خواجہ عبدالغفور

میرا کالم             مجتبیٰ حسین
پندرہ سولہ سال اُدھر کی بات ہے ، میں کالج کی چھٹیاں گزارنے کیلئے ہر سال موسم گرما میں اپنے آبائی وطن عثمان آباد جایا کرتا تھا۔ عثمان آبادایک چھوٹا اور خاموش سا شہر ہے ۔ چھو ٹی چھوٹی پہاڑیوں میں گھرا ہوا ۔ اس شہر میں پہنچتے ہی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی کے سارے ہنگامے ختم ہوگئے ہیں۔ اب آگے صرف خاموشی ہی خاموشی ہے ، سکون ہی سکون ۔ نہ شور و غل نہ شور شرابہ ۔ سارا دن رشتہ داروں کے ساتھ گزرتا ۔ شام ہوتے ہی میں یا تو پہاڑیوں پر تفریح کیلئے نکل جاتا یا پھر اس لمبی سڑک پر چہل قدمی کیلئے نکل جاتا جو اس شہر کی واحد سڑک ہے ۔ یہ سڑک مجھے بہت پسند تھی اور آج بھی ہے کیونکہ جب بھی مجھے اپنے ماضی کی طرف لوٹنا پڑتا ہے تو یہی سڑک مجھے اپنے بچپن کی طرف لے جاتی ہے۔ اپنے بچپن تک پہنچنے کیلئے اس سڑک کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے ۔ اس لمبی سڑک سے ایک گہری وابستگی کا احساس مجھے ہوتا تھا ، یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس شہر میں اس اکلوتی سڑک کے سوائے کچھ بھی نہیںہے ۔ اندھیری راتوں میں کبھی کبھی میں یہ سوچ کر خوف زدہ ہوجاتا کہ اگر چور رات کے اندھیرے میں اس سڑک کو چُرا کر کہیں لے گئے تو میں اس  شہر سے باہر نہ نکل سکوں گا ۔ ہر شام جب میں اس غیر مصروف سڑک پر چہل قدمی کیلئے نکلتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے میںاس واحد سڑک کا واحد مالک ہوں۔ کوئی مجھے اس سڑک سے بے دخل نہیں کرسکتا۔

اسی سڑک پر ایک شام میں چہل قدمی کیلئے نکلا تو راستہ میں ایک پرانا ساتھی مل گیا۔ ہم دونوں ایک بڑی کوٹھی کے سامنے کھڑے باتیں کر رہے تھے اور ہم سے کچھ فاصلہ پر اس کوٹھی کا سنتری کھڑا پہرہ دینے کی کوشش میں مسلسل اونگھ رہا تھا ۔ پھر نہ جانے اچانک کیا ہوا کہ سنتری آن کی آن میں چوکس اور الرٹ ہوگیا ، جیسے کسی نے بٹن دباکراس کے بدن میں برقی رو دوڑا دی ہو۔ ابھی میں سنتری کی اچانک تبدیلی کا مطالعہ کر ہی رہا تھا کہ اس نے بڑی بلند آواز کے ساتھ ہمیں سڑک پر سے ہٹ جانے کو کہا ۔ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں، میں اپنے آپ کو اس سڑک کا بلا شرکت غیرے مالک سمجھا کرتا تھا ۔ سنتری کے اس حکم کو سن کر میرے بدن میں بھی برقی رو دوڑ گئی ۔ یوں بھی سولہ سترہ سال کی عمر میں آدمی کے بدن میں بجلی زیادہ ہوتی ہے ، خون کم ۔ میں نے تنک کر کہا ’’تم کون ہوتے ہو ہمیں سڑک پر سے ہٹانے والے؟ ‘‘

اس نے کہا ۔’’زیادہ بکواس نہ کرو ، کلکٹر صاحب باہر آرہے ہیں‘‘۔
میںنے کہا ’’کلکٹر ہوں گے تواپنے گھر کے ہوں گے ۔ سڑک پر کیسی کلکٹری۔ آنے دو کلکٹر صاحب کو اتنی بڑی سڑک ہے کہ اس پر سے سارے ہندوستان کے کلکٹر بیک وقت گزرسکتے ہیں۔ پھر کلکٹر تو آدمی ہی ہوتا ہے ۔ کوئی ہاتھی تو نہیں ہوتا کہ اس کیلئے ساری سڑک کا تخلیہ کردیا جائے ‘‘۔
