خدارا! بی جے پی کو ووٹ نہ دیں‘ بالواسطہ بھی نہیں

عرفان جابری
مضمون نویسی میں کبھی متن پہلے لکھتے ہیں، پھر سرخی لگاتے ہیں؛ کبھی اس کا اُلٹا کیا جاتا ہے۔ آج کی سرخی میرے ذہن میں تب آئی جب 28.09.2015 کو اترپردیش کے دادری میں انسان نما درندوں نے 52 سالہ محمد اخلاق سیفی کو جان سے مار دیا۔ 26.05.2014 کو نریندر دامودر داس مودی بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کی خاصی اکثریت کے ساتھ وزیراعظم ہند کے طور پر حلف لے چکے تھے۔ 1984ء کے بعد لوک سبھا میں پہلی مرتبہ سادہ اکثریت کی جادوئی تعداد (272) عبور کرنے والی بی جے پی نے 282 نشستیں حاصل کئے، اس کے باوجود یہ حیران کن اعداد و شمار ہیں کہ اُسے ملک بھر میں صرف 31.34% کارکرد ووٹ ملے۔ ہمیں دستور ِ ہند اگلی مرکزی حکومت کے انتخاب کا موقع عطا کررہا ہے، جس کا سوجھ بوجھ کے ساتھ فائدہ اٹھانا 18 سال یا اُس سے زائد عمر والے ہر ووٹر کی دُنیوی اور دینی ذمہ داری ہے۔ انسان کے بنائے ہوئے سسٹم میں خرابی بالکل نہ ہو، ایسا ہو نہیں سکتا، اس لئے سسٹم سے ناراض متعدد شہری الیکشن کو فضول سرگرمی سمجھ کر اس میں حصہ نہیں لیتے، جو میرے خیال میں کوئی بھی استدلال پیش کرلیا جائے، حق بجانب نہیں ہے۔ اس لئے عمر کی تقریباً ہاف سنچری تک پہنچ چکے مخلص ہندوستانی کی حیثیت سے میری تمام ہندوستانی شہریوں خاص طور پر پہلی یا دوسری مرتبہ ووٹ ڈالنے والے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سے اپیل ہے کہ اپنے جوان دماغ کو کچھ دیر اس اہم موضوع کی طرف متوجہ کریں، غور و فکر کیجئے کہ موجودہ مرکزی حکومت نے آخر کیا گل کھلائے کہ میں بی جے پی کو ووٹ نہ دینے کا مفت مشورہ دے رہا ہوں۔ پھر چاہے آپ کوئی نتیجہ پر پہنچیں، پوری مستعدی کے ساتھ پولنگ میں حصہ لیں۔ آپ کے سامنے میری معلومات پیش کرنا میرے بس میں ہے، آپ کے ذہن کو موڑنا میرا کام نہیں۔

موجودہ طور پر مرکز اور کئی ریاستوں میں برسراقتدار بی جے پی اب 134 سال قدیم پارٹی انڈین نیشنل کانگریس (ال معروف کانگریس) کو کہیں پیچھے چھوڑتے ہوئے سب سے زیادہ رکنیت کی حامل نیشنل پارٹی بن گئی ہے حالانکہ اس کی عمر تقریباً 39 سال ہے، یعنی بی جے پی کی تشکیل 6.4.1980 کو ہوئی اور سابق وزیراعظم و آنجہانی اٹل بہاری واجپائی بانی رہے، اُن کے ساتھ لال کرشن اڈوانی بھی تھے جو بعد میں نائب وزیراعظم کے عہدہ تک ترقی کئے۔ بی جے پی نے پہلی مرتبہ 1984ء کے جنرل الیکشن میں حصہ لیا، جب وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد اُس وقت کے صدرجمہوریہ گیانی ذیل سنگھ نے راجیو گاندھی کو وزیراعظم مقرر کیا۔ اس الیکشن میں بی جے پی کو لوک سبھا (ایوانِ زیریں) کی محض 2 سیٹیں ملیں۔ تب سے 2014ء تک تقریباً تیس سال میں وہ کیسے 282 نشستوں تک پہنچی، اس کی تفصیل ان سطور میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بی جے پی کو پہلی بار 1996ء میں مرکزی اقتدار حاصل ہوا لیکن واجپائی کی قیادت میں حکومت صرف 13 دن چل سکی۔ اس کے بعد بی جے پی والوں نے قائدانہ رول ادا کرتے ہوئے این ڈی اے تشکیل دیا، جس میں ابتدائی طور پر 13 پارٹنرز شامل ہوئے۔ 1998ء کے لوک سبھا انتخابات بی جے پی نے این ڈی اے کی قائد پارٹی کی حیثیت سے لڑے اور واجپائی دوبارہ وزیراعظم بنے۔ تاہم، این ڈی اے حکومت 13 ماہ میں گرگئی۔ تب سے این ڈی اے بی جے پی کی قیادت میں تاحال قائم ہے۔ واجپائی تیسری و آخری مرتبہ 1999ء کے الیکشن کے نتائج پر وزیراعظم بنے، اور 2004ء میں کانگریس زیرقیادت یو پی اے (یونائیٹیڈ پروگریسیو الائنس) کے مقابل شکست کے ساتھ واجپائی حکومت کا دور اختتام پذیر ہوا۔

جب مودی نے مرکزی اقتدار سنبھالا تو حسن ظن کے طور پر امید رکھی گئی کہ پانچ سالہ میعاد میں مودی اور بی جے پی اپنے بلندبانگ دعوؤں اور وعدوں میں سے 50% کی بھی تکمیل کرتے ہیں تو غنیمت ہے۔ لیکن سال، سوا سال میں ہی حجت تمام ہوتی دکھائی دی کہ یہ حکومت سوائے تخریبی کاموں، گھٹیا بیان بازی، دکھاوے، ماضی کے فضول تذکروں، اور ’ہندو راشٹر‘ کے اپنے خفیہ ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتی، جس سے نہ تو ملک کی اکثریت کا بھلا ہوگا، نہ اقلیتوں کا، اور نہ ہی ہندوستان کا بھلا ہوگا! یہ اندازے مودی حکومت کی میعاد تکمیل ہوتے ہوتے درست ثابت ہوگئے۔ مودی حکومت کی منتشر حکمرانی دیکھئے کہ اقلیتوں کو کچھ دیا تو نہیں بلکہ صرف تنگ کیا، لیکن خود اکثریت کے دیرینہ خواب ’رام مندر‘ کی تکمیل سے تک قاصر رہی۔ دراصل مودی حکومت کی دلچسپی کوئی بھی مسئلہ حل کرنے میں نہیں رہی بلکہ اسے برقرار رکھتے ہوئے اس کا سیاسی فائدہ اٹھاتے رہنے میں زیادہ دیکھی گئی۔ مسئلہ کشمیر، مسئلہ اروناچل پردیش، مسئلہ دہشت گردی، مسئلہ انتہا پسندی، مسئلہ نکسل ازم چند مثالیں ہیں۔ ہندوستان میں صرف ایک مرتبہ 1975ء میں Emergency نافذ ہوئی جو 21 ماہ چلی۔ وزیراعظم اندرا گاندھی کی تجویز پر صدرجمہوریہ فخرالدین علی احمد نے باقاعدہ طور پر اس کا اعلان کیا تھا۔ یہ اچھا اقدام رہا یا نہیں، الگ بحث ہے مگر قوم کو اندھیرے میں نہیں رکھا گیا۔ سب پر واضح ہوگیا کہ اب بعض پابندیاں لاگو ہوگئی ہیں اور حکومت کو بعض اضافی اختیارات مل چکے ہیں۔ اپنی فطرت کے اعتبار سے ڈکٹیٹر نریندر مودی اور بی جے پی نے گزشتہ پانچ سال میں جمہوریت کا ستیاناس کردیا، شاید ہی کوئی جمہوری ادارہ ہے جس کے آزادانہ کام کاج کو بخشا گیا، انتقامی سیاست موجودہ حکومت کا خاصہ بن گئی، وہ کوئی مسئلہ اٹھاتے ہیں تو صرف تنازعہ اور انتشار کا سبب بننے والا مسئلہ اٹھاتے ہیں اور اُسے خوب گرماتے ہیں تاکہ اپنا ’اُلّو سیدھا کرسکیں‘، عوام اور قوم کے مفادات کو جوتی پر رکھ دیا گیا، حسن اخلاق تو چھوڑئیے سیاسی اخلاق کو بھی خیرباد کہہ دیا گیا، معاشی اصلاحات کے نام پر ملکی معیشت کو کاری ضرب لگا دی، پُرامن بقائے باہم اور بھائی چارہ کے اُصول کی تو اُن کی نظروں میں کچھ وقعت ہی نہیں، اُن کے پاس نہ مجاہدین آزادی بالخصوص گاندھی جی، جواہر لعل نہرو، ابوالکلام آزاد کا کچھ احترام ہے نہ دستور ہند کی کوئی اہمیت۔ مختصر یہ کہ مودی اور موجودہ بی جے پی قیادت نے غیرمعلنہ ایمرجنسی (Undeclared Emergency) نافذ کر رکھی ہے جو 1975ء کی ایمرجنسی سے زیادہ خطرناک ہے۔ وہ تو اوپر والے کا کرم ہے کہ پانچ سال اُن کیلئے کم پڑگئے۔ وہ راجیہ سبھا (ایوانِ بالا) میں اکثریت نہ ہونے کی بنا اپنی آمرانہ (Dictatorial) روش پورے ملک میں اس طرح اختیار نہ کرسکے، جس طرح گزشتہ صدی میں جرمن ڈکٹیٹر اڈالف ہٹلر نے کی تھی۔ تاریخ گواہ ہے اُس کا انجام بُرا ہوا۔ اس لئے مودی اور بی جے پی کو دوسری میعاد (2nd term) کا موقع دینا تاریخ آزاد ہندوستان کی بھیانک غلطی ہوگی (خدا محفوظ رکھے)۔ بہ الفاظ دیگر ہندوستانی ووٹروں کو 1977ء سے 42 سال میں دوسری مرتبہ سخت آزمائش کا سامنا ہے۔ اس انتخابی امتحان میںرائے دہندوں کو این ڈی اے شرکاء کے ساتھ ساتھ ان کے درپردہ حلیفوں جیسے ٹی آر ایس سے بھی چوکنا رہنا ہوگا۔ میں نے خصوصیت سے ٹی آر ایس کا نام اس لئے لیا کیونکہ اس کے کے سی آر گزشتہ 7 ڈسمبر کے اسمبلی چناؤ بھاری اکثریت (119 کے منجملہ 88 نشستیں) سے جیت کر ریاستی اقتدار پر برقراری کے بعد سے ان کی توجہ مرکز (دہلی کا اقتدار) کی طرف مرکوز ہوگئی ہے اور وہ اب بھی 2019ء الیکشن کیلئے غیربی جے پی و غیرکانگریس فرنٹ کا راگ اَلاپ رہے ہیں۔ کیا نریندر مودی، امیت شاہ، کے سی آر، نتیش کمار (چیف منسٹر بہار و سربراہ جنتادل ۔ یونائیٹیڈ)، رام ولاس پاسوان (صدر لوک جن شکتی پارٹی)، اُدھو ٹھاکرے (صدر شیوسینا) جیسے لیڈروں نے عوام کو بالکلیہ بے وقوف سمجھ رکھا ہے؟ کے سی آر نے ساڑھے چار سال تک مودی حکومت کے ہر احمقانہ یا متنازعہ اقدام کی تائید و حمایت کی اور اب کہتے ہیں کہ غیربی جے پی، غیرکانگریس فرنٹ بنائیں گے۔ 7 مراحل والی پولنگ کی شروعات کو چند دن باقی رہ گئے ہیں لیکن کے سی آر کے خیالی فرنٹ کا کوئی نام ہے نہ نشان۔ ابھی تک صرف حیدرآباد ایم پی نے ان کی کھل کر حمایت کی ہے اور دونوں نے مل کر تلنگانہ سے تمام 17 لوک سبھا نشستیں جیتنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ حیدرآباد ایم پی کی کیا سیاسی حکمت ہے یا مجبوری وہی جانیں، مگر مجھے تو اس فیصلے میں سیاسی مجبوری غالب نظر آتی ہے۔ ریاست کی حد تک ٹی آر ایس کا کانگریس کو شکست دینا قومی مفادات کیلئے خطرہ نہیں مگر پارلیمانی الیکشن میں کسی بھی علاقائی پارٹی کا وزیراعظم مودی اور امیت شاہ کی موجودگی میں بی جے پی کی کھلی یا دَرپردہ مدد کرنا ہندوستان کیلئے ہرگز اچھا نہیں ہوگا۔ اس لئے جو جو علاقائی پارٹی بی جے پی کی نئی حکومت کی تشکیل میں مدد کرنے کا اندیشہ ہے، اسے بھی ہرانا تمام پُرامن، مہذب، ذمہ دار سکیولر ووٹروں کا کام ہے۔

