع پذیر ہوا اور پھر ہندوستان کے اپنے سیاسی ، سماجی ، معاشی اور تہذیبی حالات ، تحریکیں ، اُن کا عروج و زوال اور سامراجی طاقتوں کا دور ۔ غرض یہ کہ ایک حساس فنکار (تخلیق کار) کی حیثیت سے تاریخ پر جامیؔ کی گہری نظر تھی ۔ جامیؔ کی ہنرمندی اور اُن کے فن کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے ان میں سے کسی بھی ادبی روایات اور نظریات کو آنکھ بند کر کے من و عن قبول نہیں کیا بلکہ ممکنہ حد تک ہر ایک سے استفادہ کیا اور جذب و قبول کی منزل سے گزر کر حیات اور کائنات کو اپنی آنکھ سے دیکھا اور اس کو انہوں نے اپنے شعری اسلوب میں ڈھالا ہے ۔ جامیؔ حیدرآبادی تہذیب کے علمبردار مانے جاتے ہیں۔
خورشید احمد جامیؔ نے البتہ شرقیہ سے منشی عالم (پنجاب یونیورسٹی) تک تعلیم حاصل کی اور کچھ عرصہ محکمہ آبکاری میں سب انسپکٹر کے عہدے پر فائز رہے لیکن بہت جلد ملازمت سے مستعفی ہوکر اردو اور فارسی کی درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے ۔ جامیؔ آخری سانس تک اپنے خاندان والوں سے جڑے رہے۔ والدہ اور بھائیوں کو بہت چاہتے تھے اور اُن کا ہر طرح خیال رکھتے تھے ۔ جامیؔ کے دوستوں اور شاگردوں کا حلقہ بھی بہت وسیع تھا اور سبھی لوگ اُن کی شخصیت اور شاعری کے بڑے مداح تھے اور اُن کا دل سے احترام کرتے تھے ۔ یہ تھا شائستہ تہذیبی و اخلاقی ورثہ جس کے جامیؔ تنہا وارث تھے ۔ جامیؔ کی شاعری میںآج کے عہد اور اس عہد میں سانس لینے والے انسان کی غیر یقینی صورتِ حال اور اس کے موقف کی منہ بولتی تصویر ملتی ہے ۔ سوالات کرنے والا انسان خود اپنے سوالوں کے سامنے مجرم بنا ہوا ہے۔ وہ ماضی ، حال اور مستقبل کی سرحد پر اپنے وجود میں حال کو لیئے ہوئے تنہا اپنی تقدیر کا آپ خود ہی ذمہ دار ہے اور اس کا فیصلہ اس کی تمنا ہے ۔ فانیؔ کے نزدیک زندگی ’’ دیوانے کا خواب ‘‘ تھی اور جامیؔ اسے ’’وحشی تمنا‘‘ سے تعبیر کیا ہے ۔ جامیؔ کی غزلوں میں وہی کرب و اضطراب تجسس و تامل موجود ہے جو آج کے انسان کا مقدر ہے۔ ’’قیمت عرض ہنر‘‘ جامیؔ کے دونوں شعری مجموعوں ’’رخسار سحر‘‘ اور ’’برگ آوارہ‘‘ کے انتخاب کے علاوہ ان کی شاعری اور شخصیت اور تبصروں کا مجموعہ ہے، جو ان کی زندگی میں ہی یعنی 1968 ء میں شائع ہوا تھا ۔ اس میں جامیؔ کی چند نظمیں بھی شامل ہیں جن میں اُن کے رفقاء اور ان کے شاگردوں نے ان کی شخصیت اور شاعری کے بارے میں اپنے تاثرات قلمبند کئے ہیں اور جامیؔ کے فکر و فن کو خراج تحسین پیش کئے ہیں۔ان میں مخدوم محی الدین صاحب ، ڈاکٹر راج بہادر گوڑ ، ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی، ڈاکٹر وحید اختر ، ڈاکٹر شاذ تمکنت ، ڈاکٹر امیر عارفیؔ، شمس الرحمن فاروقی ، زبیر رضوی ، کمار پاشی اور ڈاکٹر منظر حنفی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان مضامین اور تبصروں میں جامیؔ کو عصرِ حاضر کا ایک منفرد غزل گو شاعر ، ادیب اور ایک حساس فنکار قرار دیا گیا ہے ۔ تبصروں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جامیؔ نے روایات کی غلامی کو قبول نہیں کیا بلکہ حقیقت پسندانہ روایات اور اجتہاد کا حسین امتزاج پیدا کر کے فن کی بلندیوں میں اضافہ کردیا۔ جامیؔ کی شاعری وقت گزاری یا دل بہلانے کا ذریعہ نہیں تھی ، وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں کیف و سرمستی میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔ جامیؔ نے اپنی شاعری سے اپنے عہد کو بڑا متاثر کیا ۔ اُن کی شاعرانہ عظمت کا راز یہ ہے کہ اُن کے کلام میں اعلیٰ تہذیبی روایات کی سچی تصویر ملتی ہے اور اس کے علاوہ ’’تمنا‘‘ اور ’’امید‘‘ کے تصورات کی تہہ میں زندگی کے المیہ احساس کی روح دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے ۔