ابھی میں اپنی نوجوانی کے جوش کا عملی مظاہرہ کر ہی رہا تھا کہ اچانک ایک موٹر کوٹھی کے اندر سے برآمد ہوئی ۔ اس مو ٹر میں پچھلی سیٹ پرایک کلکٹر بیٹھا تھا ۔ بالکل ایک بُت کی طرح خد و خال کسی یونانی مجسمہ کی مانند ، گورا رنگ ، لمبی اونچی ناک جو اس وقت مجھے ناک کم اور خطرناک زیادہ نظر آئی تھی ۔ بڑی بڑی آنکھیں اور بھرے بھرے گال ۔ گلانکٹائی میں یوں پھنسا تھا جیسے یہ نکٹائی خود  انہوں نے نہ باندھی ہو بلکہ کسی دشمن نے باندھی ہو۔ جب کلکٹر کا یونانی مجسمہ موٹر میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا تو میں نے کوٹھی کے پھاٹک پر نظر ڈالی ۔ وہاں لکھا تھا ’’خواجہ عبدالغفور آئی اے ایس‘‘۔

یہ تھی خواجہ عبدالغفور صاحب سے میری پہلی ملاقات جسے نہ جانے کیوں میں آخری ملاقات بنانے پر تُلا بیٹھا تھا ۔ اس دن کے بعد سے مجھے کلکٹروں ، لمبی سڑکوں ، یونانی مجسموں اور عبدالغفوروں سے چڑ سی ہوگئی ۔ جب بھی میں عثمان آباد کی اس لمبی سڑک پر چہل قدمی کیلئے نکلتا تو یہ خدشہ لگا رہتا کہ کہیں سڑک پر اچانک کوئی کلکٹر نہ نکل آئے ۔ بھلا موت اورکلکٹر پوچھ کر تھوڑی آتے ہیں۔ پھر کئی برس بیت گئے ، وہ لمبی سڑک میرے حافظہ میں اور بھی لمبی ہوگئی البتہ کلکٹر کا خوف کچھ کم ہوگیا۔ چار پانچ برس پہلے ایک دن مجھے یہ اطلاع ملی کہ بمبئی کے لیبر کمشنر خواجہ عبدالغفور صاحب مجھ سے ملنا چاہتے ہیں اور اس وقت ’’سیاست‘‘ کے دفتر میںموجود ہیں۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ وہی خواجہ عبدالغفور ہیں جن کی خاطر کئی برس پہلے مجھے سڑک کا تخلیہ کرنا پڑا تھا ۔ میں خالی الذہن حالت میں ’’سیاست‘‘ کے دفتر پر پہنچا تو دیکھا کہ وہی ’’یونانی مجسمہ ‘‘ ایک کرسی پر رکھا ہوا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اس مجسمہ کے بال اب ذرا سفید ہوگئے تھے اوراس مجسمہ کا پلاسٹر بھی کہیں کہیں اُتر گیا تھا ۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کہیں اس مجسمہ کے ساتھ کوئی سنتری نہ ہو۔ جب دور دور تک سنتری نظر نہ آیا تو میری جان میں جان آئی ۔ یونانی مجسمہ سے جب میرا تعارف کرایا گیا تو یونانی مجسمہ نے بڑی گرمجوشی سے مصافحہ کیا ، پھر مجھے بتایا گیا کہ غفور صاحب ان دنوں لطیفوں کی ایک کتاب مرتب کر رہے ہیں۔
