حیدرآباد کو ترقی دینے جی ایچ ایم سی کا فاضل بجٹ

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
حکومت تلنگانہ اور آندھراپردیش نے سرمایہ داری نظام پر چلنے اور اس کو فروغ دینے والی دنیا کی سب سے بڑی طاقت ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سب سے بڑے عہدہ پر فائز صدر بارک حسین اوباما کو مدعو کرنے کی جدوجہد شروع کردی ہے۔ بارک اوباما کو یوم جمہوریہ تقریب میں شرکت کے لئے وزیراعظم نریندر مودی نے دعوت دی ہے اور وہ ہندوستان کے مہمان ہوں گے۔ اس موقع سے استفادہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راؤ نے امریکی قونصل خانہ کولکتہ کو مکتوبلکھ کر صدر امریکہ کے دورہ کے موقع پر حیدرآباد کو بھی دورہ میں شامل کرنے کی خواہش کی ہے۔ دوسری طرف چیف منسٹر آندھراپردیش چندرابابو نائیڈو نے بھی اپنی ریاست میں اوباما کے دورہ کو یقینی بنانے پر توجہ دی ہے۔ وجئے واڑہ میں امریکی قونصل خانہ کے قیام کے لئے بھی نائیڈو کوشاں ہیں۔ مگر امریکی عہدیداروں نے فی یالحال یہ قونصل خانہ قائم کرنے کی واضح صورت ظاہر نہیں کی ہے۔

اگر صدر امریکہ بارک اوباما دورہ ہندوستان کے موقع پر حیدرآباد کا دورہ کرتے ہیں تو یہ نئی ریاست تلنگانہ کے لئے بیرونی سرمایہ کاروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کا موقع ملے گا۔ اس سے قبل امریکی صدر بل کلنٹن اور جارج بش نے حیدرآباد کا دورہ کیا ہے تو اس مرتبہ بارک اوباما کے دورہ کی بھی توقع ہے۔ حیدرآباد کو جب سے گریٹر حیدرآباد کا درجہ دیا گیا ہے کسی بیرونی بڑے مہمان کا استقبال نہیں کیا گیا۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ اپنی کوششوں سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے صدر کو حیدرآباد لانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو اس کے ساتھ تلنگانہ میں سرمایہ کاری کا باب بھی کھولنے کا موقع ملے گا۔ حیدرآباد کو خاص کر میونسپل کارپوریشن عظیم تر حیدرآباد کو اس کے لئے تیاری کرنی ہوگی۔ حیدرآباد کو عالمی درجہ کا شہر بنانے کے منصوبہ کو روبہ عمل لانے میں جی ایچ ایم سی کو بھی سرگرم رول ادا کرنا ہوگا۔ بلدیہ کی ٹیموں کو ترقیاتی کاموں میں مشغول کرنے شہر کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ابھی سے جنگی بنیادوں پر کام کرنے ہوں گے۔ بلدیہ کے پاس فاضل بجٹ ہے۔ میئر محمد ماجد حسین نے یہ اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے بلدیہ میں مالیہ کو متحرک کرنے کے لئے حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔

میئر کی حیثیت سے 3 ڈسمبر کو ان کی میعاد ختم ہونے کے بعد انھوں نے بلدیہ کو فاضل بجٹ دیا ہے تو اب بلدیہ کا کام ہے کہ شہریوں سے حاصل کردہ ٹیکسیس کی شکل میں مالیہ کو متحرک کرکے بہتر سے بہتر سہولتیں فراہم کرے۔ بلدیہ کا بجٹ پہلے 480 کروڑ روپئے تھا۔ اب یہ 1000 کروڑ سے تجاوز کرگیا ہے۔ کارپوریشن کے پاس 600 کروڑ روپئے کا فاضل بجٹ ہے۔ 4 جنوری 2011 ء میں میئر بلدیہ کی حیثیت سے جائزہ لیتے ہوئے ماجد حسین نے بلدیہ کے مالیہ کو مستحکم کرنے کے لئے ٹیکسوں کی وصولی کے عمل کو مؤثر بنایا اور اس میں کامیاب بھی ہوئے جس کے نتیجہ میں بلدیہ کو 500 کروڑ روپئے وصول ہوئے اور اس میں صرف 300 کروڑ روپئے جائیداد ٹیکس سے حاصل ہوئے ہیں۔ بلدی حلقوں میں کاموں کی انجام دہی کے لئے بھی کارپوریٹرس کے بجٹ کو سالانہ 50 لاکھ روپئے سے بڑھاکر ایک کروڑ روپئے کردیا گیا۔ اس کے باوجود شہر کی سڑکوں اور ڈرینج نظام، کچرے کی نکاسی کے مسائل سے متعلق عوامی شکایات برقرار ہیں۔ اسٹریٹ لائٹس کے ناکارہ ہونے، کتوں کی کثرت، مچھروں کی افزائش، ڈینگو، ایبولا جیسے وائرس کے لئے محفوظ جگہ بننے والے حیدرآباد کو ترقی دینے کے لئے بلدیہ کو مزید محنت کرنے اور فعال قیادت کی ضرورت ہوگی۔ بلدیہ کی ٹیموں نے جائیداد ٹیکس اور دیگر ٹیکسوں کی وصولی میں بہترین مظاہرہ کیا ہے تو عوامی شکایات کے ازالہ کے لئے کچھ نہیں کیا۔

بلدیہ خود مالی نظم و ضبط برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگیا ہے مگر شہر کی ترقی میں ناکام ہوا ہے جس کے نتیجہ میں آج شہر کی گلی کوچے بلدیہ سے شکایت کررہے ہیں۔ رکن اسمبلی کا ٹکٹ نہ ملنے کے باوجود میئر کی حیثیت سے ماجد حسین نے بلدیہ کو مستحکم بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی لیکن اب ان کے بعد بلدیہ کو اپنے فاضل بجٹ کے تحت آئندہ انتخابات تک شہریوں کی بہترین خدمت کرنی ہے۔ جس شہر میں دو ریاستوں کے چیف منسٹرس اور دونوں ریاستوں کے وزراء اور سکریٹریز و اعلیٰ بیوروکریٹس رہتے ہیں اس کے علاوہ ان دونوں ریاستوں کے حکمرانوں سے ملاقات کے لئے عالمی سطح کے وفود کا دورہ حیدرآباد ہوتا ہے تو شہر کی سڑکوں، عمارتوں، آب و ہوا اور باغات کو ترقی دینا بلدیہ کا فریضہ ہے۔ کم و بیش ایک کروڑ نفوس پر مشتمل انتہائی گنجان شہر عروس البلاد حیدرآباد جیسے اس کی جغرافیائی اور اقتصادی اہمیت کے اعتبار سے جنوبی ہند کا سب سے بڑا شہر مانا جاتا ہے۔ اس کا انفراسٹرکچر حالیہ دنوں میں دو ریاستوں کے تنازعہ کے باعث ابتری کا شکار ہے۔ میٹرو ریل پراجکٹ کا کام سست روی سے جاری ہے تو فلائی اوور بریجس کی تعمیر بلدیہ کے رحم و کرم پر ہے۔ حیدرآباد کو سب سے بڑا غریب پرور شہر بھی کہا جاتا ہے جہاں بلدیہ والوں نے پانچ روپئے میں کھانے کا انتظام کیا مگر ایک روپے میں ناشتہ کی اسکیم شروع نہیں کرسکی۔

