خواتین کیلئے طواف زیارت

سوال : ایک خاتون حج کا اردہ رکھتی ہے ، اس کو اندازہ ہے کہ وہ دوران حج طو اف زیارت سے قبل ناپاکی کی حالت میں آجائے اور واپسی تک پاکی کی توقع نہ ہو تو اس کیلئے شرعاً کیا حکم ہے ؟
نام…
جواب : طواف زیارت حج کے ا رکان میں سے ہے ۔ اس کو ترک کرنے سے حج ادا ہی نہیں ہوتا۔ عالمگیری ، کتاب المناسک ص : 219 میں ہے : (وامارکنھا فشیأن) الوقوف بعرفۃ و طواف الزیارۃ لکن الوقوف أقوی من الطواف کذا فی النھایۃ۔
طواف زیارت کا وقت ایام نحر یعنی 10 ذی الحجۃ کی صبح سے 12 ذی الحجۃ کے غروب آفتاب تک ہے ۔ ایام نحر کے بعد طواف زیارت کرنے سے ’’دم‘‘ ایک بکری قربانی دینا لازم آئے گا ۔ اسی کتاب کے ص : 232 میں ہے : ثم یطوف بالبیت فی یومہ ذلک طواف الزیارۃ ان استطاع أو من الغدأو بعد الغدو لا یؤ خر ذ لک ۔ در مختار 538/3 میں ہے : فان أخرہ عنھا ای ایام النحر ولیا لیھا منھا کرہ تحریما ۔ ووجب دم لترک الواجب ۔ البتہ وہ خواتین جن کو حج کے دوران حیض کے ایام شروع ہوجا ئیں ان کیلئے شریعت مطھرہ میں رخصت ہے ، چنانچہ اسی طرح کا واقعہ عہد نبوی میں پیش آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابیہ کو طواف زیارت کے علاوہ تمام مناسک حج ادا کرنے کی ہدایت دی اور فرمایا پاک ہونے کے بعد طواف زیارت ادا کرو۔ عن عائشۃ رضی الہ عنھا أنھا لما حا ضت قبل دخول مکۃ فی حجۃ الوداع قال لھا النبی صلی اللہ علیہ وسلم افعلی ما یفعل الحاج غیران لا تطوفی با البیت حتی تطھری ۔ بخاری (305) مسلم (1211)
پس صورت مسئول عنھا میں اگر کسی خاتون کو ایام نحر کے دوران حالت حیض میں رہتے اور واپسی تک پاک نہ ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کے لئے مناسب ہے کہ وہ عارضی طور پر کسی دوا کا استعمال کرے تاکہ وہ پاکی کی حالت میںطواف زیارت کرسکے اور اگر کوئی دوا کا استعمال نہ کرے اور حیض کی حالت ہی میں طواف زیارت کرے اور واپس ہوجائے تو ایسی خاتون پر ایک اونٹ قربانی دینا لازم ہوگا ۔ فتاوی عالمگیری جلد اول ص : 245 میں ہے : ولو طاف طواف الزیارۃ محدثا فعلیہ شاۃ وان کان جنبا فعلیہ یدنۃ ۔

صلوٰۃ و سلام کے وقت دوسری عبادت میں مشغول ہونا
سوال : مسجد میں سلام پڑھتے وقت کوئی دوسرا عمل جیسے نماز ، تلاوت، ذکر کرنا چاہئے یا نہیں، یا مسجد کے باہر چلے جانا چاہئے ۔ مسجد کے معتمد صاحب کہہ رہے کہ سلام پڑھتے وقت کوئی دوسرا دین کا عمل نہیں کرنا۔ مسجد سے باہر چلے جانا۔
عبدالقدیر خان، مصری گنج
جواب : مسجد میں فرض نماز باجماعت ادا ہونے کے بعد مصلی حسب منشاء قرآن کی تلاوت ، ذکر و اذکار اور وظائف صلوٰۃ و سلام میں مصروف ہوسکتا ہے۔ مسجد میں صلوٰۃ و سلام ہورہا ہو اور کوئی مصلی نماز ، قرآن کی تلاوت یا کوئی ذکر کرنا چاہتا ہے تو اس کو اختیار ہے۔ مسجد میں جو لوگ صلوۃ و سلام پڑھ رہے ہیں ، ان کو منع نہیں کرنا چاہئے ، اسی طرح جو صلوٰۃ و سلام میں شریک نہیں ہوئے اور کسی دوسری عبادت میں مصروف ہیں تو ان کو بھی دیگر عبادات مثلاً قرآن کی تلاوت وغیرہ سے منع نہ کریں۔ واضح رہے صلوٰۃ و سلام ہو یا قرآن کی تلاوت اتنی بلند آواز سے نہ ہو جس کی وجہ دوسرے مصلیوں کو ان کی عبادات ، ذکر و شغل میں خلل ہوتا ہو۔ بفحوائے آیت قرآنی یایھاالذین آمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما۔ اے ایمان والو ! تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو اور کثرت سے سلام ادا کرو۔ صلوٰۃ و سلام کا حکم مطلق ہے ۔ انفرادی و اجتماعی ، بیٹھ کر کھڑے ہوکر ادا کرنا اس آیت پر عمل کرنے میں شامل ہے۔

