خواتین کی سماجی خدمت یا نمائش

ثریا جبین
بڑے گھرانوں کی خواتین کو گھر میں کچھ کام نہیں ہوتا، آخر وہ اپنا سارا وقت کس طرح گزاریں ؟ زیادہ تر خواتین کسی صنعت کار ، بزنس مین یا پھر اعلیٰ عہدیدار کی شریک حیات ہوتی ہیں۔ وہ اپنی تعلیم صلاحیت ، تجربہ سے معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتی ہیں۔ اس طرح وقت کا بہترین مصرف اور بہترین سماجی جہد کار ہونے کا سرٹیفکٹ مل جاتا ہے ۔ سماج سدھار کے کاموں میں دلچسپی لینے سے ان کی خوب شہرت ہوتی ہے ۔ سڑکوں پر جب وہ معائنہ کیلئے نکلتی ہیں تو راستہ میں سڑکوں پر کوڑا کرکٹ کے انبار دکھائی دیتے ہیں۔ وہ فوراً ہاتھ میں جھاڑو تھام لیتی ہیں اور ساتھی ورکرس کے ساتھ صفائی میں لگ جاتی ہیں۔ یہ خواتین فوٹو گرافر کو ہمیشہ ساتھ رکھتی ہیں۔ا یسے موقعوں کی خاص تصاویر لے کر اسے اخبار میں شائع کرواتی ہیں ۔ آج کل متوسط طبقہ کی خوا تین اور لڑکیاں بھی اس میدان میں آگے دکھائی دیتی ہیں۔ کیا وہ در حقیقت بے لوث ، بے ریا ، درد مند بن کر سماج کی خدمت کا جذبہ رکھتی ہیں ؟ لگتا ہے انہیں سماج کی تہذیب و معاشرت قوم کی فلاح سے زیادہ اپنی خود نمائی اور ذاتی نمائش کی خواہش ہوتی ہے۔
اکثر اسکولوں، کالجوں ، تعلیم بالغاں ، ثقافتی پروگراموں میں یہ خواتین بڑی سرگرمی سے خدمت انجام دیتی دکھائی دیتی ہیں کیونکہ اس میں نام ہوتا ہے ،شہرت ہوتی ہے ، اخبارا میں فوٹو چھپتے ہیں جس سے انہیں ذ ہنی تسکین ملتی ہے ۔ ان خواتین کے ہاتھوں سماجی بہبود کے متعلق جتنے بھی کام انجام پاتے ہیں، ان میںہمدردی کے جذبے کے بجائے پبلسٹی کی خواہش زیادہ ہوتی ہے ۔ کبھی کسی مسلم ایریا میں جاکر کسی بچے کو گود میں ا ٹھالیتا یا پھر مزدور عورت کے ساتھ مل کر اس کا بوجھ ہلکا کرتا ۔ یہ تمام مناظر کیمرہ میں قید ہوجاتے ہیں۔ اس طرح خاتون سوشیل ورکر سے زیادہ ، پریس ان کی سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہے ۔ ان کے کارناموں کو بڑھا چڑھاکر اخباروں میں جلی سرخیوں سے نمایاں کرتا ہے۔ بعض خواتین میں فطری رحم دلی اور ہم دردی کا جذبہ ہوتا ہے لیکن سماج سیوا کرتے ہوئے ان کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ ان کے جذبے کی ستائش کریں اور عوام میں انہیں مقبولیت حاصل ہو۔
متمول گھرانوں کی خواتین تو اپنا ٹائم پاس کرنے کیلئے گھر سے نکل پڑتی ہیں، ان کی تقلید میں متوسط طبقہ کی خاتون بھی پیچھے رہنا نہیں چاہتی۔ گھر میں شوہر بچے دوسرے اراکین بھی ہوتے ہیں لیکن خودنمائی کا جذبہ اس قدر غالب ہوتا ہے کہ وہ گھر کے افراد کو نظر انداز کردیتی ہیں۔ انہیں باہر کی فکر کے آگے اپنے شوہر اور بچوں کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ بچوں کے ہاتھ میں اسکول جاتے وقت کچھ پیسے تھما دیتی ہیں۔ بچوں کی نگہداشت ، تربیت ماں کی اولین ذمہ داری ہے ۔جب ماں دن بھر اپنا وقت باہر گزارے تو ایسے بچوں کی کیا خاک تربیت ہوگی۔
