خطبہ ثانیہ میں ’’ ان اللہ یأمربالعدل ‘‘ پڑھنے کی وجہ

سوال :   اس سے پیشتر خطبہ جمعہ میں خلفاء راشدین و دیگر صحابہ کرام کا ذکر کرنے سے متعلق روشنی ڈالی گئی تھی، تب سے مجھے یہ معلوم کرنا تھا کہ خظبہ جمعہ کے آخر میں تمام ائمہ وخطیب  ’’ ان اللہ یأمربالعدل والاحسان‘‘ کی آیت شریف پڑھتے ہیں اور اس پر خطبہ ختم کرتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟
حافظ محتشم نظامی
جواب :  ابوالحسنات علامہ محمد عبدالحی لکھنوی رحمتہ اللہ علیہ اپنے فتاوی میں اس کی وجہ بیان کرتے ہیںکہ بنوامیہ کے فرما نروا ، خلیفہ رابع، شہنشاہ ولایت، شیر خدا ، حیدر کرار ، فاتح خیبر حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہ پر خطبہ ثانیہ کے آخر میں طعن و تشنیع کیا کرتے تھے ، جب بنوامیہ میں سے حضرت عمر بن عبدالعزیز سریرآ رائے سلطنت ہوئے تو آپ چونکہ نہایت خدا ترس ، دیندار عبادت گزار ، زہدو تقوی کے پیکر تھے، آپ نے بنو امیہ کے حکمرانوں کے اس مذموم طریقہ و رواج کو ختم کردیا اور متذکرہ بالا آیت قرآنی خطبہ ثانیہ کے آخری میں تلاوت کرنا طئے کیا جس پر امت کا عمل نسل در نسل توارث کے ساتھ چلا آرہا ہے ۔
نفع المفتی والسائل ص : 84 میں ہے : کانت ملوک بنی امیۃ یفتحون لسان الطعن علی الخلیفۃ الرابع فی آخر الخطبۃ الثانیہ فلما ولی عمر بن عبدالعزیز و کان و رعا  متدینا عابد ازا ھدا نسخ ھذا المروج و قرر قراء ۃ ھذہ الایۃ فی آخرالخطبۃ الثانیۃ۔

نیازکے جانور ذبح کرنا
سوال :   اکثر لوگ جہانگیر پیراں اور دیگر بزرگوں کی بارگاہوں میں جانور قربانی کرنے کی نذر و منت کرتے ہیں اور بہت ہی اہتمام سے وہاں جاکر اپنی نذر و نیاز پوری کرتے ہیں اور خود بھی کھاتے ، عزیز و اقارب کو کھلاتے اور غرباء و مساکین میں بھی تقسیم کرتے۔ ایک عرصہ سے اس قسم کا عمل چلا آرہا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس قسم کی نذر و منت کرنا قطعاً صحیح نہیں۔ اگر کسی بزرگ کی درگاہ کے احاطہ میں جانور ذبح کیا جائے تو وہ اس کو ناجائز حرام سمجھتے ہیں۔ کیا احاطہ درگاہ میں جانور ذبح کرنے سے شرک تو نہیں ہوتا۔
معز الدین قادری، جہاںنما
جواب :   شریعت مطھرہ میں جانور کو ذبح کرتے وقت ذبح کرنے والے کی نیت کا لحاظ و اعتبار رکھا گیا ہے ۔ فتاوی ردالمحتار جلد 5 ص : 203 میں ہے : واعلم ان المدار علی القصد عند ابتداء الذبح ۔ بناء بریں اگر کوئی شخص جانور کو اس نیت سے ذبح کرے کہ میں اس کی جان فلاں بزرگ کے لئے لیتا ہوں اور وہ اس بزرگ کو ازروئے تعظیم اس طرح جان قربان کئے جانے کا مستحق جانتا ہے تو ایسا ذبح کیا ہوا جانور اگرچیکہ وہ اللہ کانام لیکر ذبح کیا جائے شرعاً حرام ہے۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد 5 ص : 203 ء میں ہے : (ذبح لقدوم الامیر و نحوہ) کو احد من العظماء (یحرم) لانہ أھل بہ بغیر اللہ (ولو) وصلیۃ (ذکر اسم اللہ تعالیٰ علیہ)
ہاں اگر اس نیت سے ذبح کرے کہ اس جانور کی جان تو اللہ کے لئے لی جاتی ہے اور وہی جان کے نثار و قربان کئے جانے کا مستحق ہے مگر اس کا گوشت فلاں بزرگ کی نیاز و ایصال ثواب میں صرف کیا جائے گا یا اس سے فلاں شخص کی دعوت و ضیافت کی جائے گی اور بہ وقت ذبح اللہ کے نام کے سوا کسی کا نام بھی نہ لے تو ایسا ذبح کیا ہوا جانور شرعاً حلال ہے ۔ در مختار میں اسی جگہ ہے  : (ولو) ذبح (للضیف لا) یحرم لانہ سنۃ الخلیل و اکرام الضیف اکرام اللہ تعالیٰ والفارق ان قدمھا لیاکل منھا کان الذبح للہ والمنفعۃ للضیف أ وللولمیۃ او للربح ۔ وان لم یقدمھا لیاکل منھا بل یدفعھا لغیرہ کان لتعظیم غیر اللہ فتحرم۔ تفسیر احمدی ص : 52 میں ہے : ومن ھاھناعلم ان البقرۃ للاولیاء کما ھوالرسم فی زماننا حلال طیب لانہ لم یذکر اسم غیر اللہ وقت الذبح و ان کانوا ینذرونھا لہ۔

