خطبہ ثانیہ میں ’’ ان اللہ یأمربالعدل ‘‘ پڑھنے کی وجہ

سوال : اس سے پیشتر خطبہ جمعہ میں خلفاء راشدین و دیگر صحابہ کرام کا ذکر کرنے سے متعلق روشنی ڈالی گئی تھی، تب سے مجھے یہ معلوم کرنا تھا کہ خظبہ جمعہ کے آخر میں تمام ائمہ وخطیب ’’ ان اللہ یأمربالعدل والاحسان‘‘ کی آیت شریف پڑھتے ہیں اور اس پر خطبہ ختم کرتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟
احمد نقشبندی، آصف نگر
جواب : ابوالحسنات علامہ محمد عبدالحی لکھنوی رحمتہ اللہ علیہ اپنے فتاوی میں اس کی وجہ بیان کرتے ہیںکہ بنوامیہ کے فرما نروا ، خلیفہ رابع، شہنشاہ ولایت، شیر خدا ، حیدر کرار ، فاتح خیبر حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہ پر خطبہ ثانیہ کے آخر میں طعن و تشنیع کیا کرتے تھے ، جب بنوامیہ میں سے حضرت عمر بن عبدالعزیز سریرآ رائے سلطنت ہوئے تو آپ چونکہ نہایت خدا ترس ، دیندار عبادت گزار ، زہدو تقوی کے پیکر تھے، آپ نے بنو امیہ کے حکمرانوں کے اس مذموم طریقہ و رواج کو ختم کردیا اور متذکرہ بالا آیت قرآنی خطبہ ثانیہ کے آخری میں تلاوت کرنا طئے کیا جس پر امت کا عمل نسل در نسل توارث کے ساتھ چلا آرہا ہے ۔
نفع المفتی والسائل ص : 84 میں ہے : کانت ملوک بنی امیۃ یفتحون لسان الطعن علی الخلیفۃ الرابع فی آخر الخطبۃ الثانیہ فلما ولی عمر بن عبدالعزیز و کان و رعا متدینا عابد ازا ھدا نسخ ھذا المروج و قرر قراء ۃ ھذہ الایۃ فی آخرالخطبۃ الثانیۃ۔

ولیمہ کب مسنون ہے
سوال : قرآن و حدیث کی روشنی میں ولیمہ کا مفہوم کیا ہے ۔ پڑوسی ریاست کرناٹک میں دیکھا گیا کہ شادی دن میں ظہر کی نماز سے قبل اس کے بعد ولیمہ کی ضیافت کی جاتی ہے ۔ دعوت ولیمہ اور شادی ایک ہی دن کرنا کیا صحیح ہے ؟ رہنمائی فرمائیے ۔
عبدالقدوس، ایل بی نگر
جواب : شادی کی خوشی میںجو دعوت کی جاتی ہے اس کو ولیمہ کہتے ہیں اور کتاب ’’ المغرب‘‘ میںہے کہ زفاف کے کھانے کو ولیمہ کہا جاتا ہے ۔ ’’ الولیمۃ والعرس ھما جمیعاً طعام الزفاف و قیل : الولیمۃ اسم لکل طعام ‘‘ ۔ مغرب ج : 2 ، ص : 363 ۔ جمہور علماء کے نزدیک ولیمہ مسنون ہے اور اس کا اہتمام کرنا باعث اجر و ثواب ہے ۔ دولہا دلہن کے ملاپ کے بعد پڑوسی ، رشتہ دار و دوست احباب کو دعوت دینا اور ان کے لئے کھانے کا انتظام کرنا چاہئے۔
و ولیمۃ العرس سنۃ و فیھا مثوبۃ عظیمۃ و ھی اذا بنی الرجل بامراتہ ینبغی ان یدعو الجیران و الأقرباء والا صدقاء و یذبح لھم و یصنع لھم طعاما ، عالمگیری ج : 8 ، ص : 343 ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے کہ آپ نے بعد زفاف دوسرے دن ولیمہ فرمایا ۔ المنقول من فعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم انھا بعدالدخول لقولہ : اصبح عروسا بزینب فدعا القوم (نیل الاوطار ۔ 167/2 ) عالمگیری ج : 8 ، ص : 343 میں ہے کہ ولیمہ تین دن تک کیا جاسکتا ہے اور شادی کے دن کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ ’’ ولا بأس بان یدعو یومیئذ من الغد و بعد الغد ثم ینقطع العرس والولیمۃ۔

