خرد کا نام جنوں پڑگیا جنوں کا خرد

 

میرا کالم سید امتیاز الدین
ہمارے ملک میں تاریخ از سر نو لکھنے کا ایک نیا شوق پیدا ہوگیا ہے۔ جو تاریخ صدیوں سے چل رہی ہے وہ بعض لوگوں کو بالکل پسند نہیں آرہی ہے ۔ اب تاج محل کو ہی لیجئے۔ ساری دنیا تاج محل کو محبت کی لازوال نشانی سمجھتی ہے ۔ نہ جانے اب تک کتنے لاکھ یا کتنے کروڑ جوڑے تاج محل کے دامن میں کھڑے ہوکر عہدِ وفا باندھ چکے ہیں ۔ امریکہ کے پریسیڈنٹ بل کلنٹن نے تاج محل کو دیکھنے کے بعد کہا تھا کہ دنیا میں دو طرح کے لوگ بستے ہیں، ایک وہ محروم القسمت لوگ جنہوں نے تاج محل نہیں دیکھا اور دوسرے وہ خوش قسمت لوگ جنہوں نے تاج محل دیکھا ہے۔ جس دن بل کلنٹن اور ہلاری کلنٹن نے پہلی بار تاج محل دیکھا تو بل کلنٹن نے کہا کہ آج سے ہم دونوں (یعنی بل اور ہلاری) اُن خوش نصیب لوگوں میں شامل ہوگئے جن کو تاج محل کا دیدار نصیب ہوچکا ہے۔ افسوس کہ محبت کی ایسی لازوال یادگار کولوگ عدالتی موضوع بنانے کے چکر میں ہیں۔
سنٹرل انفارمیشن کمیشن نے مرکزی وزارتِ ثقافت کو ہدایت دی ہے کہ وہ تاریخی تاج محل کے بارے میں یہ وضاحت کرے کہ آیا تاج محل مقبرہ ہے یا مندر ہے ۔ تاریخی تاج محل کو شاہ جہاں کی جانب سے مقبرہ کے طور پر تعمیر کیا گیا ہے یا پھر راجپوت راجہ مان سنگھ نے مغل بادشاہ کو شیومندر تحفہ میں دیا تھا ۔ بعض تار یخ داں ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کی جانب سے تاریخی شواہدات دی گئی ہیں کہ یہ مقبرہ نہیں بلکہ راجہ مان سنگھ نے دراصل اسے مندر بنایا تھا ۔ اس موضوع پر مختلف عدالتی مقدمات موجود ہیں اور یہ مقدمات آر ٹی سی کے ذریعہ سنٹرل انفارمیشن کمیشن تک پہنچ چکے ہیں۔ حالیہ احکام میں انفارمیشن کمشنر نے کہا ہے کہ وزارتِ ثقافت کو اس تنازعہ کا خاتمہ کرنا چاہئے اور تاریخ ہند کے تعلق سے ان شبہات کا خاتمہ ک رنا چاہئے ۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ آرکیالوجیکل سروے بھی ان مقدمات میں ایک فریق ہے۔ وزارتِ ثقافت کی جانب سے وہ نمائندگی کر رہا ہے ۔ وزارت ثقافت نے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو ہدایت دی ہے کہ 30 اگست 2017 ء تک ضروری نقول داخل کرے تاکہ تار یخی تاج محل کے بارے میں صحیح تصویر سامنے آئے ۔ ہم نہ تاریخ داں ہیں نہ قانون داں لیکن ہم کو یہ پڑھ کر ہنسی آئی کہ جس یادگار کو کروڑوں لوگ دیوانہ وار دیکھ چکے ہیں اور محبت کرنے والے جوڑے وہاں تصویریں کھنچوا چکے ہیں، اب ساری دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس ملک کے رہنے و الوں کو ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ دراصل اس عجوبۂ روزگار عمارت کو بنوایا کس نے تھا ۔

ہم نے 1981 ء میں پہلی بار تاج محل دیکھا تھا ۔ جب ہم نے تاج محل کو دیکھا تو مبہوت رہ گئے ۔ سفید شفاف سنگِ مرمر کی عمارت، قرآنی آیات نہایت عمدہ خطاطی، دو مزارات ، غیر معمولی تعمیر جسے دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے کسی مشین سے پتھر کو تراشا گیا ہو۔ سینکڑوں برس پرانی عمارت ایسی لگتی ہے جیسے اسے آج ہی تراشا گیا ہو ۔ گائیڈ نے تاج محل کے بارے میں تفصیلات بتائیں تو معلوم ہوا کہ شاہ جہاں اپنی نظربندی کے دنوں میں جس کوٹھری میں رہتا تھا اُس کی کھڑکی عین تاج محل کی طرف کھلتی تھی اور معزول اور محروس بادشاہ کی زندگی کی آخری مستقل مصروفیت یہ تھی کہ وہ صرف تاج محل کو تکتا رہتا تھا ۔ اب اگر کوئی صاحب جن کو تاریخ دانی کا دعویٰ ہے یہ کہنے لگیں کہ تاج محل شاہ جہاں نے نہیں بنوایا بلکہ اسے راجہ مان سنگھ نے بنوایا ۔ تاج محل دراصل ممتاز محل کا مقبرہ ہے جو شاہ جہاں کی انتہائی چہیتی بیوی تھی ۔ ایک طرف تاج محل ، ممتاز محل سے شاہ جہاں کی بے پناہ محبت کی یادگار ہے تو دوسری طرف یہ ایک تعمیری شاہکار ہے ۔ شاہ جہاں اگر شاعر بھی ہوتا اور زندگی بھر شعر کہتا تب بھی ممتاز کیلئے ایسے اشعار نہ کہہ سکتا جیسی یادگار عمارت اس نے بنادی ۔ یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ تاج محل میں شاہ جہاں کی محبت سموئی ہوئی ہے اور وہ اُسی کا ثبوت ہے ۔ شاہ جہاں کو فنِ تعمیر سے غیر معمولی دلچسپی تھی ۔ جیسی غیر معمولی عمارتیں اس نے بنائیں کسی اور بادشاہ نے نہیں بنائیں۔ لال قلعہ ، جامع مسجد اسی نے بنائیں۔ آج کے دور میں ہر وزیراعظم لال قلعہ کی فصیل سے 15 اگست کو قوم سے خطاب کرتا ہے ۔ اگر شاہ جہاں دوسروں کی بنائی ہوئی عمارتیں ہتھیالیا کرتاتو یوم آزادی کا خطاب کوئی لال قلعہ کی فصیل سے نہ کرتا بلکہ یہ معلوم کرنے کی تگ ودو میں لگتا کہ آخر لال قلعہ کس نے بنایا۔