میرے خیال میں 68 سالہ مودی زندگی کے زیادہ تر پہلوؤں کے اعتبار سے خلافِ معمول (Abnormal) شخص ہیں۔ میری اس مشاہدے کی تائید اُن کی 2001ء سے قبل کی زندگی کرتی ہے۔ اس لئے اب کی بار قوم کو ’قابل وزیراعظم‘ چاہئے جو ایک سے زیادہ نہیں ہوسکتے؛ ملک میں چائے والوں کی کمی نہیں، اور چوکیداروں کی بھی کوئی قلت نہیں! بی جے پی کی موجودہ قیادت (امیت شاہ) کا کیا پوچھئے؟ وہ خیر سے نامی گرامی قتل کے الزام پر جیل میں رہ چکے ہیں؛ یہ اور بات ہے کہ ان کو بری کردیا گیا۔ تاہم، متعلقہ کیس کی شنوائی کرنے والے جسٹس لویا کی مہاراشٹرا میں پُراسرار موت دوبارہ امیت شاہ کو ہزیمت دلا سکتی تھی، مگر ریاست اور مرکز دونوں جگہ بی جے پی حکومت کے سبب یہ ممکن نہ ہوا۔ عین ممکن ہے جب یہ حکومتوں کو عوام مسترد کردیں گے تو گجرات میں سابقہ مودی حکومت کے ریاستی وزیر داخلہ ہرین پانڈیا کے قتل اور جسٹس لویا کی موت کے حقائق منظرعام پر آسکتے ہیں۔ آپ ہی سوچئے جب وزارت عظمیٰ پر مودی ہوں اور بی جے پی کی قیادت امیت شاہ کریں تو دیش کا ستیاناس ہوگا کہ نہیں؟
مودی کن کن وعدوں کے ساتھ مرکزی اقتدار تک پہنچے اور پھر بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت نے تقریباً پانچ سال میں کیا گل کھلائے، اس پر نظر ڈالتے ہیں۔ کہا تھا کہ ’اچھے دن آئیں گے‘ اب اس بارے میں پوچھیں تو خود بی جے پی قائدین بغلیں جھانکتے نظر آئیں گے۔ شاید اُس وقت مسٹر مودی یہ کہنا بھول گئے کہ وجئے مالیا، نیروو مودی، میہول چوکسی، للت مودی، انیل امبانی اور صرف بی جے پی پارٹی کیلئے ’اچھے دن آئیں گے‘ پورے ہندوستان کیلئے نہیں! ملک میں امن و سلامتی کے بعد کسی بھی شہری کیلئے اہم ترین مسئلہ روزگار کا ہوتا ہے۔ 2013ء میں بی جے پی کے وزارت عظمیٰ امیدوار کی حیثیت سے مودی نے ملک بھر میں چیخ چیخ کر کہا کہ یو پی اے حکومت نے نوجوانوں کو بیروزگار چھوڑ دیا، جس کی تلافی کرتے ہوئے وہ سالانہ دو کروڑ روزگار پیدا کریں گے۔ بیروزگاروں کے کانوں کو یقیناً یہ ’جملہ‘ بہت بھلا لگا اور انھوں نے بھی مودی کو اقتدار تک پہنچانے میں اپنا رول ادا کیا۔ مگر 2014ء سے ہوا کیا؟ 2 کروڑ کے بجائے محض چند ہزار روزگار کے مواقع پیدا ہوئے لیکن ’ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے‘ کے مصداق 8.11.2016 کے ناعاقبت اندیشانہ نوٹ بندی (Demonetization) اقدام نے معیشت کا بیڑہ غرق کردیا۔ نوٹ بندی کی قطاروں میں 100 سے زیادہ اموات کا وبال وزیراعظم مودی پر ہے، جس کے علاوہ لاکھوں افراد برسرروزگار سے بیروزگار ہوگئے۔ یہ ہے مودی حکومت کی معاشیات! میں سائنس گرائجویٹ ہوں، اس لئے کامرس اور اکنامکس کے بارے میں زیادہ لب کشائی کرنے کے بجائے نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین، مسلسل دو میعاد کے وزیراعظم، سابق مرکزی وزیر فینانس، سابق گورنر ریزرو بینک آف انڈیا ڈاکٹر منموہن سنگھ، سابق گورنر آر بی آئی رگھورام راجن جیسے ماہرین معاشیات کے حوالے سے لکھ رہا ہوں کہ انھوں نے غیرضروری نوٹ بندی کو بدترین معاشی اقدام قرار دیا، جس نے قوم کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو کاری ضرب لگائی۔ میں عینی شاہد ہوں، وزیراعظم مودی نے کہا تھا کہ اُن کی حکومت کا مقصد کالادھن اور کرپشن کا خاتمہ کرنا اور دہشت گردوں کی فنڈنگ کو روکنا ہے۔ آپ ہی بتائیے، کیا نوٹ بندی سے سوائے پریشانی کے کوئی تعمیری مقصد حاصل ہوا؟ ابھی لوگ اس صدمے سے اُبھرے نہ تھے کہ ’اچھی طرح غوروخوض‘ کئے بغیر 1.7.2017 سے جی ایس ٹی لاگو کردیا گیا جس میں اب تک کئی تبدیلیاں ہوچکی ہیں۔ بیرون ملک جمع کالا دھن واپس لاکر ہر شہری کے بینک اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے ڈپازٹ کرانا ایک اور ’جملہ‘ ثابت ہوا اور مذاق کا موضوع بن گیا۔ بیرون ملک سے کچھ لانا تو دور کی بات، وجئے مالیا، نیروو مودی، میہول چوکسی جیسے مکار و دھوکہ باز بزنسمین قوم کے ہزاروں کروڑ روپئے ہڑپ کر بیرون ملک عیش کررہے ہیں؛ مگر ’چوکیدارِ اعظم‘ ایسے مست ہیں جیسے ان باتوں سے اُن کو کچھ لینا دینا نہیں ہے! یہی پس منظر ہے کہ میں 1977ء میں اندرا گاندھی کی شکست کے بعد اب مودی کا نمبر سمجھ رہا ہوں۔

نامعقول پردھان سیوک یا چوکیدار مودی اور امیت شاہ کی مضرت رساں گجراتی جوڑی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ملک کے تمام 29 چھوٹی بڑی ریاستوں اور مرکزی زیرانتظام علاقوں میں جہاں جہاں کانگریس اور بی جے پی کا دو رُخی مقابلہ ہے وہاں راہول گاندھی کے ہاتھ مضبوط کرنا وسیع تر قومی مفاد میں ہے۔ جہاں علاقائی پارٹیاں کانگریس پر بھاری ہیں، ان میں سے اکثر ریاستوں میں یو پی اے کی سربراہ پارٹی نے علاقائی جماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد کرلیا ہے؛ چنانچہ اسی اتحاد کے حق میں ووٹ دینا چاہئے۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے تمام کھلے اور چھپے مکار، دھوکہ باز، قومی مفاد سے بے پرواہ، سیاسی اقدار کی دھجیاں اُڑانے والے حلیفوں کی جذباتی و چکنی چپڑی باتوں اور 12 فیصد ریزرویشن جیسے جھوٹے وعدوں کے جال میں خدارا مت پھنسیں۔ یہ ہندوستان کا دوسرا تاریخی و فیصلہ کن الیکشن ہے، اگر یہاں ہم چوک گئے تو سوائے پچھتانے کے کچھ نہ رہے گا۔ اُس کے بعد ہندوستانی ووٹرز کے غلط فیصلے کا نابالغ افراد کے مستقبل پر بھی پڑے گا۔ غلط پارٹی کا انتخاب کرنے والے رائے دہندے اپنے کئے کے خود ذمہ دار ہوں گے؛ سینہ پیٹنا، بددعائیں دینا کچھ کام نہ آئے گا بلکہ آپ اپنی نادانی ؍غفلت پر سزا کے مستحق ہوں گے جو کم از کم 2019ء سے 2024ء تک ضرور ملے گی، جس میں مجھے رَتی برابر شک و شبہ نہیں ہے۔
irfanjabri.siasatdaily@gmail.com