تین طلاق کے بعد ازدواجی زندگی گزارنا
سوال : میری ایک بہن ہے ، شادی کے چار سال بعد اس کے شوہر نے گواہوں کے روبرو تین طلاق دیدیا۔ میری بہن حنفی المذہب ہے ۔ کسی نے کہا کہ دوبارہ نکاح کرلے سکتے۔ اس بناء پر وہ دونوں دوبارہ مل گئے اور ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں ۔ طلاق کے وقت بیوی حاملہ تھی ۔ شرعاً کیا حکم ہے ؟
نام مخفی
جواب : بشرط صحت سوال شوہر نے جس وقت اپنی حاملہ زوجہ کو گواہوں کے روبرو تین طلاق دیا اسی وقت بیوی پر تین طلاق واقع ہوکر شوہر سے تعلق زوجیت بالکلیہ منقطع ہوگیا ۔ دونوں میں رشتہ نکاح قطعاً باقی نہ رہا اور تین طلاق واقع ہونے کی صورت میں وہ دونوں بغیر حلالہ آپس میں دوبارہ عقد بھی نہیں کرلے سکتے تھے ۔د ونوں بغیر حلالہ دوبارہ ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں تو وہ شرعاً حرام ہے ، دونوں کا فی الفور ایک دوسرے سے علحدہ ہونا لازم ہے ۔ جانتے بوجھتے ان کا تعلق زن و شوہر قائم کرنا شرعاً زنا ہے۔ کوئی شخص کہے کہ تین طلاق سے ایک طلاق واقع ہوتی ہے یا حلالہ کے بغیر دوبارہ نکاح کی گنجائش رہتی ہے تو شرعاً ایسا شخص ناواقف ہے۔

ماں باپ کا نفقہ
سوال : ہمارے عزیزوں میں ایک صاحب ضعیف ہیں، ان کو دو لڑکے ہیں۔ دونوں بھی کمائی پوت ہیں، ایک کی آمدنی زیادہ ہے اور ایک کی کم ہے ۔ کم کا مطلب یہ نہیں کہ وہ والد کے نفقہ کا متحمل نہیں، وہ تنہا والد کا نفقہ و ضروری اخراجات کی تکمیل کرسکتا ہے ۔ اب دونوں بھائیوں میں اختلاف ہورہا ہے ۔ ایک کہتا ہے کہ جس کی آمدنی زیادہ ہے وہ اضافہ خرچ کرے اور جس کی آمدنی کم ہے وہ کم خرچہ کرلے گا۔ شرعاً کیا حکم ہے؟
نام…
جواب : تنگدست باپ کا نفقہ اولاد پر لازم ہے اور تمام اولاد ادائیگی نفقہ میں برابر ہے۔ یعنی ہر ایک پر برابر برابر نفقہ لازم ہوگا۔ عالمگیری جلد اول ص : 564 میں ہے: قال و یجبرالولد الموسر علی نفقۃ الابوین ا لمعسرین … واذا اختلطت الذکور والاناث فنفقۃ الا بوین علیھما علی السویۃ فی ظاھر الروایۃ
پس دونوں لڑکے ادائیگی نفقہ کے متحمل ہیں تو دونوں پر مساوی مساوی نفقہ کی ادائیگی کا وجوب ہوگا ۔ ایک کی آمدنی زائد ہو تو اس کو زائد ادا کرنے کا شرعاً لزوم نہیں۔ تاہم جو خرچ کرے گا وہ اجر و ثواب کا مستحق قرار پائے گا۔

