خلیق انجم : اب شہر میں تیرے کوئی ہم سابھی کہاں ہے

سرور الہدی
جامیہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی
خلیق انجم کے انتقال سے دہلی کی ادبی اور تہذیبی زندگی کا ایک دور رخصت ہوگیا۔ میں نے اس دور کو تحریروں میں زیادہ دیکھا ہے۔ ابھی ہمارے درمیان چند ایسی شخصیات موجود ہیں جن کا تعلق خلیق انجم کے عہد سے رہا ہے اور جنھیں دیکھنے اور سننے کے بعد خلیق انجم کا عہد ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ خلیق انجم کے انتقال سے قبل چند ایسی شخصیات رخصت ہوگئیں جن سے ادبی دنیا اور خصوصاً دہلی کی ادبی دنیا علمی و ادبی اعتبار سے زیادہ روشن تھی۔ خلیق انجم ان تمام شخصیات کے درمیان رہے ۔ان شخصیات کے نام ادبی دنیا کے حافظے میں محفوظ ہیں۔ نثاراحمد فاروقی، تنویر احمد علوی، امیر حسن عابدی، محمد حسن، قمر رئیس، زیبر رضوی، رشید حسن خاں وغیرہ سے ان کے گہرے مراسم تھے۔خلیق انجم نے اپنی ایک الگ پہچان بنائی لیکن خلیق انجم کا خیال ان شخصیات کے ساتھ بھی آتا ہے۔ ان میں سے ہر شخص علمی و ادبی اعتبار سے اتنا ثروت مند ہے کہ اس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں۔ خلیق انجم نے علمی و ادبی اعتبار سے ثروت مند شخصیات سے فیض بھی حاصل کیا اور انھیں فیض پہنچایا بھی۔ دہلی کی ادبی زندگی میں شاید اب ایسی شخصیات ایک ساتھ ایک ہی عہد میں یکجا نہ ہوسکیں۔ خلیق انجم خواجہ احمد فاروقی کے شاگرد تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ جن شخصیات کا اوپر ذکر ہے ان میں سے ہر ایک کا کوئی نہ کوئی رشتہ خواجہ احمد فاروقی سے رہا ہے۔ خلیق انجم کئی اعتبار سے سب سے مختلف تھے انھیں معلوم تھاکہ انھیں ایسے دوستوں کا تعاون حاصل ہے جن کا بدل تلاش کرنا مشکل ہے۔ اسی لیے انھوں نے علمی و ادبی کاوشوں کے ساتھ اردو زبان کے مسائل کے حل کی طرف توجہ صرف کی۔ علی گڑھ سے انجمن کا دہلی منتقل ہونا ایک واقعہ تھا۔ انجمن کی عمارت دہلی کے جس علاقے میں ہے وہ خلیق انجم کی محنت اور کاوش کا نتیجہ ہے۔ اس عمارت کے تصور سے خلیق انجم کی انتظامی صلاحیت کا احساس تیز تر ہوجاتا ہے۔ ان کی شخصیت کا جوہر ادبی محفلوں میں کھلا کرتا تھا ۔ مزاح کا وہ کوئی نہ کوئی پہلو تلاش کرلیا کرتے تھے۔ ان کی موجودگی سے علمی و ادبی مسائل کے درمیان ایک فرحت کا احساس ہوتا تھا۔ محفل میں چاہے وہ کہیں بیٹھے ہوں ان کا ہونا ہی بہت اہم تھا۔ مزاح میں لپٹے ان کے چبھتے ہوئے جملے شخصیت کا داخلی اظہار معلوم ہوتے۔ کوئی لفظ فاضل نہیں ہوتا تھا۔ کسی کے تنقیدی خیال یا تحقیقی دریافت کو رد کرنے میں وہ اسی انداز گفتگو سے کام لیتے۔ اسی لیے بعض اوقات ان کی بہت اہم باتیں قہقہوں کی نذر ہوجاتی تھیں۔ ایک سامع اورقاری کے طور پر مجھے یہ خیال آتا ہے کہ انھیں جتنی توجہ سے سنا گیا کاش اسی توجہ سے انھیں پڑھا جاتا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کی تحریریں ہمارے مطالعے میں نہیں آئیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ خلیق انجم کی چند ایسی کتابیں اور تحریریں ضرور ہیں جن پر اور زیادہ سنجیدہ گفتگو ہونی چاہیے تھی۔ان کی ایک اہم کتاب ’رفیع سودا‘ ہے ۔ اپنے موضوع پریہ بنیادی اور اہم کتاب ہے۔اس کتاب کے ماخذ اور حوالے یہ بتاتے ہیں کہ وہ تحقیق کے تئیں کس قدر حساس تھے۔ کم و بیش پچاس سال قبل سودا پر اس سطح کی کتاب لکھنا آسان نہیں تھا۔ اسی طرح ’متنی تنقید‘ بھی اپنے  موضوع پر بنیادی کتاب ہے۔
خلیق انجم اپنے معاصرین کی علمیت اور ذہانت کے اعتراف میں نہایت فراخ دل تھے۔ نثار احمد فاروقی کو وہ نثار کہا کرتے تھے۔ نثار احمد فاروقی کی پہلی برسی کے موقع پر انھوں نے کہا تھا کہ نثار نے مجھے ابتدا میں جو علمی مشورہ دیا اس پر میں نے عمل کیا۔ پہلا مشورہ غالب کی تحریروں کو جمع کرنے کا تھا اور دوسرا مشورہ خطوط غالب کی ترتیب سے متعلق تھا۔ چنانچہ یہ دونوں کتابیں آج خلیق انجم کی ادبی کارگزاریوں کا اہم حوالہ ہیں۔ ’’غالب کی نادر تحریریں‘‘ کے عنوان سے ان کی کتاب کے دو ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ خطوط غالب کی جلدیں غالب انسٹی ٹیوٹ سے شائع ہوئیں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ سے ہی ان کی ایک اہم کتاب ’’غالب کاسفر کلکتہ‘‘ بھی شائع ہوچکی ہے۔ غالب شناسی کے تعلق سے ان کی کاوشوں کو یاد رکھا جائے گا۔ مختلف اوقات میں غالب سے متعلق شائع ہونے والی یہ کتابیں خلیق انجم کی محنت و کاوش کے ساتھ اس عہد کا بھی فیضان ہیں جس میں اتنی اہم شخصیات دہلی میں جمع ہوگئیں تھیں۔ خلیق انجم اور ان کے معاصرین نے مختلف تحریروں میں اس عہد کی ادبی ملاقاتوں اور باتوں کا ذکر کیا ہے۔ ان دنوں ادبی صحبتیں کتابوں کے مطالعے کا بدل بھی تھیں اور ان کا حاصل بھی۔ کمال یہ ہے کہ ان کی تنقیدی و تحقیقی تحریروں میں بذلہ سنجی نہیں ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تنقید کے تعلق سے وہ کس طرح سوچتے تھے ۔ انھیں ابتدا ہی سے ادبی تاریخ میں دلچسپی تھی۔ ’’آثار الصنادید‘‘ کے علاوہ کئی ان کی کتابیں ہیں جن کے مقدمے اور مشمولات سے تاریخ میں ان کی گہری دلچسپی کا اظہار ہوا ہے۔دہلی کی قدیم عمارتوں، مقبروں ، کتبوں کے تعلق سے ان کی واقفیت بہت گہری تھی۔ وہ جب دہلی کی تاریخی عمارتوں کا ذکر کرتے تو ایسا محسوس ہوتا جیسے کہ وہ وہاں موجود ہوں۔ کاغذ پر جب نقشے بناتے تو محسوس ہوتا کہ عمارت تو خلیق انجم کے وجود کا حصہ ہے۔ میں نے کئی موقعوں پر خلیق انجم سے تاریخی مقامات سے متعلق گفتگو کی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دہلی کی ادبی اور تہذیبی تاریخ ان کے ساتھ سفر کرتی رہی۔ انھوں نے ادبی شخصیات سے وابستہ مقامات کی حفاظت کے لیے کو ششیں بھی کیں۔ ان کا ایک اہم حوالہ مزار ذوق بھی ہے۔ خلیق انجم کی علمی و ادبی تصانیف کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ خیال بھی آتا ہے کہ انھوں نے انجمن کی مختلف ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے کس طرح اتنا وقت نکالا ہوگا۔ جو لوگ شخصی اعتبار سے ان سے واقف ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ خلیق انجم عام ملاقاتوں میں گفتگو کو پھیلاتے نہیں تھے۔ جو شخص ان سے ملنے جاتا وہ فوراً پوچھتے کہ تشریف آوری کیسے ہوئی؟ پانی اور چائے کے بعد وہ مدعا پر آجاتے۔ اگر گفتگو طویل ہونے لگتی تو وہ پہلو بدلنے لگتے۔انھیں یہ کہنے میں کوئی تکلف نہیں تھا کہ ہماری گفتگو مکمل ہوچکی ہے۔کسی ادارے کا ذمہ دار شخص اپنی ذمہ داریوں کے درمیان ایسا ہی ہوتا ہے۔ خلیق انجم کے یہاں کوئی تکلف نہیں تھا۔ ایک ٹھیٹھ آدمی زمینی سطح پر آکر بات چیت کرتا تھا۔ کسی طرح کا اشرافیائی رویہ انھوں نے اختیار نہیں کیا۔ انجمن کے تعلق سے ان کی جو خدمات ہیں وہ تو مستقل ایک موضوع ہے یہاں یہ اشارہ کرنا ضروری ہے کہ اگر خلیق انجم عام سطح پر لوگوں سے مکالمہ نہ کرتے تو انجمن کا دائرۂ کار اتنا وسیع نہ ہوتا۔ ان کی شخصیت باغ و بہار تھی جیسا کہ ذکر آچکا ہے کہ جملے چسپاں کرنے میں انھیں دیر نہیں لگتی تھی ، لیکن جہاں پر انھیں ٹھہرنا ہوتا ٹھہر کر گفتگو کرنا ہوتا وہاں وہ دوسرے خلیق انجم نظر آتے تھے۔ جب کبھی مجھے کسی تحقیقی موضوع پر ان سے کچھ دریافت کرنا ہوتا تو وہ کہتے آپ ایک پیالی انجمن کی چائے پینے کیوں نہیں آجاتے۔ مجھے یاد ہے کہ جب دیوان میر عبدالحئی تاباں پر کچھ کام میں نے کرنا شروع کیا تو بعض مشوروں کے بعد کہنے لگے آپ نثار فاروقی سے بات کیجیے۔یہ عجیب شخصیات تھیں جنھیں ہم ایک دوسرے کے ساتھ رکھ کر دیکھتے ہیں۔ ایک پر نظر کیجیے تو دوسرے پر نظر چلی جاتی ہے۔ ان کے اختلافات اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ تمام لوگ علمی اور ادبی اعتبار سے ایک دوسرے کا احترام کرتے اور تحقیق کرنے والے کو نام اور گھر کا پتہ بتاتے۔ جب مجھے خلیق انجم اور ان کے معاصرین یاد آتے ہیں تو عرفان صدیقی کا شعر یاد آتا ہے  ؎
ہم سب آئینہ در آئینہ در آئینہ ہیں
کیا پتہ کون کہاں کس کی طرف دیکھتا ہے
