خواتین کیلئے جماعت

سوال : آج کل خواتین میں یہ رجحان دیکھا جارہا ہے کہ وہ جمعہ و تراویح وغیرہ نمازوں کیلئے مسجد میں باجماعت ادا کرنے کی طرف میلان رکھ رہی ہیں اور دلیل و حجت کے طورپر دیگر ممالک کی مثالیں دے رہی ہیں۔ شرعی نقطہ نظر سے خواتین کیلئے جماعت کا کیا حکم ہے ؟ کیا ان کو مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے یا نہیں؟
اسماء تبسم ، سلیم نگر
جواب : شرعاً خواتین کیلئے کوئی جماعت نہیںہے ، ان کو اپنے گھر میں نماز ادا کرنے کا حکم ہے۔ شریعت مطھرہ میں خواتین کیلئے جماعت مشروع نہیں ہے ۔ جماعت سے نماز ادا کرنے کا حکم مردوں کیلئے ہے ۔ بدائع الصنائع جلد اول ص 582 میں ہے : واما المراۃ فلا نھا مشغولۃ بخدمۃ الزوج ممنوعۃ عن الخروج الی محافل الرجال لکون الخروج سببا للفتنۃ و لھذا لاجماعۃ علیھن ولا جمعۃ علیھن ایضا۔
لہذا خواتین کو چاہئے کہ وہ اپنے گھروں میں نماز کا اہتمام کریں۔ گھر میں نماز ادا کرنے کی وجہ سے ان کے اجر و ثواب میں کسی قسم کی کمی نہیں ہوگی۔

غیر مسلم کو زکوۃ دینا
سوال : ایک اہم سوال کی صراحت مطلوب ہے کہ قرآن مجید میں زکوٰۃ فقیر کو دینے کا حکم ہے اور ’’فقیر‘‘ میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تخصیص و تحدید نہیں ہے کہ صرف مسلمان فقیر کو زکوٰۃ دینا ہے ۔ غیر مسلم فقیر کو نہیں دینا ہے ۔ ایسی کوئی صراحت ن ہیں ہے ۔ پھر کیوں غیر مسلمین کو زکوٰۃ کی رقم ادا کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔
آنمحترم سے التجا ہے کہ اس خلش کی توضیح کریں تو مہربانی ہوگی ۔
محمد ارشد ایڈوکیٹ ، پھسل بنڈہ
جواب : زکوٰۃ کی رقم مسلمان مستحق زکوٰۃ کو دینا ضروری ہے ۔ غیر مسلم فقیر و محتاج کو زکوٰۃ کی رقم نہیں دی جاسکتی۔ اگرچہ قرآن مجید میں ’’فقراء‘‘ و ’’مساکین‘‘ میں مسلم غیر مسلم کی کوئی قید نہیں لیکن مسلمان فقیر و مسکین کی تخصیص حدیث شریف سے ثابت ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : أمرت أن آخذمن اغنیائکم و أردھا فی فقرائکم۔ مجھے حکم ہے کہ میں زکوٰۃ تمہارے مالداروں سے وصول کروں اور تمہارے (مسلمان) فقراء میں صرف کروں۔
اس حدیث کی روایت امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب اخذ الصدقۃ من الاغنیاء کے تحت کی ہے اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں ’’الایمان‘‘ باب الدعاء الی الشھادتیں و شرائع الاسلام میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے نقل کیا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قاضی بناکر ملک یمن روانہ فرمایا اس وقت ارشاد فرمایا : فان اجابوک لذلک فاعلمھم ’’ان اللہ تعالیٰ فرض علیھم صدقۃ توخذ من اغنیائھم و ترد فی فقراء ھم۔ یعنی جب وہ ان باتوں کو قبول کرلیں تو انہیں اطلاع دو کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ کو فرض کیا ہے جو ان کے (مسلمانوں کے) مالداروں سے وصول کی جاتی ہے اور ان کے فقراء پر صرف کی جاتی ہے۔
ان احادیث شریفہ سے واضح ہے کہ زکوٰۃ مسلمان مالداروں پر فرض ہے اور اس کے مستحق مسلمان فقراء و مساکین ہیں۔ اس لئے زکوٰۃ کی رقم غیر مسلم فقراء و مساکین کو نہیں دی جاسکتی۔