میاں، بیوی کے مختلف مسائل
سوال : کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ میاں بیوی میں جھگڑا ہوا۔ میاں نے کہا کہ ’’ گھر کام نہیں کرنا ہے ‘‘ یا ’’ میرا کام نہیں کرنا ہے ‘‘ یا ’’ میری بات نہیں ماننا ہے ‘‘ تو ’’ گھر سے نکل جا‘‘ ، ’’ چلی جا ‘‘ کہہ کر دھکیل دیا ۔ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں۔ برائے مہربانی فقرہ واری جواب عنایت فرمائیں ۔
۱۔ ’’ گھر سے نکل جا‘‘ تین مرتبہ کہتے ہوئے دھکیل دینے پر کیا حکم ہے ؟
۲ ۔ بیوی کے ذمہ شوہر کے بالغ (5 یا 6 ) بھائیوں کا کام کرنا ہے یا نہیں ۔ اس کا کیا حکم ہے ؟
۳ ۔ بیوی اگر بیمار ہو تو اس کے ذمہ ماں باپ یا شوہر کی خدمت بیماری کی حالت میں کرنا لازم ہے یا نہیں اس کا کیا حکم ہے ؟
۴ ۔ شوہر کہے کہ میرے ماں باپ اور بھائیوں کی خدمت کرو وہ اگر خوش ہیں تو میں بھی خوش ہوں ورنہ میں بھی تم سے ناراض ہوں تو اس کے لئے کیا حکم ہے ؟
۵ ۔ بیوی بیماری کی وجہ سے شوہر سے یہ کہے کہ آپ کو صبح جانا ہے اس لئے میں آپ کا جو کام ہے وہ صبح آپ کے جانے سے پہلے کردیتی ہوں اب اس وقت میری طبیعت بہت خراب ہے اور شوہر کہے کہ ’’ نہیں ابھی یعنی رات میں ہی یہ کام کردو‘‘ اور پھر اسی بات پر شوہر مذکورہ بالا فقرہ نمبر (۱) کہتا ہوا دھکیل دیا تو اس کے لئے کیا حکم ہے ؟
۶ ۔ تین منزلہ بلڈنگ میں اوپری تیسری منزل پر باورچی خانہ ہے اور دوسری اور پہلی منزل پر رہائش ہے تو صبح سے شام تک اوپر سے نیچے آنے جانے میں بیوی کے پیروں میں درد ہوگیا ہے تو اس کیلئے شوہر پر کیا ذمہ داری ہے جبکہ شوہر کہتا ہے کچھ بھی ہو تم کو کام کرنا ہی کرنا ہے تو اس کیلئے کیا حکم ہے ؟ (اور اسی وجہ سے حمل بھی ضائع ہوتا جارہا ہے)
۷ ۔ شوہر صبح سات (7) بجے جاکر رات میں (11) یا (12) بجے تک آتا ہے ۔ اس اثناء میں ماں طعنہ تشنہ سے کام لیتی ہے جس کی وجہ سے بیوی کو مرض دق لاحق ہوگیا ہے تو اب اس پر شوہر کی کیا ذمہ داری ہے اور اس کا حکم کیا ہے ؟
۸ ۔ بیوی اب اپنے ماں باپ کے پاس ہی ہے مزاج کی ناسازی کی وجہ سے شوہر کے لوگ بات چیت کے لئے آرہے ہیں۔ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں بیوی کے لئے کیا حکم ہے ، بتائیں تو مہربانی ہوگی ؟
نام مخفی
جواب : ۱ ۔ ’’گھر سے نکل جا‘‘ ’’ چلی جا‘‘ کنایہ کے الفاظ ہیں اور اسمیں نیت کا اعتبار ہے طلاق کی نیت تھی تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں۔
۲ ۔ بیوی کے ذمہ یہ کام واجب نہیں ہے۔
۳ ۔ حسب طاقت شوہر کی خدمت کرے۔ ساس سسر کی خدمت کرنا واجب نہیں۔
۴ ۔ شوہر کو راضی رکھنے کیلئے خدمت کرسکتی ہے۔
۵ ۔ شوہر کا عمل غیر شرعی ہے۔ نیت طلاق کی تھی تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں۔
۶ ۔ دونوں آپس میں صلح کرلیں۔ بیوی بھی انسان ہے، انسانیت کو پیش نظر رکھیں۔ بیوی موزوں وقت اوپر جاکر باورچی خانہ کا مکمل کام کر کے اترے
۷ ۔ شوہر پر لازم ہے کہ ایسا انتظام کرے کہ بیوی کو اپنی ساس کے طعنے سننے کا موقع نہ ہو یا علحدہ مکان لے کر رکھے۔

بعد ختمِ مدت، رہن کا مکان فروخت کرنا
سوال : ایک شخص ایک مکان میں کرایہ سے رہ رہا تھا اور پابندی سے کرایہ ادا کر رہا تھا۔ (۱) مالک مکان نے بغیر کسی وجہ کے کرایہ دار پر الزام لگایا کہ چھ ماہ کا کرایہ باقی ہے اور اس نے اس جھوٹ کو ذریعہ بناکر عدالت میں مقدمہ دائر کردیا ۔ (۲) کرایہ دار نے بھی اپنے دفاع کے طور پر اپنی جانب سے اس مکان کا بیعانہ دے دینے کا جھوٹا مقدمہ دائر کردیا ۔ (۳) مکاندار اسی دوران مکان کو کسی شخص کے پاس رہن رکھنے جارہا تھا ، تو کرایہ دار نے ایک دوسرے شحص کو بیچ میں رکھ کر رہنمائی کی کہ فلاں شخص کے پاس اسے رہن رکھوادو اور اس شخص کے بارے میں مالک مکان کو کوئی واقفیت نہیں تھی۔ (۴) رہن کی مدت دو سال مقرر ہوئی اور مالک مکان نے اس مکان سے متعلق تمام کاغذات (جو خریداری کے ہوتے ہیں) کو رہن پر لینے والے شخص کے حوالہ کردیا۔ (۵) تین سال تک اس نے مکان کو رہن پر رکھ چھوڑا اور واپس نہیں چھوڑایا، تو رہن لینے والے شخص نے اسے بیچنا چاہا تو کرایہ دار نے اسے خرید لیا ۔ اس صورتحال میں کیا کرایہ دار کا اس مکان کا خریدنا جائز ہوا یا نہیں ؟
محمد نعیم الدین، وٹے پلی
جواب : صورت مسئول عنہا میں مالک سے مکان رہن لینے والے پر لازم ہے کہ مدت متعینہ کے ختم پر مکان مرہونہ کو فروخت کر کے اپنی دی ہوئی رقم لے لے اور قرض سے زائد رقم وصول ہوئی ہو تو مالک مکان کو زائد رقم واپس کردے ۔ بہرحال مدت مقررہ کے بعد مکان فروخت کیا گیا ہے تو اس کو جو خریدا وہ مالک ہے۔

سفر کی قضاء نمازوں کی حضر میں ادائیگی
سوال : میں محبوب نگر کا متوطن ہوں مہینہ میں دو چار مرتبہ تجارت کے سلسلہ میں حیدرآباد آتا ہوں جب حیدرآباد آتا ہوں تو بسا اوقات عصر کی نماز مجھ سے چھوٹ جاتی ہے تو میں محبوب نگر پہنچ کر اس کی قضاء کرلیتا ہوں۔ ایسی صورت میں کیا مجھے عصر کی دو رکعت نماز قصر کرنا چاہئے یا چار رکعت پوری پڑھنا چاہئے ۔ جلد از جلد جواب دیں تو مہربانی ہوگی ؟
عنایت اللہ، فرسٹ لانسر
جواب : اگر کسی شخص سے حالت سفر میں چار رکعات والی نماز مثلاً عصر کی نماز چھوٹ جائے اور وہ اپنے وطن واپس ہونے کے بعد اس کی قضاء کرنا چاہے تو اس کو دو رکعت ہی سے قضاء کرنا ہوگا ۔ اسی طرح اگر کوئی مسافر بحالت سفر اپنے وطن میں فوت ہوئی چار رکعت والی نمازوں کی قضاء کرنا چاہے تو اس کو چار رکعت ادا کرنا ہوگا ۔ عالمگیری ج : 1 ، ص : 121 میں ہے: ’’ و من حکمہ ان الفائتۃ تقضی علی الصفۃ التی فاتت عنہ الا بعذر و ضرورۃ فیقضی مسافر فی السفر ما فاتہ فی الحضر من الفرض الرباعی اربعاً والمقیم فی الاقامۃ مافاتہ فی السفر منھا رکعتین‘‘۔

خطیب کا طویل تقریر کرنا
سوال : اسلام میں وقت کی پابندی کے بارے میں کیا ہدایتیں ہیں۔ مسجدوں کے امام وقت کی پابندی نہیں کر کے مصلیوں کو مشقت میں ڈالتے ہیں۔ حال ہی میں نلگنڈہ کی ایک مسجد میں جمعہ کو جانا ہوا لیکن دو بجے تک ہی تقریر کرتے رہے ، میں بغیر نماز ادا کر کے واپس ہوا، مجھے ارجنٹ جانا تھا۔ اسلام کی روشنی میں اس کا جواب دیجئے ؟
بذریعہ ای میل
جواب : اوقات کی پابندی سب کے لئے ہر وقت لازم ہے ۔ بالخصوص جمعہ کی نماز کے لئے مختلف مقامات کے لوگ ا پنی مصروفیات ترک کر کے مسجد میں جمع ہوتے ہیں۔ اس لئے نماز کا جو وقت مقرر ہے حتی المقدور اس کی پابندی کرنی چاہئے تاکہ وقت مقررہ کے لحاظ سے کوئی شحص آجائے اور اس کو فوری نماز کے ساتھ واپس ہونا ہو تو وہ سہولت سے واپس ہوسکے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات میں اس کا بھرپور لحاظ فرمایا ہے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو طویل نماز پڑھانے پر متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تمہارے پیچھے کمزور ، ضرورتمند ہوتے ہیں، ان کا لحاظ رکھا جائے۔
پس جمعہ کے موقعہ پر خطباء کا وقت مقررہ سے زائد تقریر کرنا اور اس کو اپنی عادت بنالینا قطعاً معیوب و ناپسندیدہ ہے۔