حیدرآباد شہر کو سیاحتی مرکز میں تبدیل کرنے کیلئے اہم رول ادا کرنے کا عزم

قلیل وقت میں مخالفت کی سازش، ڈپٹی میئر جی ایچ ایم سی بابا فصیح الدین کا اظہار افسوس
محمد علیم الدین
حیدرآباد 28 فروری ۔شہر حیدرآباد کو مثالی اور عالمی معیار کا شہر بنانے کی کوشش میں مصروف تلنگانہ راشٹرا سمیتی حکومت نے جہاں انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل کرتے ہوئے ایک نیا ریکارڈ بنایا ہے تو وہیں دوسری طرف نوجوان قیادت کو موقع فراہم کیا۔ شہریوں کی خدمت اور مثالی معیاری خدمات کو اولین ترجیح دینے والی کے سی آر حکومت نے سرگرم جوشیلے نوجوانوں میئر اور ڈپٹی میئر کے عہدہ پر مقرر کیا۔ ان میں ڈپٹی میئر بابا فصیح الدین بھی شامل ہیں۔ بابا فصیح الدین کا نام کل تک صرف تحریکوں، دھرنوں، کالجس کے طلبہ کے ساتھ احتجاج، تحریک کی آواز کو بلند کرنے میں مصروف تھا۔ آج یہ نام دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ تاہم دوسری طرف ان کی مخالفت میں طرح طرح کی اوچھی حرکتیں اور سازشیں بھی جاری ہیں۔ کبھی انھیں غیر مقامی اور ضلع کھمم کا متوطن بتایا جارہا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ بابا فصیح الدین کی کہانی انھیں کی زبانی ہم شہریوں کو بتانے کی کوشش کررہے ہیں۔ پہلے ہم ان کے نام کے بارے میں جانیں گے کہ آیا بابا ان کے نام سے کس طرح جڑ گیا۔ اس سلسلہ میں بابا فصیح الدین کا کہنا ہے کہ بابا نام صرف ان کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے خاندان کے ہر بچے کے نام سے جُڑا ہوا ہے اور مستقبل میں بھی جڑا رہے گا۔ چونکہ یہ نام شہنشاہ دکن بابا شرف الدینؒ کے فیض سے ملا ہے۔ جب بابا فصیح الدین کی دادی نے بابا شرف الدینؒ کی بارگاہ میں پہونچ کر اولاد نرینہ کی منت مانگی تھیں اور جب ان کی دادی کو اللہ نے اولادِ نرینہ سے نوازا تو انھوں نے اللہ کے ولی کا نام اپنے بیٹے لئے رکھ دیا اور ان کی نسل جب تک رہے گی بابا ہر مرد بچے کے نام سے جڑا رہے گا۔ ڈپٹی میئر کا کہنا ہے کہ کسی سرکاری یا غیر سرکاری پروگرام میں ہم وطنوں کی محبت سے میری ایمانی کیفیت متاثر نہیں ہوگی۔ چونکہ میرے نام سے پہلے ولی کا نام جڑا ہے۔ بابا فصیح الدین کا تعلق ضلع کھمم سے نہیں بلکہ ضلع میدک سے ہے۔ وہ ضلع میدک کلچارم سے تعلق رکھتے ہیں۔ حلقہ اسمبلی نرساپور کے تحت کلچارم منڈل آتا ہے۔ کلچارم میں شیخ شہاب الدینؒ کی بارگاہ ہے اور یہ درگاہ سر مبارک اور دھڑ مبارک کے نام سے بھی معروف ہے۔ بابا فصیح الدین کا بچپن اور ابتدائی تعلیم اور تربیت اللہ کے اس ولی کے سایہ میں ہوئی۔ آج بھی کلچارم میں ان کا آبائی مکان موجود ہے۔ انھوں نے تلنگانہ تحریک میں ٹی آر ایس کے قیام سے ہی سرگرم ہیں۔ انھیں تحریک میں شمولیت اور سرگرم رول ادا کرنے کا جذبہ ان کے والد سے ملا۔ 1969 ء تلنگانہ تحریک میں ان کے والد بابا شرف الدین نے سرگرم رول ادا کیا تھا اور انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بابا فصیح الدین کا کہنا ہے کہ آج وہ اس مقام پر ہیں۔ شادی کے تین ماہ بعد ہی اس نئے دولہے کو تحریک تلنگانہ کے سبب جیل جانا پڑا۔ نئی شادی رشتہ داروں اور سسرالی رشتہ داروں میں تقاریب میں مصروفیت کو ترجیح دینے کے بجائے بابا فصیح الدین نے تحریک کو اہمیت دی اور تین دن جیل میں گزارے۔ 40 سے زائد این بی ڈبلیو اور ایک سوسے زائد مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے تحریک میں بابا فصیح الدین کے قدم کبھی نہیں ڈگمگائے اور وہ اپنے والد کی ہمت افزائی سے ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔ والدین اور بیوی کے علاوہ بابا فصیح الدین کا کہنا ہے کہ رکن پارلیمنٹ کویتا کو اپنی بڑی بہن مانتے ہیں۔ چونکہ کویتا نے بڑی بہن کی طرح مشکل حالات میں ان کا ساتھ دیا اور ریاستی وزیر پنچایت راج کے ٹی راما راؤ نے تحریک میں ان کی کافی ہمت افزائی کی۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے بی کام کے طالب علم بابا فصیح الدین طلبہ برادری میں کافی مقبولیت رکھتے ہیں۔ اور تحریک تلنگانہ میں طلبہ برادری کی قربانیوں اور ان کے رول کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ انھوںنے کہاکہ ان کے لئے کافی مسرت اور فخر کی بات ہے کہ وہ ڈپٹی میئر ہیں اور ریاستی وزیر اعلیٰ کے چندرشیکھر راؤ نے ان پر کافی بڑی ذمہ داری دی ہے۔ انھوں نے کہاکہ جس طرح تحریک میں مشکل حالات کے وقت انھیں ذمہ داری دی جاتی تھی وہ بخوبی نبھاتے تھے۔ اب بھی وہ اپنی نئی خدمات کو بخوبی نبھائیں گے۔ چونکہ اس وقت بھی وہ کے ٹی آر جنھیں وہ (رمنا) کہتے ہیں کہ مشورہ پر چلتے تھے اور اب بھی ان کی رہنمائی حاصل ہے۔ انھوں نے کہاکہ وہ شہر کی گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھنے اور اس تہذیب کو مزید تقویت دیں گے اور مثالی و معیاری خدمات و ترقی سے شہر حیدرآباد کو عالمی معیار کا شہر بنانے کے لئے سخت محنت و جدوجہد کریں گے۔ حیدرآباد کو سیاحتی مرکز بنانے وہ اہم رول ادا کریں گے۔ تاہم انھوں نے کم وقت پر ان کے خلاف کی گئی سازشوں اور مخالفت پر افسوس کا اظہار کیا اور کہاکہ ان کے خلاف وہی لوگ سرگرم ہیں جو خود کی شناخت سے خوفزدہ ہیں۔ تاہم انھوں نے وقت آنے پر تمام سازشوں اور مخالفتوں کا منہ توڑ جواب دینے کا اشارہ دیا اور کہاکہ میری خدمات ان کی اولین ترجیح رہے گی۔