ہنر رکھنے والے ضرورتمند کو زکوٰۃ دینا
سوال : ایک شحص ہمارے پڑوس میں ضرورتمند ہے ، اسکو چار لڑکے، دو لڑکیاں ہیں، وہ پیشہ سے الیکٹریشن ہے۔ کبھی کام ملتا ہے اور کبھی نہیں ملتا ہے۔ اس کی وجہ سے بسا اوقات اس کے گھر کے اخراجات بڑی مشکل سے حل ہوتے ہیں۔
آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ وہ شخص ہنر رکھتا ہے کبھی اس کی کاہلی اور کبھی قسمت کی وجہ سے اسکو کام نہیں ملتا۔ بسا اوقات اس کی تلون مزاجی کی وجہ سے بھی اچھے کام اور ملازمت چھوٹ جاتی ہے ۔ کیا ایسے شخص کی زکوٰۃ سے امداد کرنا ازروئے شرع جائز ہے یا نہیں۔
محمد عبدالحلیم ، تگل کنٹہ
جواب : اگر ضرورتمند طاقتور وقوی ہو اور کمانے پر قدرت رکھتا ہو، ہنر جانتا ہو اس کے باوصف اس کا زکوٰۃ لینا شرعاً جائز ہے ۔ بشرطیکہ وہ محتاج و مستحق زکوٰۃ ہو۔ کوتاہی اور غیر دانشمندی کی وجہ سے ملازمت یا کام سے محروم ہو تو یہ عمل قابل اصلاح و لائق تنبیہ ہے۔ بدائع الصنائع جلد دوم ص 159 میں ہے : ولوکان الفقیرقو یا مکتسبا یحل لہ أخذالصدقۃ عندنا

بہن کو زکوٰۃ سے امداد کرنا
سوال : دس سال قبل ہمارے ایک عزیز بہن کی شادی ہوئی، ابتداء ہی سے شوہر اپنے فرائض و ذمہ داریوں سے غافل رہا۔ وہ نان و نفقہ سے متعلق غیر دمہ دار ہے۔ لڑکی کے والد حتی المقدور تعاون کیا کرتے تھے، ان کے انتقال کے بعد لڑکی کے بھائیاں تعاون کر رہے ہیں اور مسلسل کرتے آرہے ہیں۔ اخراجات کافی بڑھ گئے ہیں۔ بچوں کی فیس ٹیوشن کی فیس ، آٹو کے کرایہ یہ سارے اخراجات بھائیاں ہی برداشت کرتے ہیں۔ اب تک بہن کو زکوٰۃ کی رقم نہیں دی گئی۔ اب چونکہ حالات پہلے کی طرح مساعد نہیں ہیں ۔ کیا بہن اور اس کے بچوں کی امداد زکوٰۃ کی رقم سے کی جاسکتی ہے یا نہیں۔ اگر زکوٰۃ کی رقم ادا کی جاسکتی ہے تو اخراجات برداشت کرنے میں بڑی سہولت ہوگی۔
نام مخفی
جواب : بہن اور بہن کے شوہر مستحق زکوٰۃ ہوں ، یعنی ان کے پاس اتنا سونا چاندی یا سرمایہ نہ ہو جس سے وہ صاحب نصاب ہوجاتے ہوں اور ان پر زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہوتی ہو تو ایسی صورت میں محتاج بہن و ضرورتمند اس کی اولاد اور مستحق زکوٰۃ اس کے شوہر کو زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے ، شرعاً اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے ۔ بدائع الصنائع جلد دوم ص : 162 میں ہے : و یجوز دفع الزکاۃ الی من سوی الوالدین والمولودین من الاقارب و من الاخوۃ والأخوات و غیرھم لانقطاع منافع الاملاک بینھم و لھذا تقبل شھادۃ البعض علی البعض۔

غیر مسلم باپ کیلئے ایصالِ ثواب
سوال : میرا دوست ہندو تھا الحمدللہ وہ مسلمان ہوگیا اور نہایت پابند صوم و صلوٰۃ ہے اور آخرت کا خوف رکھنے والا ہے ، اس کی والدہ حیات ہے اور وہ کوشش کر رہا ہے کہ کسی طریقہ سے اس کی ماں بھی اسلام قبول کرلے اور وہ پرامید ہے کہ اس کی ماں مشرف با اسلام ہوجائے گی ۔ البتہ اس کے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ اپنے والد کیلئے ایصال ثواب کرنا چاہتا ہے تو کیا اس کا والد کیلئے ایصال ثواب کرنا جائز ہے؟ کیا اس سے اس کے والد کو آخرت میں کچھ فائدہ حاصل ہوگا یا نہیں ؟
محمد ابراہیم ، ای میل
جواب : غیر مسلم کیلئے استغفار کرنا یا ثواب پہنچانا شرعاً جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ماکان للبنی والذین آمنوا ان یستغفرواللمشرکین ولو کانوا اولی قربی من بعد ماتبین لھم انھم اصحاب الجحیم
’’نبی اور اہل ایمان کیلئے روا نہیں ہے کہ وہ مشرکین کیلئے مغفرت طلب کریں ۔ اگرچہ کہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ درانحالیکہ ان کیلئے واضح ہوگیا کہ وہ دوزخی ہیں۔ (سورۃ التوبۃ 113/9 )
پس آپ کے دوست کا اپنے کافر والد کیلئے ایصال ثواب کرنا یا مغفرت کی دعاء کرنا شرعاً جائز نہیں ۔

نابالغ لڑکے کا روزہ توڑنا
سوال : میرا لڑکا نو سال کا ہے ، وہ گزشتہ سال تقریباً دس روزے رہا ، اس سال بھی سحری کو اٹھانے کیلئے اصرار کرتا رہا ، ایک دن سحر کیلئے اٹھا اور سحری کرلیا ، اسکول جاتے وقت کہا کہ وہ اسکول میں نڈھال ہوگیا اور پانی پی لیا اور گھر آکر کھانا بھی کھالیا۔ کیا اس پر کچھ گناہ ہے ، کیا اس کو یہ روزہ کی قضاء کرنا ضروری ہے ؟
افشاں جبین ، حمایت نگر
جواب : نابالغ لڑکا لڑکی شرعی احکام ، عبادات و فرائض کے مکلف و پابند نہیں۔ قبل بلوغ روزہ فرض نہیں اگر کوئی نابالغ لڑکا روزہ نہ رہے تو وہ گنہگار نہیں اور روزہ رہ کر غروب آفتاب سے قبل روزہ توڑ دے تو اس کی وجہ سے اس پر کوئی قضاء نہیں۔ بدائع الصنائع جلد دوم ص : 233 میں ہے : و منھا البلوغ فلا یجب صوم رمضان علی الصبی و ان کان عاقلا حتی لا یلزمہ القضاء بعد البلوغ لقول النبی صلی اللہ علیہ وسلم ’’رفع القلم عن ثلاث من الصبی حتی یحتلم ومن المجنون حتی یفیق و عن النائم حتی یستیقظ۔ تاہم نابالغ لڑکا و لڑکی کو روزہ کی عادت ڈالنا چاہئے مبادا کسی وجہ سے وہ روزہ توڑدیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ۔ البتہ شرعی احکام کی اہمیت اور ان کی عظمت ان کے دلوں میں راسخ کرنا چاہئے۔

سادات کے خادم کو زکوٰۃ دینا
سوال : سادات کرام کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی ہے لیکن ایک صاحب بتا رہے تھے کہ سادات کے گھر میں جو خادم و خادمہ ہیں ان کو بھی زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی ۔ اگرچہ وہ ضرورتمند ہی کیوں نہ ہوں۔ کیا یہ شرعی اعتبار سے درست ہے یا نہیں ؟
نام ندارد
جواب : سادات بنی ہاشم کو زکوٰۃ دینا شرعاً جائز نہیں ۔ حدیث شریف میں ہے : ان الصدقۃ محرمۃ علی بنی ہاشم۔سادات کے گھر میں کام و کاج کرنے والے خادم و خادمہ چونکہ ان کے غلام باندی نہیں اس لئے اگر وہ مستحق زکوٰۃ ہیں تو ان کو زکوٰۃ ادا کی جاسکتی ہے ۔ سوال میں ذکر کردہ شخص کا ادعاء ازروئے شرع درست نہیں۔

معاش کی مجبوری سے روزہ کا ترک
سوال :روزانہ محنت و مزدوری کرنے والے شخص کا روزہ ترک کرنا کیسا ہے؟
نام ندارد
جواب : روزانہ محنت و مزدوری کر کے کھانے والا شخص کہے کہ اگر ہم کام نہیںکریںگے تو کیا کھائیں گے اور روزہ رکھ کر کام کرنے کیطاقت نہیں تو کیا ایسے شخص کیلئے رمضان کا روزہ نہ رکھنے کی گنجائش ہوگی ؟
اس مسئلہ میں کسی قدر تفصیل ہے ، اگر اس کے پاس کسی بھی نوع کا اتنا مال ہے جو اس کے اور اس کے اہل و عیال کے لئے کافی ہوجائے تو پھر عذر معتبر نہیں اور اس کیلئے روزہ توڑنے کی گنجائش نہیں ہوگی ، اسی طرح اگر ایسا کوئی کام مل جائے جسے روزہ رکھ کر کرسکتا ہے ،تب بھی روزہ توڑنا درست نہیں۔ البتہ اگر اپنے اور اہل و عیال کے کھانے کیلئے کچھ نہیں ہے اور ایسا کوئی ہلکا کام بھی نہیں مل رہا ہے جس کو روزہ رکھ کر کرسکے تو ایسی صورت حال میں اس کیلئے گنجائش ہیکہ روزہ نہ رکھے، لیکن بعد میں روزہ کی قضا واجب ہے ۔’’و ینبغی التفصیل فی مسالۃ المحترف بأن یقال أذا کان عندہ ما یکفیہ و عیالہ کا یحل لہ الفطر، لأنہ اذا کان کذلک یحرم علیہ السئوال من الناس فلا یحل لہ الفطر بالٔاولی، و ان کان محتاجا الی العمل یعمل بقدر ما یکفیہ و عیالہ حتی لو أداہ العمل فی ذلک الی الفطر ، حل لہ اذا لم یمکنہ العمل فی غیر ذلک مما لایودیہ الی الفطر من سائر الاعمال التی یقدر علیھا‘‘۔