مسجد سے متصل مکان میں اقتداء
سوال : مسجد سے متصل مکان سے خطبہ کی آواز گھر میں آتی ہے، گھر میں خطبہ سن کر جمعہ کی نماز پڑھ سکتے ہیں ؟
آج کل غیبت ، چغلی کا چلن عام ہوچکا ہے ، غیبت و چغلی سے متعلق تفصیل بیان کریں تو مہربانی ہوگی۔
محمد ادریس، ورنگل
جواب : اقتداء کے صحیح ہونے کیلئے اتصالِ صفوف یعنی صفوں کا متصل ہونا ضروری ہے ۔ اگر دوصف کا فاصلہ آجائے یا صفوں کے درمیان کوئی راستہ ہو جس میں کوئی گاڑی جاسکتی ہو تو احناف کے نزدیک اقتداء درست نہیں ہے ۔ نیز امام کی آواز کا مائکروفون کے ذریعہ سنائی دینا اقتداء کیلئے کافی نہیںہے۔ اس لئے آپ کو چاہئے کہ آپ مسجد ہی میں جمعہ کی نماز ادا کیجئے ۔ سوال میں کچھ تفصیلات و تصریحات مذکور نہیں۔اس لئے اقتداء سے متعلق بنیادی باتیں بیان کردی گئی ہیں۔
– 2 شرعاً ’’غیبت‘‘ اور ’’نمیمہ‘’ دونوں حرام ہیں۔ غیبت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کسی سے متعلق ایسی چیز کو بیان کریں جس کو وہ ناپسند کرتا ہو۔ واقعی وہ چیز اس میں موجود ہو تو غیبت ہے اور نہ ہو تو اس پر بہتان و تہمت ہے، وہ بھی حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا یغتب بعضکم بعضا أیحب أحد کم أن یاکل لحم اخیہ میتافکرھتموہ واتقواللہ ان اللہ تواب رحیم۔(الحجرات)
ترجمہ َ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ، کیا کوئی پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کا مردار گوشت کھائے ۔ تم اس کو ناپسند کرتے ہو اللہ سے ڈرو! یقیناً اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ مہربان ہے۔ (سورۃ الحجرات) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الغیبۃ اشدمن الزنا ۔ غیبت زنا سے بڑھ کر ہے۔ صحابہ نے عرض کیا : کس طرح بڑھ کر ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدمی زنا کرتاہے پھر صدق دل سے نادم و پشیماں ہوکر توبہ کرتا ہے (اور آئندہ نہ کرنے کا عہد واثق کرتا ہے) تو اللہ اس کی توبہ کو قبول فرمالیتا ہے لیکن جس کی غیبت کی جائے جب تک وہ معاف نہ کرے غیبت کرنے والے کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔
’’نمیمہ‘‘ کہتے ہیں لوگوں کی بات کو دوسروں تک فساد کی نیت سے پہنچانا ایک سنگین و مہلک بیماری ہے اور اصلاح بین الناس لوگوں میں صلح صفائی کرانے کے حکم کے خلاف ہے ۔ غیبت اور نمیمہ دونوں سے آخرت میں ناکامی اور دنیا میں رسوائی ہوتی ہے ، آدمی کی عزت ختم ہوجاتی ہے اور وہ لوگوں کی نظروں میں ذلیل و خوار ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔

صف میں تنہا نماز پڑھنا
سوال : اگر ہم مسجد میں ایسے وقت داخل ہوں جبکہ جماعت شروع ہوچکی ہو اور پہلی صف مکمل ہوچکی ہو اور دوسری صف میں کوئی بھی کھڑے ہوئے نہ ہو، ایسے وقت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ۔ کیا دوسرے شخص کے آنے کا انتظار کرنا چاہئے ؟ بعض کہتے ہیں کہ پہلی صف میں کسی دوسرے شخص کو لیکر شریک کر لینا چاہئے ۔ تنہا صف میں کھڑے ہوں تو نماز نہیں ہوگی ؟ کیا یہ صحیح ہے ؟ اس سلسلہ میں شرعی احکام کیا ہیں ؟
ای میل
جواب : سوال میں ذکر کردہ صراحت کے مطابق اگر کوئی ایسے وقت مسجد میں داخل ہو اگلی صف مکمل ہوچکی ہو اور ساتھ میں کوئی اور نہیں ہے تو ایسے وقت میں بہتر ہے کہ سامنے والی صف سے کسی کو لیکر دوسری صف بنائی جائے۔ بشرطیکہ جس کو آپ پیچھے لے رہے ہیں۔ وہ مسائل سے واقف ہو ورنہ فتنہ ہوگا۔ ایسے وقت میں اگر وہ تنہا صف میں پڑھ لے تو نماز تو ہوجائے گی اور عذر ہو تو کراہت نہیں رہے گی اور بلا عذر تنہا صف میں کھڑے ہوں تو مکروہ ہوگا۔

جدہ سے عزم حج اور قصر نماز
سوال : میرا سوال یہ ہے کہ میں جدہ (سعودی عرب) میں مقیم ہوں، اگر میں حج کو جاؤں تو منیٰ ، مزدلفہ اور عرفات میں مجھے نماز قصر کرنا ہوگا یا جدہ میں رہنے کی طرح مکمل پڑھنا ہوگا۔ جواب عنایت فرمائیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔
حافظ محمد محمود حسین، جدہ
جواب : اڑتالیس (48) میل سے زا ئد کی مسافت پر سفر کا اطلاق ہوتا ہے ۔ جدہ سے منی ، مزدلفہ ، عرفات، 48 میل یا زائد کی مسافت ہو تو آپ منی، مزدلفہ و عرفات میں نماز قصر کریں گے۔