میں نے دل ہی دل میں کہا ۔ ’’بھئی ، کمال ہے۔ اب تو یونانی مجسمے بھی لطیفے کہنے لگے ہیں، یہ قیامت کے آثار نہیں تواور کیا ہیں؟‘‘۔تھوڑی سی رسمی بات چیت کے بعد غفور صاحب نے مجھے دوسرے دن اپنے پاس آنے کی دعوت دی اور چلے گئے ۔ میں سارا دن سوچتا رہا کہ ایک آئی اے ایس عہدیدار کا لطیفوں سے کیا تعلق ہوسکتا ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے ملک کی دفتریت قدم قدم پر لطیفوں کو جنم دیتی ہے ۔ بہت سے ملازمین کو اُن کی وفات کے بعد ملازمت سے معطل کرتی ہے اور بہت سے ملازمین کو جیتے جی مار دیتی ہے ۔ اتنے سارے دفتری مذاق کے باوجود میں نے آئی اے ایس عہدیداروں کو بے حد سنجیدہ پایا ہے ۔ کسی دانا کا قول ہے کہ فرشتے اور آئی اے ایس عہدیدار کبھی نہیں ہنستے۔ چنانچہ میں نے بہت کم آئی اے ایس عہدیداروں کو ہنستے ہوئے دیکھا ہے ۔ اس معاملے میں ایک صاحب کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ جس طرح گھوڑے کو بیٹھی ہوئی حالت میں دیکھنا نحوست کا باعث ہوتا ہے ، اسی طرح کسی آئی اے ایس عہدیدار کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کودیکھنا بھی کچھ کم نحوست کا سبب نہیں ہوسکتا۔ میں مسلسل اس نکتہ پر غور کرتا رہا کہ خواجہ عبدالغفور صاحب آخر کس طرح لطیفے کہتے ہوں گے اوراُن پر کس طرح ہنستے ہوں گے ۔ میں نے سوچا کہ وہ لوگوں کواپنے لطیفوں سے کہیں زیادہ اپنی کمشنری کے بل بوتے پر ہنساتے ہوں گے ۔ حکم دیا کہ ہنسو اور لوگ ہنسنے لگے۔

مجھے وہ لطیفہ بھی یاد آیا کہ کوریا کی جنگ کے زمانے میں ایک امریکی جنرل کوریا کے سپاہیوںکے سامنے تقریر کر رہا تھا اورایک مترجم اس کی انگریزی تقریر کا کوریائی زبان میں ترجمہ کر رہا تھا ۔ ایک مرحلہ پر امریکی جنرل نے اپنی تقریر میں ایک نہایت طویل لطیفہ سنایا اور اس کے بعد مترجم نے اس طویل لطیفہ کے ترجمہ کے سلسلہ میں صرف ایک جملہ کہا اور سارے کوریائی سپاہی پیٹ پکڑ پکڑ کر ہنسنے لگے ۔ امریکی جنرل بہت حیران ہوا کہ اس کے اتنے طویل لطیفہ کا ترجمہ صرف ایک جملہ میں کس طرح ادا ہوگیا ۔ سو اس نے مترجم سے پوچھا ’’بھئی تم نے ایک جملہ میں اتنے بڑے لطیفہ کا ترجمہ کیسے کردیا ؟ ‘‘اس پر مترجم بولا ’’حضور میں نے لطیفہ کا ترجمہ نہیں کیا ہے بلکہ میں نے سپاہیوں سے یہ کہا ہے کہ ابھی ابھی جنرل صاحب نے ایک لطیفہ سنایا ہے لہذا تم لوگ زور زور سے ہنسنے لگ جاؤ‘‘۔
عہدیداری چیز ہی ایسی ہوتی ہے کہ آدمی کو خوف کے مارے ہنسنا ہی پڑتا ہے ۔ غرض میں کچھ ایسے ہی خیالات لے کر دوسرے دن غفور صاحب کے پاس پہنچا۔ میں یہ سوچ کر گیا تھا کہ آج مجھے مصنوعی طور پر اتنا ہنسنا پڑے گا کہ شاید میں اصلی ہنسی کو اگلے کئی دنوں تک بھول جاؤں گا ، مگر غفور صاحب نے جاتے ہی مجھے ایک ایسا لطیفہ سنایا جس نے ماحول کے سارے مصنوعی پن کو ختم کردیا ۔ انہوں نے کہا ’’ایک آئی اے ایس عہدیدار کو اپنے ماتحتین کو لطیفے سنانے کا بڑا شوق تھا ۔ وہ ہر روز شام کے وقت اپنے ماتحتین کو طلب کرتے اور لطیفے سنانے لگتے ۔ ماتحتین ان لطیفوں پرجی کھول کر ہنستے ۔ ایک شام وہ حسبِ معمول اپنے ماتحتین کو لطیفے سنارہے تھے ، سب ہنس رہے تھے ، مگر ایک ملازم بالکل خاموش تھا ۔ اس نے کسی لطیفہ پر بھی ہنسنے کی زحمت گوارا نہیں کی ۔ محفل برخواست ہوئی تو اس ملازم کے دوسرے ساتھیوں نے پو چھا ’’بھئی آخر تم نے صاحب کے ایک بھی لطیفہ پر ہنسنے کی کوشش نہیں کی۔ آخر بات کیا ہے ؟ ‘‘ اس پرملازم نے کہا ۔ ’’بھئی اب مجھے ہنسنے کی کیا ضرورت ہے، میں تو کل سے وظیفہ پر علحدہ ہورہا ہوں ، تم لوگ ابھی برسرِ خدمت ہو لہذا تم پر ہنسنا فرض ہے ، ورنہ صاحب تمہارا Explanation طلب کرلیں گے‘‘۔
غفور صاحب نے یہ لطیفہ کچھ اس روانی سے سنایا کہ تکلف کی ساری فضا تہس نہس ہوگئی ۔ یوں لگا جیسے غفور صاحب کا ’’کلکٹری والا یونانی مجسمہ‘‘ اچانک پیڈسٹل سے نیچے اُتر آیا ہو اور ایک جیتے جاگتے گوشت پوست والے آدمی کے روپ میں مجھ سے ہمکلام ہو۔کئی سال سے یہ مجسمہ میرے ذہن میں جاوید و ساکت کھڑا تھا ۔ جب اس مجسمہ کا پتھر پگھلنے لگا تو میں جی ہی جی میں خوش ہونے لگا ۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے آبائی وطن کی سڑک پر پھر سے میرے مالکانہ حقوق بحال ہوگئے ہوں۔

غفور صاحب کا یہ روپ مجھے بہت پسند آیا اور اس کے بعد سے آج تک میں نے ان کے اسی روپ سے اپنے تعلق کو برقرار رکھا ہے ۔ اس دن انہوں نے بے شمار لطیفے سنائے، ہر موضوع اور ہر مسئلہ پر ، وہ سچ مچ لطیفوں کے سوداگر ہیں۔ آپ کو جتنے لطیفے چاہئیں ان سے لے لیجئے ۔ عمدہ لطیفے ، اعلیٰ قسم کے لطیفے ، پائیدار لطیفے ، کسی موضوع یا مسئلے پر اگر وہ لطیفے سنانا شروع کردیں تو مسئلہ تو ختم ہوجائے گا لیکن غفور صاحب کے لطیفے ختم نہیں ہوں گے بلکہ بعد کو ان کے لطیفے خود ایک مسئلہ بن جائیں گے ۔ بات میں سے بات یوں پیدا کریں گے جیسے ہم ہندوستانی بڑی صفائی سے بچے پیدا کرلیتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا ۔ میں ان سے حیدرآباد میں متعارف ہوا تھا ، چند دنوں بعد انہوں نے مجھے بمبئی  آنے کی دعوت دی ۔ سرسنگار سمسد کے قہقہہ پروگرام میں شرکت کرنے کیلئے ۔
بمبئی میں غفور صاحب کو دیکھ کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ بیماریوں کے معاملہ میں ’’زندہ طلسمات‘‘ کو جو اہمیت حاصل ہے وہی اہمیت بمبئی کی تہذیبی زندگی میں غفور صاحب کو حاصل ہے ۔ آپ کو کوئی بھی تہذیبی عارضہ لاحق ہوجائے تو آپ سیدھے غفور صاحب کے پاس چلے جایئے ۔ بمبئی کا ہر تہذیبی مسئلہ غفور صاحب سے شروع ہوتا ہے اور ان ہی پر ختم بھی ہوجاتا ہے ۔ سردار جعفری نے غفور صاحب کے بارے میں کہیں لکھا ہے کہ ’’بمبئی کی تہذیبی زندگی غفور صاحب کے بغیر نامکمل رہتی ہے ‘‘۔ اس جملہ میں یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ ’’ مگر بمبئی کی تہذیبی زندگی کے بغیر غفور صاحب کافی مکمل رہتے ہیں‘‘۔ غرض جس کسی شخص کے ذہن میں بمبئی کی تہذ یبی زندگی کو خوشگوار بنانے کا سودا سماتا ہے ، وہ سیدھے غفور صاحب کے پاس چلا جاتا ہے ۔