شہر کا رُخ کرنے والے بیرونی ریاست کے افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس میں صحت کے شعبہ کا بہت بُرا حال ہے۔ تلنگانہ حکومت نے سالانہ بجٹ میں صحت کے شعبہ کے لئے خاص بجٹ مختص نہیں کیا۔ اتفاق سے ریاستی ڈپٹی چیف منسٹر ڈاکٹر راجیا بھی پیشہ طب کے کہنہ مشق ڈاکٹر ہیں۔ انھوں نے سرکاری دواخانوں کی ابتر صورتحال کا جائزہ لیا ہے اور دواخانہ عثمانیہ میں شب بسری کے ذریعہ انتظامات کا جائزہ لیا۔ اس کے باوجود عثمانیہ دواخانہ کی صورت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ سرکاری ہاسپٹلوں میں علاج معالجے کی مناسب سہولتیں موجود نہیں ہیں اس کی وجہ سے ایک عام شہری اپنی بیماریوں کے علاج کے لئے غیر سرکاری ہاسپٹلوں کی طرف رجوع کرتے ہیں جہاں ان سے زیادہ پیسے وصول کئے جاتے ہیں۔ علاج بھی غیر تسلی بخش ہوتا ہے۔ صحت کے شعبہ میں ان حالات کا مشاہدہ کرنے کے بعد کچھ ڈاکٹروں نے یہ تہیہ کرلیا تھا کہ وہ مخیر حضرات سے امداد حاصل کرکے کچھ ایسے دواخانے قائم کریں جہاں غریبوں کا مفت مگر تسلی بخش علاج ہوا کرے گا۔ مگر ان دواخانوں کی بھی حالت سرکاری دواخانوں کی طرح کردی گئی ہے۔ شہر کے مخیر حضرات کو پھر ایک بار اس شعبہ صحت کو بہتر بنانے کی جانب دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ شہر کے بعض دواخانے فلاحی جذبہ کے ساتھ کام کررہے ہیں لیکن عوام کو ان دواخانوں تک پہونچنے کے لئے دور دراز مسافت طے کرنی پڑتی ہے۔ شہر کے اہم مراکز پر مفت ہیلت سنٹر قائم کئے جائیں تو غریبوں کے لئے مفت یا کم شرح پر دوائیں فراہم کی جائیں تو بہت بڑا کارخیر ہوگا۔ پہلے کے چیف منسٹروں کو میڑچل کے بابا، ستیہ سائی بابا یا دیگر باباؤں کی سرپرستی حاصل ہوتی تھی

اس لئے وہ عوام کو اپنی چھومنتر پالیسیوں سے دل لبھاتے رہتے تھے۔ اب نئے چیف منسٹر کے پاس سوائے بتکماں کے کوئی بابا کا سایہ نہیں ہے تو وہ اپنی پالیسیوں کا چھومنتر نہیں جانتے انھیں بہرحال پالیسیوں پر عمل آوری کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرنے ہی ہوں گے جس کے بعد ہی عوام الناس کو ترقی حاصل ہوگی۔ صحت کے معاملہ میں بہتر علاج ملے گا مگر ہمارے خوابوں کے اسیر حکمراں طبقہ کے لوگوں کو یہ کہنے کے لئے مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ صرف خوشخبریاں سناؤ اور تاریکی کو تاریکی مت کہو۔ بھائیو جھوٹ تو وہ شخص بولے جسے یوم حساب پر یقین نہیں یا جسے یقین ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ لیکن لیڈر کا یوم حساب تو ہر پانچ سال کا الیکشن ہوتا ہے اس لئے وہ جھوٹ بول کر اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشامد کرتا ہے تو عوام کو ترقی کس طرح ملے گی۔ لوگ بھی ایسے ہیں کہ پانچ سال تک تنگ و بیزار آنے کے باوجود انھیں کو ووٹ دیتے ہیں جو جھوٹ بول بول کر انھیں بے وقوف بناتا رہا ہے۔ نئی ریاست کے وجود میں آنے کے 6 ماہ بعد بھی خوشخبری سننے کو نہیں مل رہی ہے تو اب دور تک تاریکی اور اندھیرا ہی نظر آئے گا اور آپ کو ایسا معلوم ہوگا کہ نئی ریاست میں آپ کا امتحان جاری ہے۔ بہرحال آئندہ ماہ 26 جنوری کو امریکی صدر بارک اوباما کے دورہ ہند اور تلنگانہ کا رُخ کرنے کے انتظار تک شہر کی ترقی کی ذمہ داری جی ایچ ایم سی کس حد تک پورا کرے گی یہ دیکھا جائے گا۔
kbaig92@gmail.com