آج کی سماجی کارکن چائلڈ ویلفیر سوسائٹی کے جلسوں سے خطاب کرتی ہے۔ بچوں کی تربیت کے بارے میں کئی نفسیاتی نظریات بیان کرتی ہے ۔ مگر اپنے بچوں کیلئے اس کے پاس ایک نظریہ بھی نہیں۔ یہ سماجی کارکن جو اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پاتیں۔ وہ بھلا پاس پڑوس کی کیا خبر رکھ سکتی ہیں؟ پڑھی لکھی خواتین اکثر سماجی مسائل تو حل کرلیتی ہیں لیکن پڑوس کیلئے وہ معاملہ فہم ثابت نہیں ہوتیں۔ سماجی خدمت کا پہلا حق تو پڑوس کو حاصل ہوتا ہے ۔ ان کے دکھ سکھ ، مسائل کو حل کرتا۔ اچھے روابط رکھتا ، مشکل وقت میں ان کے کام آتا۔ان کی پریشانی کو بانٹتا ۔ کیا یہ سماجی خدمت نہیں ؟
گھرمیں ڈھیروں کچرا پڑا رہتا ہے ، اس کی صفائی کی فکر نہیں۔ باہر کے کچرے کو صاف کرنے جٹ جاتی ہیں۔ ایک مشہور سماجی کارکن کو وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ وہ اپنے شوہر اور بچوں کے لئے ان کی پسند کا کھانا تیار کرسکیں۔ اتفاق سے ایک دن کھانا پکانے والی ماما غیر حاضر ہوگئی۔ لا محالہ انہیں کچن میں جانا پڑا۔ شوہر سے کہنے لگیں۔ آج میں آپ کو اپنے ہاتھ کا بنا کھانا کھلاؤں گی۔اگر پسند نہ آئے تو ہم کسی اچھے سے ہوٹل چلے جائیں گے ۔ شوہر نے اثبات میں سر ہلایا ۔پھر جب وہ کھانا تیار کرکے کچن سے باہر آئیں تو دیکھا شوہر تیار بیٹھے ہیں۔ ایسی بیوی جو شوہر کو اپنے ہاتھ کا بنا کھانا نہ کھلاسکے ، اس کا سماجی کارکن بن کر باہر کے لوگوں کیلئے کھانے کا انتظام کرنا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔ گھر میں نوکر چاکر ہیں، شوہر کی خدمت کیلئے لیکن کیا وہ ایسی خدمت اور راحت اپنے مالک کو دے سکتے ہیں جوایک بیوی اپنے شوہر کو دے سکتی ہے ۔ شوہر کو ملازم سے آرام نہیں مل سکتا۔ بیوی کی محبت کے دو بول کا وہ محتاج ہوتا ہے ۔ گھر پرسکون بیوی اور بچوں سے ہی مل سکتا ہے۔
آجکی خواتین اچھی بیوی ، اچھی ماں اور اچھی پڑوسن کے یہ تین اہم رول خوش اسلوبی سے انجام دیں تو اسے سوشیل ورکر بننے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے ۔ وہ اپنے گھر بیٹھ کر ہی سارے سماج کو سدھار سکتی ہے ۔ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم و تربیت دے کر انہیں اچھا شہری بناسکتی ہے۔
جب ہر خاتون دل میں ٹھان لے کہ وہ اپنے شوہر اور بچوں کی دیکھ بھال کو اولین ترجیح دے گی تو پھر ہر گھر سے نکل کر یہ نو نہال ملک و عوام کا بہترین اثاثہ ثابت ہوں گے۔