حمل کو ساقط کرنا
سوال :  چند ماہ قبل ایک واقعہ پیش آیا کہ ایک جوڑا حمل کو ساقط کرنے کے لئے عدالت سے رجوع ہوا ۔ ڈاکٹرس کی رپورٹ کے مطابق مادر شکم میں موجود جان کو نازک بیماری کا خطرہ ہے لیکن ممبئی کی عدالت نے 6 ماہ کے حمل کو ساقط کرنے کی قطعاً اجازت نہیں دی۔ اس سلسلہ میں شرعی نقطہ نظر دریافت کرنا مقصود ہے کہ شرعی لحاظ سے اسقاط حمل کا حکم کیا ہے اور اگر ماں کے پیٹ میں بچہ کو کوئی مرض لاحق ہو تو ایسی صورت میں اسقاط حمل کی شرعاً اجازت ہے یا نہیں ؟
ڈاکٹر مجیب الرحمن ، ورنگل
جواب :   تمام ائمہ اور فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ جنین میں روح پھونکنے کے بعد اسقاط حمل کرناقطعی حرام ہے کیونکہ جب حمل میں زندگی پیدا ہوگئی تو اس زندہ وجود کو زندگی سے محروم کرنا گویا اس کوقتل کرنا ہے اور یہ نص قطعی کے خلاف ہے ۔
’’ ولا تقتلوا اولادکم خشیۃ املاق نحن نرزقھم وایاکم ان قتلھم کان خطأ کبیرا ‘‘ (سورہ الاسراء : 31 )
(تم اپنی اولاد کو تنگدستی کے خوف و اندیشہ سے قتل مت کرو ہم ہی ان کو اور تم کو رزق دیتے ہیں۔یقیناً ان کو قتل کرنا بڑا گناہ ہے)۔ علماء کے نزدیک جنین میں روح پھونکے جانے کی مدت میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک 40 دن میں روح پھونکی جاتی ہے اور بعض کے نزدیک  42 اور بعض کے نزدیک 45 دن میں روح پھونکی جاتی ہے لیکن جمہور علماء 120 دن یعنی چار مہینہ کے قائل ہیں۔ اس سلسلہ میں جمہور نے سورۃ المومنون کی ابتدائی آیات سے استشھاد کیا ۔ ’’ ثم جعلناہ نطفۃ فی قرار مکین ۔ ثم خلقنا النطفۃ علقۃ فخلقنا العلقۃ مضغۃ فخلقنا المضغۃ عظاماً فکسونا العظام لحماً ثم انشاناہ خلقاً آخرفتبارک اللہ احسن الخالقین‘‘ (سورۃ المومنون : 13 ، 14 )
(پھر ہم نے اس کو ایک محفوظ مقام میں پانی کی بوند بناکر رکھا پھر ہم نے نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنادیا ۔ پھر ہم نے اس لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا بنادیا ۔ پھر ہم نے اس گوشت کے ٹکڑے سے ہڈیاں بنادی پھر ان ہڈیوں کو گوشت پہنادیا ۔پھر (روح پھونک کر) ہم نے اسے دوسری مخلوق بنادی۔ پس اللہ تعالیٰ بڑا برکت والا ہے جو سب سے بہترین بنانے والا ہے)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مادر رحم میں جنین کے تین ادوار کوبیان فرمایا (1) نطفہ کا مرحلہ (2) علقہ (خون کے لوتھڑے) کا مرحلہ (3) مضغہ (گوشت کے ٹکڑے کا) مرحلہ ۔ اس کے بعد جنین میں روح پھونکی جاتی ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین مراحل میں سے ہر مرحلہ کی مدت چالیس دن قرار دی ہے۔ ’’ ان احد کم یجمع خلقہ فی بطن امہ اربعین یوماً نطفۃ ثم یکون علقۃ مثل ذلک ثم یکون مضغۃ مثل ذلک ثم یرحل الیہ الملک فینفخ فیہ الروح‘‘ (بخاری ، بروایت حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ) (یقیناً تم سے ہرایک اپنے شکم مادر میں چالیس دن نطفہ ، چالیس دن علقہ ، اور چالیس دن مضغہ رہتا ہے پھر ایک فرشتہ آتا ہے اور اس میں روح پھونکتا ہے)
