خواتین کا دفاتر میں بے پردہ رہنا

سوال : خواتین اور دوشیزاؤں کا ملازمت اور پڑھائی کے دوران غیر محرموں سے سلام کلام کرنا اور بے پردہ رہنے کی شریعت میں کہاں تک گنجائش ہے ؟
ظہور احمد ، ظہیر آباد
جواب : مسلمان عورتوں پر پردہ لازم ہے ، وہ عورتیں جن کا کوئی پرورش کرنے والا اور سرپرست نہیںہے ۔ اپنی ضروریات معاش کیلئے موٹے دھاٹے معمولی کپڑوں میں خوب ستر و حجاب کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے باہر جاسکتی ہیں لیکن غیر محارم سے بلا ضرورت شدید بات چیت کی شرعاً اجازت نہیں۔ بے پردگی کی کوئی گنجائش نہیں۔

فاسق و فاجر امام
سوال : ایک مسجد کے امام زنا کے مرتکب ہوئے ہیں اور عورت کے گھر والے اس کی تردید نہیں کر رہے ہیں۔ یہ بات محلے میں عام ہے ۔ عورت کے گھر کے لوگ اس مسجد کو جانا ترک کردیئے ہیں۔ کیا ایسے امام کے پیچھے نماز کی اقتداء ہوسکتی ہے ؟ کیا اس امام سے روابط رکھے جاسکتے ہیں؟ کیا اس عورت کا نکاح اس کے شوہر کے ساتھ باقی ہے؟ جلد سے جلد جواب دیں۔ مہربانی ہوگی۔
نظام الدین ، ملک پیٹ
جواب : زنا کار فاسق و فاجر ہے ، گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے، اس کی اقتداء مکروہ ہے ۔ در مختار کتاب الصلوۃ باب الامامۃ میں ہے ۔ و یکرہ امامۃ عبد وأعرابی و فاسق واعمی۔ ردالمحتار میں ہے : الفاسق من الفسق و ھوالخروج عن الاستقامۃ و لعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر و الزانی و آکل الرباو نحوذلک کذا فی البرجندی۔
پس واقعی امام زناکار ہو تو اس کو علحدہ کردینا چاہئے ۔ نیز شک و شبہ کی بنیاد پر کسی پر اس قدر بڑا الزام لگانا اور کسی کی ٹوہ میں رہنا سخت معیوب ہے۔نیز زنا کی وجہ شوہر سے رشتہ منقطع نہیں ہوتا۔

شادی میں باجہ و ناچ گانا
سوال : آج کل شادیوں میں باجہ ہوتا ہے ، ایسی صورت میں شرکت کرنا کیسا ہے اور دیندار حضرات علماء ائمہ وغیرہ کیلئے کیا حکم ہوگا۔
نام …
جواب : شادی و ولیمہ کی دعوت میں اگر لغویات ، لہو و لعب اور منکرات نہیں ہیں تو ایسی دعوت کا قبول کرنا سنت موکدہ ہے ۔ شادی کی دعوت میں جہاں ناچ گانا ہے ، اگر یہ دسترخوان سے علحدہ مقام میں ہورہا ہے تو دسترخوان پر جا کر کھاسکتے ہیں ۔ اگر کھانے کے مقام میں گانا بھی ہے تو اس کو موقوف کرواکر کھاسکتے ہیں ۔ اگر مدعو شخص پیشوائے قوم مثلاً عالم یا مشائخ ہے اور گانا موقوف کروانے پر اس کو قدرت نہیں ہے تو چاہئے کہ وہاں سے نکل جائے۔ ایسی صورت میں کھانے سے رک جانا ہی اولیٰ و افضل ہے ۔ در محتار برحاشیہ ردالمحتار جلد 5 کتاب الحظر والا باحۃ میں ہے ۔ و فی التتار خانیۃ عن الینابیع لودعی الی دعوۃ فالوا جب الاجابۃ ان لم یکن ھناک معصیۃ ولا بدعۃ والا متناع اسلم فی زماننا الا اذا علم یقیناً ان لابدعۃ ولا معصیۃ۔ اھ والظاھر حملہ علی غیرالولیمۃ ۔