ان دیکھنے والوں کی تحریریں یہ بتاتی ہیں کہ ہم لوگ مل کر ایک عہد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خلیق انجم علمی محفلوں میں اپنے معاصرین کو ایک خاص انداز سے مخاطب کیا کرتے تھے ۔ اس میں علمی اعتراف بھی ہوا کرتا تھا اور طنز بھی۔ ایک مرتبہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی محفل میں قمر رئیس نے اپنی گفتگو کے دوران یہ فرمایا کہ غالب کی شاعری کو پڑھ کر لگتا ہے کہ غالب کے سماجی رشتے کمزور تھے۔ اور جب میں نے خلیق انجم صاحب سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے تائید کی۔ خلیق انجم نے فوراً کہا ہر بات مائک پر کہنے کے لیے نہیں ہوتی ،اور پورا مجمع قہقہہ زار ہوگیا۔ ایک موقعے پر جب خطوط غالب کی تدوین کے تعلق سے کوئی گرفت کا پہلو نکل آیاتو انھوں نے پہلے یہ کہا آپ کہتے رہیے۔ اس کے بعد فراخ دلی کے ساتھ وہ معترض کی تعریف کرنے لگے کہ کسی نے توجہ سے پڑھ کر کوئی بات تو کہی۔ اسی طرح کے کئی ایسے واقعات ہیں جن سے خلیق انجم کی ایک وہ شبیہ ابھرتی ہے جس کا ذکر عموماً کم کیا جاتا ہے۔
خلیق انجم کی ایک اہم کتاب ’’مجھے سب ہے یاد ذراذرا‘‘ ہے۔ اس کتاب میں انیس خاکے ہیں ۔ خلیق انجم کی شخصیت کے دو اہم حوالے ہیں۔ ایک تاریخ اور تہذیب میں ان کی دلچسپی اور دوسرا مختلف علمی و ادبی شخصیات کو موضوع گفتگو بنانا۔اس اعتبار سے ’’مجھے سب ہے یاد ذراذرا‘‘ خلیق انجم کی شخصیت کا بنیادی حوالہ بن جاتی ہے۔ خلیق انجم کی گفتگو میں جو قصہ گوئی تھی اس کا رشتہ بھی دراصل تاریخ میں ان کی دلچسپی سے ہے۔ شخصیت تاریخ سے الگ نہیں ہے اسی لیے ان کی تحریروں میں تاریخ اور شخصیت ایک دوسرے کا تکملہ بن جاتی ہیں۔ خلیق انجم گفتگو کے دوران جس طرح کسی شخصیت کا خاکہ کھینچتے تھے اس میں بلا کی کاٹ اور کشش تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ان کی شخصیت دوسری شخصیت سے الگ نہیں ہے۔ اختلاف کے ذکر میں بھی وہ اسی مانوسیت کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ ’’مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا‘‘ کی شخصیات خلیق انجم کے لیے علمی و ادبی اعتبار سے اہم تو تھیں ہی مگر وہ شخصی اعتبار سے بھی ان سے ایک قربت کا احساس رکھتے تھے۔جہاں یہ احساس نہیں ہے وہاں خلیق انجم کا قلم بھی کچھ خشک اور رکا رکا سا معلوم ہوتا ہے۔اس سے پتا چلتا ہے کہ خلیق انجم کے لیے مختلف شخصیات پر قلم اٹھانا ان کے مختلف تجربات کا نتیجہ ہے۔ خلیق انجم دلی والے تھے انھیں اس بات پر فخر تھا لیکن اس دہلویت کا ان کے یہاں تعصب سے کوئی رشتہ نہیں تھا۔ وہ اگرچہ کچھ ایسے جملے بولتے تھے جس سے پتا چلتا تھا کہ وہ کسی علاقے کی زبان کو رد کر رہے ہیں اور لطف کا پہلو پیدا کر رہے ہیں۔ لیکن داخلی سطح پر ان کے یہاں کشادگی تھی ۔
خلیق انجم نے یہ بھی بتایا کہ مخالفین سے مقابلے کی سب سے اچھی صورت یہ ہے کہ اپنا کام ذمہ داری کے ساتھ کیا جائے۔وہ یہ کہتے تھے کہ مخالفین کو بھی اسی معاشرے میں رہنا ہے۔ مخالفت سے کس طرح تعمیری کام لیا جاتا ہے یہ ہنر خلیق انجم کے ادبی سفر سے سیکھا جاسکتا ہے۔
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے