خود غرضی کی دیوار پر بیٹھی سیاسی پارٹیاں

اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
سیاستدانوں کے درمیان معرکہ آرائی کا وقت شروع ہونے والا ہے ۔ عام رائے یہ ہے کہ جب دو چوروں کے درمیان لڑائی شروع ہوتی ہے تو ایک دوسرے کی پول کھولنے لگتے ہیں ۔ اس نتیجہ میں سچائی سامنے آنے لگتی ہے ۔ آج کل ہماری سیاست میں یہی کچھ ہورہا ہے ۔ ریاست آندھرا پردیش کی تقسیم کے عمل کو شروع کردیا گیا ہے تو کانگریس نے اپنے صدور پردیش کانگریس کا بھی انتخاب کیا ۔ تلنگانہ کی نمائندگی سابق وزیر پونالہ لکشمیا کریں گے تو سیما آندھرا کی ذمہ داری رگھویرا ریڈی کو سونپ دی گئی ہے ۔

کل تک متحدہ آندھرا کا نعرہ لگا کر کانگریس ہائی کمان سے ناراضگی ظاہر کرنے والے اب سیما آندھرا میں پارٹی کی اہم ذمہ داریوں کو ادا کریں گے تو انھیں سیما آندھرا کے لوگوں کی برہمی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ سیما آندھرا کے لئے کانگریس نے انتخابی منشور پیانل بھی تشکیل دیا ہے جس میں چرنجیوی چیرمین ہیں ادھر تلنگانہ کے کانگریس قائدین کی انتخابی مہم کمیٹی کے فرائض تفویض کئے گئے دامودر راج نرسمہا اور محمد علی شبیر کے ساتھ سریدھر بابو اور ایم پی وکریمیکا انتخابی تیاریوں اور مہمات کی نگرانی کریں گے ۔ ان کو تلنگانہ کی پارٹی ٹی آر ایس سے مقابلہ کرنا ہے ۔ جبکہ ٹی آر ایس نے اپنی انتخابی فہرست جاری کرتے ہوئے مسلمانوں کو مایوس کردیا ۔ اب انتخابات میں کون کس کو مایوس کرے گا یہ بتانا کوئی مشکل کام نہیں ہے مگر یہ ضروری ہے کہ رائے دہندے سب مل کر اپنے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کو یقینی بنانے کے لئے راست فیصلہ کرسکتے ہیں ۔ سیاستدانوں کو برا بھلا کہنے اور ٹی وی چیانلوں پر تنقیدی تقریروں کی بھرمار ہوگی ۔ اس سے رائے دہندوں کی معلومات میں ہرگز اضافہ نہیں ہوگا ۔ آج کل ہمارے کچھ دانشور کچھ لیڈروں کی ذاتی زندگی کی کتابیں یا کہانیاں پڑھ کر لوگوں کی رہنمائی کرنے کا بیڑہ اٹھارہے ہیں ۔ حالانکہ لیڈروں کو سمجھنے اور ان کی زندگی پڑھنے کے لئے ایک عمر درکار ہوتی ہے ۔

جس ریاست کے حصول کے لئے مسلمانوں نے خاص کر نوجوان نسل نے تحریک میں حصہ لے کر اپنا قیمتی وقت ضائع کیا انھیں سیاسی پارٹیوں سے کچھ نہ ملے تو مایوسی ہی ہاتھ آئے گی ۔ ان کے لئے اصل آزمائش اور کھیل تو اب شروع ہوا ہے ۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ تلنگانہ کی پارٹیوں کی نیت کیا ہے ۔ جاننے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ ٹی آر ایس کے سربراہ کے سی آر کے کیا منصوبے ہیں ۔ بی جے پی کو کتنی اہمیت دی جارہی ہے ۔ تلگودیشم نے این ڈی اے کا ساتھ دینے کے لئے بی جے پی سے ہاتھ ملانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ چندرا بابو نائیڈو ہر قیمت پر ان انتخابات میں اپنی بقا کی جنگ لڑیں گے ۔ انتخابات میں تلگودیشم کو شکست ہوجائے تو پھر یوں سمجھئے یہ پارٹی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی ۔ ان کے لئے یہی محاورہ کام آئے گا کہ وہ اکیلے ڈبونے کی کوشش میں اپنے ’’صنم‘‘ بی جے پی کو بھی ساتھ لے کر ڈوبیں گے ۔ لہذا ان کا ’’صنم‘‘ نہ صرف ہوشیار خبردار ہورہا ہے ۔ بی جے پی صدر راجناتھ سنگھ نے آندھرا پردیش میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی پارٹی کو کسی قسم کا نقصان پہونچنے والے اقدام سے گریز کرنے پر دھیان دیا ہے ۔ چندرا بابو نائیڈؤ کو اچھی طرح احساس ہے کہ ’’اہل وطن‘‘ کے ساتھ دشمنی اچھی نہیں لیکن پھر بھی وہ بی جے پی سے ہاتھ ملا کر اہل وطن یعنی ان کے رائے دہندوں کو ناراض کررہے ہیں ۔ 2004 کے انتخابات کا سبق بھول چکے ہیں ۔