اگر آپ کو کسی ادیب کی سالگرہ منانی ہو تو غفور صاحب کے پاس چلے جایئے ۔ کسی فنکار کی برسی منانا چاہتے ہوں تو غفور صاحب کو پکڑیئے ۔ کسی کا تعزیتی جلسہ منعقد کرنا ہو تو غفور صاحب موجود ہیں ۔ موسیقی کی محفل آراستہ کرنا ہو تو غفور صاحب سے رجوع کیجئے ۔ حد تو یہ کہ قوالی کی محفلیں بھی غفور صاحب کی زد میں آجاتی ہیں ۔ یہ کرنا ہو تو غفور صاحب۔ وہ کرنا ہو تو غفور صاحب ۔ کہیں یہ ہورہا ہو تو غفور صاحب ، کہیں وہ ہورہا ہو تو غفور صاحب۔
یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ غفور صاحب کو صرف لطیفوں سے ہی نہیں بلکہ سارے فنونِ لطیفہ سے دلچسپی ہے ۔ موسیقی سے انہیں بے پناہ لگاؤ ہے ۔ ایک بار میں نے ان کے مکان پر بمبئی کے ایک مشہور فلمی میوزک ڈائرکٹر کوان سے موسیقی کے مسئلہ پر تبادلہ خیال کرتے دیکھا تھا ۔ مجھے یہ گمان ہوتا ہے کہ کہیں غفور صاحب ’’پلے بیک میوزک ڈائریکشن‘‘ بھی نہ دیتے ہوں اور ہمیں اب تک اس کی خبر نہ ہوسکی ہو۔ ان کا گھر بمبئی کے فلم اسٹاروں ، فنکاروں ، مصوّروں ، ادیبوں ، شاعروں ، دانشوروں اور صحافیوں کا مرکز ہے۔ وہ ہر شخص سے اُس کے پسندیدہ موضوع پر بات کرنے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ صحافی سے بات کریں گے تو صحافی بن جائیں گے ۔ مصور سے بات کریں گے تو مصور بن جائیں گے ۔ صرف ایک ہی معاملہ میں میں نے انہیں بے بس پایا ہے یعنی جب وہ اپنی بیوی سے بات کرتے ہیں تو خود بیوی نہیں بن سکتے ۔ کیا کریں یہ تو قدرت کی مجبوری ہے۔ اگر ان کا بس چلتا تو وہ یہ بھی بن جاتے ۔ اتنی تیزی سے مختلف سانچوں میں ڈھلنے والی شخصیتیں میں نے بہت کم دیکھی ہیں۔
غفور صاحب کی خوبی یہ ہے کہ وہ جس کام میں منہمک ہوجاتے ہیں اسے پورا کر کے رہتے ہیں۔ پھر کسی رکاوٹ یا مجبوری کا خیال نہیں کرتے ۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے جس کا تعلق سردی سے اُن کی ’’الرجی‘‘ سے ہے ۔ الرجی بڑی عجیب و غریب اور لطیف شئے ہوتی ہے ۔ ہر شخص کو کسی نہ کسی شئے سے ا لرجی ہوجاتی ہے ۔ مثلاً امیر آدمی کو غریب سے الرجی ہوتی ہے ۔ تاجر کو انکم ٹیکس کے عہدیداروں سے الرجی ہوتی ہے ۔ سوتنتر پا رٹی کو سوشلزم سے الرجی ہوجاتی ہے ۔ امریکہ کو ویتنام سے الرجی ہوتی ہے ۔ ماوزے تنگ کو روس سے اور اسرائیل کو عربوں سے الرجی ہوجاتی ہے ۔ غفور صاحب چونکہ کوئی سیاسی شخصیت نہیں ہیں اس لئے انہیں صرف سردی سے الرجی ہوجاتی ہے ۔ جیسے ہی کوئی سرد شئے غلطی سے ان کے بدن میں پہنچ جاتی ہے ، سیکنڈوں میں ان پر کھانسی کا شدید دورہ پڑتا ہے ۔ پھر کھانسی بھی ایسی شدید کہ سانس لینا بھی دوبھر ہوجائے اور دیکھنے والا خوف زدہ ہوجائے ۔ ایک دن وہ ا پنے مکان میں بیٹھے حسب معمول نئے نئے لطیفے سنا رہے تھے کہ غلطی سے انہوں نے دوا کی ایسی گولی کھالی جس سے انہیں ا لرجی ہوجاتی ہے ۔ انہوں نے آدھا لطیفہ ہی سنایا تھا کہ کھانسی کا شدید دورہ پڑا ۔ لطیفہ جوں کا توں رہ گیا اور ہم سب لوگ پریشان ہوگئے ۔ اب غفور صاحب نہ سانس لے سکتے ہیں، نہ بات کرسکتے ہیں اور نہ ہی چین سے بیٹھ سکتے ہیں۔ اُن کی اس حالت کو دیکھ کر میں بھی سانس لینا کم و بیش بھول گیا ۔ فوراً ڈاکٹر کو بلایا گیا اور جیسے ہی اس نے اینٹی الرجی انجکشن دیا ۔ وہ اچانک نارمل حالت پر آگئے ۔ میں اس وقت تک اس ادھورے لطیفے کو بھول گیا تھا ۔ بھلا ایسی حالت میں کس کی شامت آئی ہے کہ وہ لطیفہ کے بارے میں سوچے لیکن جیسے ہی غفور صاحب کا نظام تنفس بحال ہوا اور وہ بات کرنے کے قابل ہوئے تو انہوں نے اپنی تکلیف یا الرجی کے بارے میں کوئی رسمی اظہار خیال کئے بغیر اچانک وہ ادھورا لطیفہ سنانا شروع کردیا کہ ’’ہاں بھئی، تو ہمارا لطیفہ کہاں تک پہنچا تھا تو پھر آگے یوں ہوا کہ …‘‘ اور پھر انہوں نے بڑے اطمینان سے نہ صرف لطیفہ کو مکمل کیا بلکہ لطیفہ سے متعلق ضروری ہنسی بھی ہنس دی۔
غفور صاحب کا حلقہ احباب بے حد وسیع ہے ۔ حیرت ہوتی ہے کہ آخر وہ انواع و اقسام کے دوستوں سے کس طرح نباہ کرلیتے ہیں۔ تاجر ، ادیب ، فنکار موسیقار، سرمایہ دار، سیاستداں، مزدور ، فلمی اداکار غرض ہر قماش کا آدمی اُن کا دوست ہوگا اور آپ اُن کی شخصیت کی لچکداری کے بارے میں سوچ سوچ کر حیران رہ جائیں گے۔ اردو طنز و مزاح سے انہیں خصوصی دلچسپی ہے ۔ انہوں نے ہر سطح پر اس صنفِ ادب کی ترقی میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ ’’قہقہہ زار ‘‘ کے بعد ’’شگوفہ زار‘‘ لالہ زار ‘‘ اور ’’گل و گلزار‘‘ کی اشاعت کے ذریعہ انہوں نے اردو طنز و مزاح کو بہت کچھ دیا ہے ۔ کنہیا لال کپور نے ایک بار ایک محفل میں ’’شگوفہ زار‘‘ کے بارے میں فرمایا تھا ۔ ’’یہ کتاب اردو طنز و مزاح کی ایک ڈائرکٹری ہے اور اسے ہر مزاح نگار کو پڑھنا چاہئے‘‘۔
غفور صاحب ادبی محفلوں میں لطیفے بھی سناتے ہیں۔ لطیفہ سنانے کا ڈھنگ انہیں خوب آتا ہے ۔ وہ لطیفہ کو آدمی کے اوپر اچانک مسلط نہیں کرتے بلکہ دھیمے دھیمے لطیفے کی لطافت کو سننے والے کے اندر اُتار دیتے ہیں ۔ یہی ادا ان کے مزاحیہ مضامین کی بھی ہے ۔ ان کے مزاحیہ مضامین پڑھئے تو احساس ہوگا کہ آپ بیک وقت شرافت اور ظرافت دونوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ غفور صاحب جیسی شخصیتیں ہماری ادبی و تہذیبی زندگی کا اثاثہ ہوتی ہیں اور ایسی شخصیتوں کو دیکھ کر ہی ہمیں یک گونہ اطمینان ہوتا ہے کہ ابھی ہمارے ملک میں شریف اور نیک نفس انسانوں کی پیدائش ممنوع قرار نہیں دی گئی ہے۔ شریف آدمی اگر پیدا ہونا چاہیں تو وہ پیدا ہوسکتے ہیں اور اپنے کئے کی سزا پاسکتے ہیں۔
(1970 ء)