جائیداد کی تقسیم
سوال : ہم 6 بہنیں اور 2 بھائی ہیں۔ والدین کا ایک مکان ہے جس پر بھائیوں کا قبضہ ہے۔ بہنوں کو کوئی حصہ نہیں دیا ہے، اب ہم بہنیں اپنا حصہ کیسے حاصل کریں اور کتنا حصہ ملے گا۔ برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں۔
شیخ معز الدین قادری، نشیمن نگر، تالاب کٹہ
جواب : وراثت اجباری و اضطراری حق ہے ، صاحب جائیداد کے انتقال کے ساتھ ہی اس کی تمام جائیداد کے حقدار اس کے ورثا بشمول اس کی لڑکیاں ہوجاتی ہیں اور حصہ دار دوسرے کے حصہ میں بالکل اجنبی ہے۔ کسی ایک وارث کو کسی دوسرے وارث کے حصہ رسدی پر قبضہ و تصرف کرنے کا شرعاً کوئی حق نہیں۔ والدین کی متروکہ جائیداد میں اولاد کے علاوہ کوئی وارث نہ ہو تو فی لڑکا دو ، فی ایک لڑکی ایک کے حساب سے تقسیم عمل میں آئیگی ہے ۔ لہذا بھائیوں کو چاہئے کہ وہ اپنی بہنوں کا مقررہ حصہ رسدی ان کو حوالہ کردے، ان کی اجازت و مرضی کے بغیر ان کے حصہ پر قبضہ و تصرف کرنا شرعاً جائز نہیں۔

شوہر کی اجازت کے بغیر درگاہ کو جانا
سوال : ایک پڑھی لکھی اعلیٰ تعلیم یافتہ عورت سید گھرانے کی شوہر کے منع کرنے کے باوجود ہر روز درگاہ شام 8 بجے جاکر 11 بجے رات گھر آتی ہے ۔ ہزار بار منع کرنے کے باوجود اپنا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بتلائیں اس کے ساتھ کیا سلوک کروں۔ کیا طلاق دوں گا تو گنہگار شوہر ہوں گا؟ یہ عمل سات سال سے جاری ہے۔
(2 کیا عورتوں کا درگاہ پر جانا حرام نہیں؟ کیا ان پر اللہ کا عذاب نازل نہ ہوگا؟ کیا ایسی عورتیں جہنم میں داخل نہ ہوں گی۔
نام …
جواب : بیوی پر شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری لازم ہے ۔ اگرچہ حدود شرعی میں خواتین کیلئے زیارت قبر کی اجازت ہے۔ تاہم شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی نہ جائے، ورنہ وہ نافرمان کہلائے گی۔

شہادت امام حسین اور ارشاد نبویؐ
سوال : حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم تھا کہ آپ کے نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوں گے تو آپ نے روکنے کیلئے دعاء کیوں نہیں فرمائی۔
نام…
جواب : مستند کتب حدیث میں صحیح روایتوں کے ساتھ موجود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حین حیات حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عہد طفولیت میں آپ کی شہادت کی خبر متعدد موقعوں پر دی ہے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت امام الفضل بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امام عالی مقام کی شہادت کی خبر دی ہے ۔ اسی طرح متعدد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی شہادت کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے اور شہادت بہت اونچا مقام ہے۔ بظاہر تکلیف معلوم ہوتی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں جو اخروی نعمتیں ملتی ہیں اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی شہادت کی اطلاع دی اس طرح آپ اس شہادت کے صلہ میں حاصل ہونے والے مقامات عالیہ و مراحم خسروانہ سے واقف تھے اور دنیوی کلفتوں پر اخروی انعامات ہی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا فضیلت ہو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو نوجوانان جنت کے سردار ہونے کی بشارت دی ہے۔

