خلیق انجم کچھ یادیں کچھ باتیں

مجتبیٰ حسین
یہ 1972 ء کی بات ہے جب میں حکومت آندھراپردیش کے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے اردو شعبہ سے وابستہ تھا۔ ایک دن ایک سرکاری مراسلہ وزارت تعلیم ، حکومت ہند کی جانب سے مجھے موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ میں دو برسوں کی مدت کیلئے ڈپیوٹیشن (Deputation) پر دہلی آؤں اور (Committe for Promotion of urdu) کی رپورٹ کی تیاری میں کمیٹی کا ہاتھ بٹاؤں۔ یہ وہی کمیٹی ہے جس نے بعد میں سارے ملک میں ’’گجرال کمیٹی‘‘ کے نام سے شہرت پائی ۔ اندر کمار گجرال مرکزی وزیر اطلاعات اس کمیٹی کے صدرنشین تھے۔ علی جواد زیدی اس کے سکریٹری اور خلیق انجم اس کے ڈائرکٹر تھے ۔ اس کے ارکان میں کرشن چندر ، سجاد ظہیر ، ڈاکٹر سروپ سنگھ ، آل احمد سرور، عابد علی خاں، احتشام حسین ، مالک رام وغیرہ جیسی نا بغۂ روزگار ہستیاں شامل تھیں۔ 19 ستمبر کو میں کمیٹی کے دفتر میں رجوع بکار ہونے کیلئے دہلی کے شاستری بھون میں پہنچا تو پہلے علی جواد زیدی سے ملاقات کی ۔ میرے دہلی آنے پر بڑی خوشی کا اظہار کیا اور ہدایت دی کہ میں ڈاکٹر خلیق انجم سے ملوں جو اسی عمارت کے ‘C’ بلاک میں بیٹھا کرتے تھے۔ خلیق انجم نہایت تپاک سے ملے ۔ انہیں یاد تھا کہ 60 کی دہائی کے اوائل میں حیدرآباد کے اورینٹ ہوٹل میں ان سے میری سرسری سی ملاقات ہوئی تھی ، جب وہ اپنے کسی تحقیقی کام کے سلسلہ میں حیدرآباد آئے تھے ۔ تاہم ان سے باضابطہ ، مسلسل اور تفصیلی ملاقاتوں کا آغاز گجرال کمیٹی کے حوالہ سے ہی ہوا ۔ شروع شروع میں ہم دونوں ایک ہی کمرے میں بیٹھا کرتے تھے ۔ بعد میں غلام ربانی تاباں بھی بیٹھنے لگے تھے۔ میں نے خلیق انجم کو نہایت ملنسار ، خوش اخلاق ، شائستہ اور مہذب انسان کے روپ میں پایا ۔ تاہم بات چیت کے دوران ان کی برجستہ گوئی ، بذلہ سنجی ، حاضر جوابی اور فقرہ بازی ان کی شخصیت کو اور بھی دلکش اور دلنواز بنادیتی تھی۔ وہ نہ صرف دُھن کے پکّے تھے بلکہ کام کے بھی سچّے تھے۔ جو کام بھی کرتے بڑے انہماک اور خلوص کے ساتھ کرتے تھے ۔ مجھے کمیٹی کی رپورٹ کیلئے درکار تاریخی مواد کو اکٹھا کرنے کی غرض سے بسااوقات نیشنل آرکائیوز کے دفتر میں بھی جانے کا موقع ملتا تھا ، جہاں چھان بین کے دوران مجھے اچانک کچھ ایسی دستاویزات بھی ملیں جن سے پتہ چلتا تھا کہ برطانوی حکومت نے اپنے دور اقتدار میں اردو کی کن کن نظموں کو ضبط کیا تھا۔ میں نے جب اس کی اطلاع علی جواد زیدی کو دی تو بہت خوش ہوئے اور مجھے مشورہ دیا کہ میں کمیٹی کے لئے درکار مواد کے علاوہ ان نظموں کو بھی جمع کرتا چلوں۔ بعد میں خلیق انجم اور میں نے مل کر ان ضبط شدہ نظموں کو کتابی شکل میں مرتب کیا جس کا اجراء وزیراعظم شریمتی اندرا گاندھی کے ہاتھوں عمل میں آیا ۔ کچھ دنوں بعد اس کا ہندی ایڈیشن بھی شائع ہوا ۔
گجرال کمیٹی نے مختلف مقامات کا طوفانی دورہ کیا اور شبانہ روز محنت کے بعد اس کی رپورٹ کو نہ صرف دو سال کی مقررہ مدت میں مکمل کرلیا بلکہ اسے حکومت کے حوالہ بھی کردیا ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اندر کمار گجرال نے اپنے اثر و رسوخ کو استعمال میں لاتے ہوئے کئی ریاستی حکومتوں کو اس بات کیلئے آمادہ کیا کہ وہ کمیٹی کی بعض سفارشات کو فوراً روبہ عمل لے آئیں۔ مثال کے طور پر کئی ریاستوں میں اردو اکیڈیمیاں قائم کی گئیں جو آج بھی موجود ہیں۔ ریڈیو پر اردو نشریات کے اوقات میں اضافہ کے علاوہ اردو اخبارات کو بعض سہولتیں بھی فراہم کی گئیں۔ مگر افسوس کہ گجرال کمیٹی کی، اردو تعلیم اور روزگار سے متعلق بہت سی اہم سفارشات آج تک ٹھنڈے بستے میں بند پڑی ہوئی ہیں۔ میں یہاں کمیٹی کے ذکر کو طول نہیں دینا چاہتا کیونکہ اس کے حشر سے ہر کوئی واقف ہے۔