خورشید احمد جامیؔ نے بڑی پر اثر اور کامیاب غزلیں تخلیق کی ہیں۔ شاعری میں جامیؔ نے سادہ اور سلیس زبان استعمال کی ہے۔ انہوں نے غزل کے طرز اظہار کو ایک ایسی بنیاد فراہم کردی جو دوسرے شعراء کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئی ۔ جامی ؔ کو بلا شبہ رجحانِ ساز شاعری کہا جاسکتا ہے ۔ اردو کے ممتاز شاعر مخدوم محی الدین صاحب نے ’’رخسارِ سحر‘‘ کے دیباچے میں جامیؔ کی شاعرانہ عظمت پر اس طرح رقمطراز ہیں :
’’جامیؔ اردو کے پختہ شاعر ہیں۔ فن پر عبور اور زبان پر قدرت رکھتے ہیں‘‘۔ جامیؔ کے اشعار پڑھتے ہی دل پر اثر کر جاتے ہیں۔ جامیؔ کے چند مشہور اشعار اس طرح ہیں جو آج بھی اپنا اثر رکھتے ہیں۔
ذرا ملنا کسی دن میکدے کی راہ میں مجھ سے
تجھے کچھ مشورہ ، ائے گردشِ ایام دینا ہے
مجھے اپنا سمجھ کر زندگی نے
خود اپنے آپ کو دھوکہ دیا ہے
اک عمر ساتھ ساتھ مرے زندگی رہی
لیکن کسی نجیل کی دولت بنی رہی
آنکھیں اداس اداس تو چہرے بجھے بجھے
پھرتے ہیں لوگ شہر میں صحرا بنے ہوئے
رات ایک اجنبی کی طرح گھومتی رہی
دن ، ایک اجنبی کی طرح سوچتا رہا
دنیا کو دکھا دیتا ہوں آئینہ اسی کا
ناراض ہے دنیا کہ روایات شکن ہوں
جامیؔ نے اپنی شاعری میں ’’زندگی‘‘ کو استعارہ بناکر بہت ہی خوبصورت اشعار اردو شاعری کو دیئے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جامیؔ زندگی کو ہر رنگ میں اپنایا تھا اور نامساعد حالات میں بھی وہ زندگی سے بیزار نظر نہیں آتے اور غموں میں بھی مسکرانے کا ہنر دیتے ہیں۔ چنانچہ جامیؔ ایک جگہ اس طرح رقمطراز ہیں۔
آ ائے غم ایام ذرا اور قریب آ
میں تجھ کو بتادوں تو سہی ، کون ہوں ، کیا ہوں
جامیؔ کے ہاں زندگی کے فنا ہونے سے زیادہ شدید خوابوں کے ٹوٹنے کی وجہ سے ویران ہوجانے کا غم ہے۔
خورشید احمد جامیؔ نے اپنی غزلوں میں استعاروں ، کنایوں ، تشبیہات و لفظیات اور علائم کو بروئے کار لایا ہے جس سے ان کے اشعار پر سوز اور پر اثر ہوگئے ہیں۔ یوں تو جامیؔ نے بے شمار غزلیں کہی ہیں۔ ان کی کہی ہوئی دو غزلیں کچھ اس طرح ہیں۔
شاخ گل کہتے ہیں یا دشتِ وفا کہتے ہیں
زندگانی کو تیرے شہر میں کیا کہتے ہیں
وقت کو وقت کے بے نور تھکے چہرے کو
ہم بھٹکتی ہوئی صدیوں کی دعا کہتے ہیں
سوچتا ہوں کہ میرے غم کو سمجھنے والے
میری غزلوں میں تجھے دیکھ کے کیا کہتے ہیں
ذہن آدم میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
ہم اس حسن فروزاں کو خدا کہتے ہیں
ہم ہر اک حادثۂ قلب و نظر کو جامیؔ
حسنِ اخلاص سمجھتے ہیں، وفا کہتے ہیں

زمیں پہ چاند اُترتا دکھائی دیتا ہے
ترا خیال بھی تجھ سا دکھائی دیتا ہے
وہ ساتھ لے کے چلا تھا ہزار ہنگامے
وہ شخص آج اکیلا دکھائی دیتا ہے
ہوا چلی تو اندھیروں کی آگ تیز ہوئی
ہرایک خواب پگھلتا دکھائی دیتا ہے
بڑے عجیب ہیں یہ درد و غم کے رشتے بھی
کہ جس کو دیکھئے اپنا دکھائی دیتا ہے
بدلتے جاتے ہیں الفاظ صورتیں اپنی
چلو تو یہ بھی تماشہ دکھائی دیتا ہے
دیارِ شوق ہو یا دشتِ بیکراں جامیؔ
کہاں کہاں کوئی تنہا دکھائی دیتا ہے
حیدرآباد (دکن) کو ناز ہے کہ اس سرزمین نے جامیؔ جیسے عظیم شاعر و ادیب ، انسان دوست فنکار کو دیا ۔ جامیؔ اردو زبان و ادب کے عظیم شاعر کے علاوہ وہ ایک نیک دل اور خدا ترس انسان بھی تھی ۔ انہوں نے اردو زبان و ادب کی گراں بہا خدمات انجام دیں اور حیدرآبادی تہذیب و روایات کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا ۔ اُن کی اس خدمات کو ادب کا مورخ کبھی فرمائش نہیں کرسکتا۔ مگر افسوس کہ جامیؔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوئے لیکن نہایت پا مردی اور استقلال کے ساتھ اس جان لیوا مرض کا مقابلہ کیا مگر موت نے انہیں زیادہ قیام کی اجازت نہ دی اور انہوں نے 8 مارچ 1970 ء کو آخری سانس لی اور 56 برس کی عمر میں اس دارفانی سے کوچ کر گئے اور اپنے مال ک حقیقی سے جا ملے ۔ آپ کی جسدِ خاکی کو ہزاروں سوگواروں کے بیچ سپرد لحد کردی گئی اور حیدرآباد میں مدفون ہیں۔
کہیں آرام سے دو دن فلک رہنے نہیں دیتا
ہمیشہ اک نہ اک سر پر مصیبت آ ہی جاتی ہے