چرم قربانی سے زکوٰۃ کی ادائیگی
سوال : سال گزشتہ رمضان شریف میں ، میں نے زکوٰۃ ادا کی ، لیکن زکوٰۃ کی تھوڑی رقم ادا کرنا باقی تھا، میں ادا نہیں کرسکا، بقرعید کے موقع پر میرے ایک عزیز نے کہا کہ چرم قربانی کی قیمت معلوم کر کے قصاب کو یا فقیر کو زکوٰۃ کی نیت سے دید و جو زکوٰۃ کی باقی رقم آپ کے ذمہ ہے ، وہ ادا ہوجائے گی ۔ میں نے ایسا ہی کیا ۔ کیا اس طرح چرم قربانی دینے سے زکوٰۃ ادا ہوتی ہے یا نہیں ۔
ضمیر احمد، ملے پلی
جواب : شریعت مطہرہ میں قربانی کے گوشت اور اس کے چمڑے کا ایک ہی حکم ہے۔ ہدایہ ج : 4 ، ص : 432 کتاب الاضحیۃ میں ہے ’’واللحم بمنزلۃ الجلد فی الصحیح‘‘۔
اور گوشت کو اگر کوئی شخص زکوٰۃ کی نیت سے فقیر کو دے تو اس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی ۔ عالمگیری ج : 5 ، ص : 301 میں ہے ’’واذا دفع اللحم الی فقیر بنیۃ الزکوٰۃ لا یحسب عنھا فی ظاھر الروایۃ‘‘ اور اس کے ص : 308 میں ہے ’ ’تصدق بلحم الاضحیۃ علی الفقراء بنیۃ الزکوٰۃ لا یجزئہ فی ظاھر الروایۃ‘‘ یعنی اگر کوئی قربانی کا گوشت فقراء کو زکوٰۃ کی نیت سے دے تو اس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی ۔ بناء بریں چرم قربانی اگر زکوٰۃ کی نیت سے دی جاتی ہے تو شرعاً زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ لہذا آپ نے چرم قربانی کے ذریعہ زکوٰۃ کی جو نیت کی تھی اس سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی ۔ آپ پر زکوٰۃ کی باقی رقم واجب الادا ہے۔
قربانی کے جانور کی قیمت صدقہ کرنا
سوال : اگر کوئی شخص قربانی نہ دے اور اس کی قیمت فقراء اور مساکین پر تقسیم کرنا چاہئے تو درست ہے یا نہیں ؟
عبدالرحمن، دلسکھ نگر
جواب : قربانی شریعت میں مخصوص جانور کو مخصوص وقت میں اللہ تعالیٰ کے تقرب کی نیت سے ذبح کرنے کو کہتے ہیں ۔
درمختار برحاشیہ ردالمحتار ج : 5 ، ص : 205 کتاب الاضحیۃ میں ہے : ھی ذبح حیوان مخصوص بنیۃ القربۃ فی وقت مخصوص اور مالدار مسلمان پر قربانی کے جانور کا خون بہانا شرعاً واجب ہے ۔ چنانچہ اسی صفحہ میں ہے (مستحب) التضحیۃ ای اراقۃ الدم عملا و اعتقادا (علی حر مسلم مقیم مؤسر) بناء بریں اگر کوئی شخص بکرے کو ذبح اور خون بہائے بغیر زندہ خیرات کردے یا اس کی قیمت خیرات کردے تو اس سے قربانی ادا نہیں ہوتی بلکہ اس کو دوسرا بکرا ذبح کرنا پڑے گا۔
عالمگیری ج : 5 ، ص : 293 کتاب الاضحیۃ میں ہے ۔ حتی لو تصدق بعین الشاۃ او قیمتھا فی الوقت لا یجزیہ عن ا لاضحیۃ۔
اور رد المحتار ج : 5 ، ص : 210 میں نہایہ سے منقول ہے : فان تصدق بعینھا فی ایامھا فعلیہ مثلھا مکانھا لان الواجب علیہ الاراقۃ۔
پس دریافت شدہ مسئلہ میں قربانی کے جانور کی قیمت یتیم ، بیوہ ، فقراء کو دینے سے شرعاً قربانی ادا نہیں ہوتی۔

ایام تشریق میں فوت شدہ نماز کی قضاء
سوال : ایام تشریق میں یوم عرفہ سے 13 ذی الحجہ کی عصر تک ہر نماز کے بعد تکبیر پڑھی جاتی ہے ۔ اگر ولو بالفرض ان دنوں میں سے کوئی ایک نماز قضاء ہوجائے تو ایام تشریق کے بعد اس کو ادا کیا جائے تو کیا تکبیر پڑھنا ضروری ہے یا نہیں ؟
سید مدثر ، جہاں نما
جواب : ایام تشریق میں اگر کوئی نماز فوت ہوجائے اور ایام تشریق کے بعد اس کی قضاء کرے تو شرعاً قصاء نماز میں تکبیر مشروع نہیں۔ بدائع الصنائع ج : 1 ، ص : 327 میں ہے : اذا فاتتہ صلوۃ فی ایام التشریق فقضا ھا فی غیرھا أنہ یقضیھا بلا تکبیر لانہ لیس فی وقت القضاء تکبیر مشروع لیصیر مالہ الی ما علیہ فسقط اصلا۔