جمہور حنفیہ کے نزدیک بلا عذر روح پھونکے جانے سے پہلے بھی اسقاط حمل جائز نہیں۔ علامہ ابن عابد شامی رد المحتار ج : 5 ص : 519 میں فرماتے ہیں ’’ ولا یخفی انھا تأثم اثم القتل لو استبان خلقہ و مات بفعلھا ‘‘۔
(یہ بات پوشیدہ نہیں کہ آثار خلقت ظاہر ہونے کے بعد جنین ، عورت کے کسی عمل کی وجہ سے مرجائے تو اس کو قتل کرنے کا گناہ ہوگا)
بناء بریں جنین میں روح پھونکے جانے کے بعد حمل کو ساقط کرنا اگرچہ جنین میں کسی مرض یا بیماری کے اندیشہ کی وجہ سے ہو شرعاً ناجائز و حرام ہے۔
عالمگیری ج : 5 ، ص : 26 میں ہے ۔ ’’ واذا اعترض الولد فی بطن الحامل ولم یجدوا سبیلاً لاستخراج الولد الا بقطع الولد اربا اربا ولو لم یفعلوا ذلک یخاف علی الامام قالوا ان کان الولد میتاً فی البطن لاباس بہ وان کان حیاً لم نرجواز قطع الولد اربا اربا کذا فی فتاوی قاضی خان ‘‘ ۔
پس دریافت شدہ مسئلہ میں سوال میں صراحت کردہ جوڑے کو چھ ماہ کے جنین کو بیماری کے لاحق ہونے کی وجہ سے اسقاط حمل کی شرعاً اجازت نہیں دی جائے گی۔

مرحوم کے افراد خاندان کیلئے کھانا لیجانا
سوال :  ہمارے حیدرآباد میں یہ رواج ہے کہ جب کسی کے گھر انتقال ہوجاتاہے تو عزیز و اقارب ان کے لئے کھانے کا انتظام کرتے ہیں ۔ کیا شرعی لحاظ سے مرحوم کے گھرکھانا لیجانا درست ہے یا نہیں اسی طرح لوگ جب میت کو دفن کرتے ہیں تو قبر میں سب مل کر مٹی ڈالتے ہیں اور کچھ پڑھتے ہیں۔ کیا اس کا بھی ثبوت شریعت میںموجود ہے۔
محمد عبدالخالق قادری ، تاڑبن
جواب :  چونکہ میت کے افراد خاندان رنج و غم میں رہتے ہیں۔کھانے پکانے کا انتظام رنج و غم میں نہیں ہوسکتا اس لئے عزیز و اقارب دوست و احباب ان کے لئے کھانا لیجاتے ہیں۔ شرعی نقطہ نظر سے میت کے افراد خاندان کے لئے کھانا لیجانے میں کوئی حرج نہیں۔ عالمگیری جلد اول ص : 167 میں ہے : ولا بأس بأن یتخذ لأھل المیت طعام کذافی التبیین ۔
تدفین کے وقت قبر میں میت کے سراہنے سے حاضرین کا دونوں ہاتھوں سے تین مٹھی مٹی ڈالنا مستحب ہے ۔ پہلی مٹھی میں منھا خلقناکم (اسی سے ہم نے تم کو پیدا کیا) دوسری میں وفیھا نعیدکم (اور اسی میں ہم تمہیں واپس لوٹائیں گے) اور تیسری میں و منھا نخرجکم تارۃ اخری (اور ہم اس سے تمکو دوبارہ نکالیں گے) پڑھے۔ اور ص : 166 میں ہے: و یستحب لمن شھد دفن المیت ان یحثوفی قبرہ ثلاث حثیات من التراب بیدیہ جمیعا و یکون من قبل رأس رأس المیت و یقول فی الحثیۃ الاولیٰ منھا خلقنا کم … کذا فی الجوہرۃ النیرۃ
کیا داماد وارث ہوتا ہے
سوال :  کسی مرحوم کے ترکہ میں فرزند ، دختر اور بیوہ کے علاوہ داماد کا بھی حصہ ہوگا ؟ اگر وہ جبراً کچھ حاصل کرلیا ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہوگا ؟
محمد مختار احمد، کالا پتھر
جواب :   وراثت کا حق مرحوم کے رشتہ داروں کا ہے چونکہ اللہ تعالیٰ نے رشتہ داری کو پیدا کیا ہے وہی زیادہ جانتا ہے کہ مرحوم کے قریبی رشتہ دار کون ہیں اور کون اس کے مال و متاع کے حقیقی وارث و حقدار ہیں ، اس لئے قانونِ وراثت کا دارومدار وحی الٰہی پر موقوف ہے، اس میں قیاس کو دخل نہیں۔ پروردگار عالم نے بیٹی کو خونی رشتہ کی بناء وارث قرار دیا لیکن داماد کسی صورت میں وارث نہیں ہوسکتا۔ اور اگر وہ دامادی کے طور پر وراثت کا حصہ لیتا ہے یا جبراً اپنی بیوی کے حق کو زیادہ لیتا ہے تو شرعاً وہ غاصب و ظالم ہے۔