تاج محل کے گائیڈ نے ہمیں یہ بھی بتایا تھا کہ تاج محل کے بالمقابل شاہ جہاں خود اپنے لئے بھی ایک مقبرہ بنانا چاہتا تھا جس کا ڈیزائن ہو بہو تاج محل جیسا ہوتا ۔ فرق صرف اتنا ہوتا کہ تاج محل جو ممتاز محل کا مقبرہ ہے ، سفید سنگِ مرمر کا ہے ۔ شاہ جہاں اپنے لئے سیاہ سنگِ مرمر کا تاج محل بنوانا چاہتا تھا۔ اورنگ زیب نے باپ کی یہ خواہش پوری نہیں کی کیونکہ ممتاز محل کے مقبرے یعنی تاج محل کی تعمیر ہی میں شاہی خزانہ خالی ہوگیا تھا ۔ البتہ معلوم ہوتا ہے کہ خود اورنگ زیب کو تاج محل کا طرزِ تعمیر بے حد پسند تھا ۔ اس لئے اس نے اورنگ آباد میں بی بی کا مقبرہ معمولی گارے گج سے سہی بالکل اسی ڈیزائین کا بنوادیا ۔
بہرحال اگرچہ کہ بدگمانی بری چیز ہے لیکن ہمارے بعض مہربان ایسے بھی ہیں جو تاریخ کا چہرہ مسخ کرنے پر تلے ہوئے ہے ں۔ ہر ملک کو چاہئے کہ اپنی تاریخ کی حفاظت کرے۔ مصر کو لیجئے ۔ فرعون کے زمانے کی یادگاریں اب تک وہاں موجود ہیں ۔ کسی نے انہیں تباہ نہیں کیا ۔ موہنجودارو اور ہڑپہ کی یادگاریں نہایت محنت اور جانفشانی سے محفوظ رکھی گئیں۔ اجنتہ اور ایلورہ کے غار لاکھوں روپئے خرچ کر کے از سر نو دنیا کے سامنے پیش کئے گئے جن کی ساری دنیا میں تعریف کی گئی اور تو اور سکندر علی وجد سے آرٹ اور سنگ تراشی کے ان کارناموں پر نظمیں لکھوائی گئیں۔ کچھ لوگ اس بات کے پیچھے بھی پڑگئے کہ قطب مینار بھی قطب الدین ایبک نے نہیں بنوایا بلکہ کسی اور نے بنوایا تھا ۔ ہندوستان میں بے شمار شہر ایسے ہیں جو بعض لوگوں کی نظروں میں کھٹک رہے ہیں۔ پھر ان شہروں میں کتنے ہی محلے ایسے ہیں جن کے نام بہت لوگوں کو پسند نہیں۔ اگر پسند ناپسند کا یہی خود ساختہ معیار رہا تو تاریخ تو تاریخ جغرافیہ بھی بدل جائے گی اور ہماری رنگا رنگ تہذیب کو نقصان پہنچے گا۔
مشہور انگریز ی ادیب الڈس ہکسلے نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ہم لوگ تاریخ سے سب سے بڑا سبق یہ سیکھتے ہیں کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتے ۔ ہم نے ایک انگریزی اخبار میں دیکھا کہ راجستھان ایجوکیشن بورڈ نے سوشیل سائنس کی ٹکسٹ بک سے جواہر لعل نہرو کا نام نکال دیا ہے۔ جدوجہد آزادی کی تحریک کے سبق میں نہرو سروجنی نائیڈو اور مدن موہن مالویہ کے نام غائب ہیں۔ گاندھی جی کی شہادت اور نتھورام گوڈسے کے نام کا ذکر بھی غائب ہے ۔ مغلیہ عہد کا نہایت مختصر تذکرہ مہاراشٹرا ایجوکیشن بورڈ کی چھاپی ہوئی کتابوں میں ہے ۔
تاریخ قوموں کا حافظہ ہوتی ہے ۔ ہم کو تاریخ یا سوشیل اسٹیڈیز کی کتابیں صحت کے ساتھ ترتیب دینی چاہئیں ۔ قصہ مختصر ہمارے تعلیمی نظام کو صحت مند رجحانات کی پاسداری کرنی چاہئے ۔ از سر نو تاریخ لکھنے کا رجحان ہمارے معصوم اور بھولے بھالے طالب علموں کے ذہنوں پر بڑا اثر ڈالے گا۔