حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینے کی ضرورت

بچوں کو ابتدائی سطح پر مادری زبان میں تعلیم ضروری۔ کتاب ’’شنکھ سے اذان تک‘‘ کی رسم اجراء۔ جناب زاہدعلی خاں اور دیگر کا خطاب
حیدرآباد 30 نومبر (دکن نیوز) جناب زاہد علی خاں ایڈیٹر روزنامہ سیاست نے کہاکہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل عوام کے لئے ایک تابناک مستقبل کی ضامن ہے۔ تاہم حکومت کو چاہئے کہ وہ نہ صرف اس ریاست کو ایک ترقی یافتہ ریاست بنائے بلکہ حیدرآباد کی بازیافت کے لئے مخلصانہ اقدامات کرے۔ انھوں نے کہاکہ حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس شہر کے بانی قلی قطب شاہ نے چارمینار کی تعمیر کی تھی جس کے چاروں مینار ہندو مسلم سکھ عیسائی اتحاد اور سلامتی کی علامت ہیں۔ اس تہذیب کو زندہ رکھنا ہوگا۔ جناب زاہد علی خان محبوب حسین جگر ہال میں ممتاز ڈرامہ نگار اور سینئر صحافی ہادی رحیل کی کتاب ’’شنکھ سے اذان تک‘‘ کے تبصرہ اجلاس میں صدارتی تقریر کررہے تھے۔ انھوں نے کہاکہ ہادی رحیل نے ان ڈراموں کے ذریعہ تاریخی صداقتوں کو اپنی فنکارانہ خوبیوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اُردو میں ڈرامے لکھنے کا رجحان بہت کم ہے اور اب تو ڈراموں کو اسٹیج کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ برطانیہ میں آج بھی عوام میں اسٹیج ڈراموں کا شوق و ذوق پایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں بھی مرہٹی ڈراموں کو عروج حاصل ہوا۔ کرشن چندر کاڈرامہ ’’دروازے کھول دو‘‘ کافی مقبول ہوا۔ اسی طرح اُردو زبان سے ہند ۔ پاک عوام کی بے اعتنائی کو ڈرامہ ’’بڑے گھر کی بیٹی‘‘ میں اُجاگر کیا گیا ہے۔ انھوں نے ہادی رحیل کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ اس کتاب کا عنوان ’’اذان سے شنکھ تک‘‘ ہونا چاہئے تھا جوکہ بابری مسجد تنازعہ کے پس منظر کو اُجاگر کرتا ہے۔ ہادی رحیل نے اس ڈرامے میں فرقہ وارانہ یکجہتی کو نہایت خوبی سے پیش کیا ہے۔ انھوں نے اُردو زبان کی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ تمام اسکولس کو پابند کرے کہ وہ اُردو پڑھانے کا باقاعدہ طور پر انتظام کریں اور والدین کی خواہش کا احترام کریں۔ اُردو والوں کو بھی اپنے بچوں کے لئے ابتدائی سطح پر مادری زبان میں تعلیم فراہم کرنے کا عزم کرنا چاہئے۔ اسی طرح ہم زبان کا تحفظ اور تہذیب کی بقاء کو ممکن بناسکتے ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ مزاح نگار پدم شری مجتبیٰ حسین نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔ انھوں نے ہادی رحیل سے اپنی دیرینہ رفاقت کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ہادی رحیل ایک غیر نزاعی اور ادب دوست شخصیت ہیں جنھوں نے اپنی صلاحیتوں کے ذریعہ ادب و صحافت کی نمایاں خدمت کی ہے۔ وہ اُردو زبان کے شکسپیر تو نہیں ہیں لیکن اردو ڈراموں کو مقبولیت عطا کرنے میں اُن کی کوششیں ناقابل فراموش ہیں۔ ’’اتہاس کی روشنی‘‘ کے بعد ’’شنکھ سے اذان تک‘‘ انھوں نے جو ڈرامے تحریر کئے ہیں وہ اُن کے سماجی شعور اور تاریخی بصیرت کا ثبوت ہیں۔ اپنے ڈرامے ’’شنکھ سے اذان تک‘‘ میں اُنھوں نے گاؤں کی پرامن زندگی کو پیش کیا ہے جہاں ایک پجاری اور مسجد کے امام کے درمیان غیرمعمولی دوستی اور تعلقات ہیں لیکن پجاری کا لڑکا شہر جانے کے بعد وہاں کے ماحول کا شکار ہوکر فرقہ پرست بن جاتا ہے۔ یہ صورت حال پجاری کے لئے تکلیف دہ بن جاتی ہے اور اس طرح فرقہ پرستی کا نہایت بھیانک نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ اس ڈرامہ میں ڈرامہ نگار نے شہروں میں پھیلتے ہوئے فرقہ پرستی کے زہر کو نہایت بے باکی کے ساتھ پیش کیا ہے جو قابل ستائش ہے۔ مہمان خصوصی جسٹس ای اسماعیل نے ہادی رحیل کی اعلیٰ صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ انھوں نے ان ڈراموں کے ذریعہ زندگی کی صداقتوں کو اُجاگر کیا ہے۔ جناب عابد صدیقی سابق نیوز ایڈیٹر دوردرشن نے ابتداء میں خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ اخبار سیاست نے اپنے آغاز سے آج تک اُردو زبان و ادب کے فروغ میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے نامور ادیبوں و شعراء کی تخلیقات کو سیاست نے جگہ دی اور آج جناب زاہد علی خان اعلیٰ روایتوں کے تسلسل کو نہ صرف برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ بلکہ اُنھوں نے ان روایتوں میں خوشگوار اضافہ کیا ہے۔ انھوں نے کہاکہ ہادی رحیل کی ادبی و صحافتی خدمات غیر معمولی ہیں وہ انگریزی میں خبریں بناتے ہیں اور اُردو میں ادبی شہ پاروں کی تخلیق کرتے ہیں۔ ہادی رحیل کے کئی ڈرامے اسٹیج ہوچکے ہیں جنھیں عوامی مقبولیت حاصل رہی ہے۔ پروفیسر خالد سعید نے اپنے مضمون میں کہاکہ ہادی رحیل انسانی قدروں کے پاسدار ہیں اور فرقہ پرستی اُن کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ انھوں نے اپنے ڈراموں میں حب الوطنی، انسان دوستی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا پیام دیا ہے۔ جذباتی انداز میں احمد صدیقی مکیش کنوینر نے شکریہ ادا کیا۔ اس تبصرہ اجلاس میں ممتاز مہدی، حمیدالظفر، ٹھاکر ہردے ناتھ، حامد کمال، محمد اسماعیل، عرشیہ عامرہ، محمد نصراللہ خان، عالم مہدی، محمد یوسف الدین، عارف محمد سمیع الدین، خسرو شاہ کے علاوہ مرد و خواتین کی کثیر تعداد موجود تھی۔