خلیق انجم ٹھیٹ دہلی والے تھے اور وہ نہ صرف اس کے چپے چپے سے واقف تھے بلکہ اس کے قبرستانوں کا حال بھی خوب جانتے تھے  کہ کس قبرستان میں کون مدفون ہے۔ دہلی کے آثار قدیمہ پر بھی ان کی نظر بہت گہری تھی ۔ کسی کسی عمارت کا حال بیان کرنے بیٹھ جاتے تو یوں لگتا تھا جیسے یہ عمارت خود انہوں نے بنوائی ہو۔ دہلی کے محاوروں کے علاوہ دہلی کے کھانوں ، میلوں ٹھیلوں ، رسم و رواج ، زیورات اور ملبوسات سے بھی بخوبی آشنا تھے۔ غرض وہ دہلی میں بسے ہوئے تھے اور دہلی ان میں بسی ہوئی تھی ۔
مجھے اندازہ ہوگیا تھاکہ دہلی میں خلیق انجم کے تعلقات نہایت وسیع ہیں اور ان کا رسوخ بہت بااثر ہے۔ اُن دنوں وہ مشہور سماجی کارکن اور رہنما سبھدرا جوشی کے رسالے ’’سکیولر ڈیموکریسی ‘‘ کے اردو ایڈیشن کے ایڈیٹر بھی تھے ۔ ایک دن میں نے ان کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ وہ ہولی کے موقع پر اپنے رسالہ کی جانب سے ایک مزاحیہ مشاعرہ منعقد کریں۔ چنانچہ 1973 ء میں یہ تاریخی مشاعرہ لال قلعہ کے سامنے وسیع میدان میں منعقد ہوا جس میں ہزاروں شائقین ادب نے شرکت کی تھی ۔ اس میں شمالی ہند کے مزاحیہ شعراء کے علاوہ حیدرآباد کے کئی مزاحیہ شعراء جیسے سلیمان خطیب ، حمایت اللہ ، بوگس حیدرآبادی ، مصطفیٰ علی بیگ وغیرہ کو بھی خصوصی طور پر مدعو کیا گیا ۔  بعد میں شمالی ہند میں ان دکنی شعراء کی مقبولیت میں خاصہ اضافہ ہوا۔ اس کامیاب تاریخی مشاعرہ کو لوگ اب بھی یاد کرتے ہیں۔ غرض کمیٹی کے کام کے سلسلہ میں خلیق انجم کی رفاقت میںدو سال کچھ ایسے خوشگوار گزرے کہ ہمیشہ یاد رہیں گے۔ کمیٹی کا کام ختم ہوا تو مجھے اصولاً حیدرآباد کے محکمہ اطلاعات میں اور خلیق انجم کو کروڑی مل کالج میں واپس جانا تھا ، مگر خدا کی کرنی کچھ ایسی ہوئی کہ مجھے این سی ای آر ٹی میں ایک اچھی ملازمت مل گئی اور خلیق انجم انجمن ترقی اردو کے جنرل سکریٹری کے عہدہ پر فائز ہوگئے۔ میں تو خیر بعد میں اپنے مقررہ وقت پر ملازمت سے ریٹائر ہوگیا لیکن خلیق انجم 2012 ء تک اپنے عہدہ پر ڈٹے رہے۔ یوں خلیق انجم سے دہلی میں لگاتار اور بے شمار ملاقاتوںکی صورت نکل آئی اور وہ میرے لئے خلیق انجم سے ’’خلیق انجمن‘‘ بن گئے۔

خلیق انجم نہایت مستعد ، چوکس اور فعّال آدمی  تھے ۔ تحقیق کے میدان میں وہ اعلیٰ رتبہ کے حامل تھے۔ تاہم میری نظر میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انجمن ترقی اردو کے دفتر کو علی گڑھ سے اٹھاکر دہلی لے آئے اور اس کے لئے ایک عالیشان عمارت تعمیر کروائی اور اس کا افتتاح اس وقت کے وزیراعظم مرارجی دیسائی کے ہاتھوں کرایا۔ چنانچہ دہلی کے مرکزی علاقہ راؤز ایونیو میں واقع ’’اردو گھر‘‘ آج اردو کی ادبی اور تہذیبی سرگرمیوں کا سب سے اہم مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اس کارنامہ کو انجام دینے کیلئے خلیق انجم کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے ہوں گے ، اس کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہیں اس کام کا تجربہ ہے۔