حال ہی میں خبر آئی تھی کہ بیوہ سے شادی کرنے والے کو مفت ہنی مون کا موقع دیا جائے گا ۔ اب بی جے پی سے تلگودیشم کا ہنی مون بھی مفت ہی رہے گا یا بے موت مارے جاؤگے کہ مصداق بیوہ اور بیوی نصیب میں ہوگا ۔ آندھرا پردیش کی تقسیم نے کئی پارٹیوں کو ان کی اوقات دکھادی ہے تو کانگریس کو صفایا کی بری خبریں مل رہی ہیں ۔ سابق چیف منسٹر کرن کمار ریڈی نے حسب منشا اپنی ابیک پارٹی قائم کرلی جس کا کریاکرم بھی انتخابات میں ہوجانے کی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں ۔ یہ پارٹیاں بنتی اور ڈوبتی ہیں ۔ شادی ہوتی ہے ٹوٹ جاتی ہے ۔ بیوہ ہوتی ہے پھر شادی کی کوشش کا چکر ان سیاستدانوں کو تھالی میں کے بیگن بنارہا ہے ۔ شادی بیاہ اور طلاق یا علحدگی کا مسئلہ سیاسی میدان کی افواہوں تک ہی محدود نہیں ہے ۔ ان دنوں ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کی پاکستانی کرکٹر شعیب ملک سے طلاق یا علحدگی کی افواہوں نے ان کے چاہنے والوں میں دلچسپی پیدا کردی ہے جبکہ ہر دو جانب یہ صاف انکار کیا جارہا ہے کہ ان کے درمیان ایسی کوئی بات نہیں ہے یہ دونوں اپنے اپنے کیریئر میں مصروف ہیں ۔ شادی شدہ زندگی رکھنے والے یہ کھیل کی دنیا کی مقبول شخصیتوں کو آپس میں ملاقات کا وقت نہیں مل رہا ہے ۔ لیکن سیاستدانوں کو وقت آنے پر مطلقہ پارٹیوں سے راہ رسم بڑھانے میں دیر نہیں لگتی ۔ جیسے دل کو درد پرانے اچھے لگتے ہیں کہ مصداق انتخابات میں ایسی کئی شخصیتوں کو دل بدل سے گذرتا دیکھا جائے گا ۔ کون کہے گا کہ ’’آبھی جاؤ ساتھ ہمارے اچھے لگتے ہیں‘‘ ۔ ان پارٹیوں اور ان کے قائدین کے لئے یہ لطیفہ موزوں ہے ملاحظہ کیجئے ’’

ڈاکٹر صاحب اپنے دواخانہ میں بیٹھے ایک مریض کی رپورٹ بڑے غور سے دیکھ رہے تھے کہ ایک خاتون جلدی جلدی مطب میں داخل ہوئی اور چلاتی ہوئی کہنے لگی ڈاکٹر صاحب آپ کے پاس ہچکی کی کوئی فوری دوا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ دیکھا ۔ ایک زور کا طمانچہ خاتون کے منہ پر ماردیا ۔ خاتون جو ایمرجنسی لے کر کلینک آئی تھی ڈاکٹر کے اس ردعمل کے لئے تیار نہ تھی وہ ہکا بکا رہ گئی کچھ لمحات بعد اپنے اوسان بحال کرکے منہ بنسورتے ہوئے کہنے لگی ڈاکٹر صاحب آپ کو شرم نہیں آتی ایک عورت پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے جواب دیا محترمہ بتاؤ کہ ہچکی ختم ہوئی کہ نہیں ۔ کیوں کہ ہچکی کا میرے پاس اس سے بہتر اور فوری علاج نہیں ہے ۔ خاتون نے روتے ہوئے کہا لیکن ہچکی مجھے تو نہیں بلکہ میرے شوہر کو ہے جنھیں صبح سے ہچکی لگی ہوئی ہے کسی علاج یا ٹوٹکے سے ٹھیک نہیں ہورہی ہے ۔ ڈاکٹر نے خاتون کی ہمت بندھاتے ہوئے کہا کہ کوئی بات نہیں اب نسخہ تو تمہارے ہاتھ آہی گیا ہے جا کر شوہر پر بھی آزماؤ مجھے یقین ہے کہ فوری افاقہ ہوگا ۔ ہماری سیاسی پارٹیاں بھی اسی طرح کا رویہ رکھتی ہیں ۔ الیکشن سے قبل یا اس وقت جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے

ان کے پاس ملک اور ریاست کے ہر مسئلے اور ہر بیماری کا علاج ہے اور اقتدار سنبھالتے ہی وہ ان مسائل کا فوری حل نکالیں گے لیکن ایسا کبھی بھی نہیں ہوا ۔ بلکہ اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اپنے اس قول اور اقرار کو بھول جاتے ہیں ۔ ٹی آر ایس کو تلنگانہ میں اپنے قول یاد ہوں گے یا نہیں یہ نتائج کے بعد معلوم ہوگا ۔ اب ٹی آر ایس نے یہ اشارہ دیدیا ہے کہ اس کے نزدیک مسلم امیدواروں اور مسلم ووٹوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ وہ تو تلنگانہ عوام کو فرقہ وارانہ خطوط کے آئینے سے دیکھ رہی ہے ۔ بی جے پی بھی اس کو عزیز ہے تو تلنگانہ کے انتخابات اور اس کے نتائج مسلمانوں کو کہاں لے جائیں گے یہ غور طلب ہے ۔ جو پارٹیاں اقتدار کی فصیلوں کو مضبوط کرنے کے لئے جھوٹ اور خود غرضی کی سمینٹ کی اونچی اونچی سیڑھیاں بنا کر کنبہ پروری ، اقربا پروری پر موج کریں گے تو ٹی آر ایس میں باپ ، بیٹا اور بیٹی ، بھتیجے کی چلے گی ، تلگو دیشم ، کانگریس ، وائی ایس آر کانگریس و دیگر پارٹیاں عوام کو کتنے زخم دیں گے اس کے لئے رائے دہندے تیار ہیں یا نہیں یہ اپریل کے آخری ایام میں معلوم ہوجائے گا ۔
kbaig92@gmail.com