خلیق انجم نے اپنی طویل میعاد ملازمت میں نہ صرف دہلی بلکہ ملک کے مختلف مقامات پر سینکڑوں اجتماعات ، کانفرنسیں اور سمینار وغیرہ منعقد کئے ۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں میں اردو کے سلسلہ میں بھرپور نمائندگیاں کیں۔ انجمن کی شاخوں میں اضافہ کیا اور اردو دانوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کی۔

اُن سے لگ بھگ پچپن برس کے مراسم تھے ۔ اُن کا حال بیان کرنے بیٹھوں تو سینکڑوں صفحات درکار ہوں گے۔ وہ بہترین مقرر تھے اور اپنی تقریر میں وقفہ وقفہ سے ایسے فقرے کہہ جاتے تھے کہ محفل زعفران زار بن جاتی تھی ۔ ان کی حس مزاح بہت تیز تھی اور خاص بات یہ تھی کہ ان کے بے ساختہ فقروں سے کسی کی دلآزاری نہیں ہوتی تھی۔ شوخی کے باوجود شائستگی کا دامن کبھی ان کے ہاتھ سے نہیں چھوٹتا تھا ۔
پاکستان کے ممتاز محقق اور بے مثال مزاح نگار مشفق خواجہ مرحوم کا یہ معمول تھا کہ وہ اپنے شہر سے یا اپنے ملک سے کبھی باہر جاتے تھے تو وہاں اپنے کسی شناسا کے گھر میں قیام نہیں کرتے تھے بلکہ ہوٹل میں ٹھہرتے تھے ۔ تاہم 1985 ء میں جب وہ پہلی اور آخری بار دہلی آئے تو انہوں نے بطور خاص خلیق انجم کے گھر میں قیام کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے ایک ملاقات میں جب مشفق خواجہ سے خود اپنے اس معمول سے انحراف کا سبب پوچھا تو ہنس کر بولے ’’میں تو اصل میں انجمن ترقی اردو (ہند) کے جنرل سکریٹری کی غلط اردو اور ان کے غلط تلفظ کا جائزہ لینے کی خاطر ان کے گھر میں مقیم ہوا ہوں‘‘۔ جب تک مشفق خواجہ دہلی میں رہے میرا بھی زیادہ وقت خلیق انجم کے گھر پر ہی گزرتا تھا ۔ خلیق انجم اور مشفق خواجہ کی نوک جھونک سننے سے تعلق رکھتی تھی ۔ میں یہ کہوں تو بیجا نہ ہوگا کہ دونوں کی اس فقرے بازی میں بسااوقات خلیق انجم بازی مار لے جاتے تھے ۔
خلیق انجم نے ہمیشہ مجھے بہت عزیز رکھا ۔ اپنی موجودہ ’’حالت‘‘ اور ’’حالات‘‘ کے باعث دہلی میں لمبے قیام کے بعد آٹھ برس قبل میں بالآخر حیدرآباد منتقل ہوگیا لیکن کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرا جب ان سے فون پر لمبی بات نہ ہوئی ہو۔ اکثر اوقات ان کی اہلیہ موہنیؔ انجم ، جو نہایت سلیقہ مند خاتون ہیں، مجھے فون ملاکر کہتی تھیں کہ ’’خلیق انجم آپ کو بہت یاد کر رہے ہیں۔ لیجئے ان سے بات کیجئے‘‘۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ طویل ٹیلیفونی بات چیت میں کبھی انہوں نے اپنی علالت یا کسی پریشانی کا ذکر نہیں کیا۔ ان کے اندر جینے کا حوصلہ بہت توانا تھا ۔ کبھی مایوسی کی بات نہیں کرتے تھے ۔ تاہم مجھ سے ہمیشہ شاکی رہے کہ میں دہلی سے حیدرآباد منتقل ہوکر دہلی کو سونی کرگیا۔ اب میں انہیں کیسے بتاتا کہ جب سے حیدرآباد آیا ہوں ، خود حیدرآباد میرے لئے سونا ہوگیا ہے کیونکہ میری نوجوانی کے زمانہ کا کوئی دوست اب اس شہر میں باقی نہیں رہا۔ یوں سمجھئے کہ اپنی نعش کو خود اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتا ہوں۔
اُن کے انتقال کے پندرہ منٹ بعد ہی فیاضؔ رفعت نے جب لکھنو سے فون کر کے مجھے اُن کے گزرجانے کی اطلاع دی تو سکتہ سا طاری ہوگیا ۔ کیسی کیسی انمول اور بے مثال ہستیاں اس دنیا سے اٹھ گئیں۔ کتنوں کو یاد کروں، کس طرح یاد کروں اور کب تک یاد کروں۔ اب تو میری عمر کی نقدی بھی ختم ہونے کو ہے اور اب مجھ میں اس سے زیادہ بوڑھا ہونے کی دور دور تک کوئی گنجائش نظر نہیں آتی ۔ رہے نام اللہ کا۔
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہوگئیں