حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے طلبہ میں شامل مسلم نوجوان زدوکوبی کا شکار

پولیس میں متعصب عہدیدار، بیف پر طعنے، غیر مسلم طلبہ کے پولیس پر الزامات
حیدرآباد 31 مارچ (سیاست نیوز) محکمہ پولیس میں متعصب عہدیداروں کی کمی نہیں ہے لیکن جب کبھی پولیس کے مقابلہ میں قابل اور تعلیم یافتہ نوجوان ہوتے ہیں تو اُنھیں ہراساں و زدوکوب کرنے سے پولیس کے متعصب عہدیدار بھی کچھ حد تک احتیاط کرتے ہیں لیکن 22 مارچ کو حراست میں لئے گئے حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے طلبہ میں شامل مسلم نوجوانوں کو دیگر نوجوانوں سے زیادہ زدوکوب کرتے ہوئے اُنھیں ہراساں کیا گیا اور بیف کے مسئلہ پر بھی اُن پر طعنے کسے گئے۔ ایسا کرنے والے کوئی اے بی وی پی کے کارکن یا جن سنگھی نہیں تھے بلکہ خاکی وردی میں ملبوس پولیس عہدیدار تھے جنھوں نے اپنے ناموں کی تختیاں نکال رکھی تھیں۔ یہ سنگین الزامات امول، راجت اور دیپک نامی طلبہ نے پولیس پر عائد کئے ہیں اور کہاکہ جس وقت اُنھیں حراست میں لیا گیا مختلف پولیس اسٹیشنس پہنچایا گیا جہاں اُنھیں رات بھر رکھا گیا تھا۔ پولیس اسٹیشن لیجانے کے دوران پولیس نے گاڑیوں میں موجود نوجوانوں کو نام پوچھ کر اُنھیں زدوکوب کیا جس پر بعض نوجوانوں نے اپنے موبائیل فون کے ذریعہ پولیس کی اس بدسلوکی کی ویڈیو گرافی کرنے کی کوشش کی جن کے موبائیل چھین لئے گئے اور وہ اب تک بھی پولیس کے پاس ہیں۔ سائبرآباد پولیس پر عائد کئے گئے طلبہ کے اِن سنگین الزامات کے بعد ریاستی اقلیتی کمیشن کو فوری حرکت میں آتے ہوئے سائبرآباد کمشنر پولیس اور ماتحت عہدیداروں سے جواب طلب کرنا چاہئے۔ چونکہ جن حالات میں پولیس نے نوجوانوں کو حراست میں لیا تھا اُس کے بعد اُنھیں زدوکوب کرنے کی اطلاعات تو مصدقہ تھیں لیکن اب خود اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ اِس بات کا انکشاف کرچکے ہیں کہ جو مسلم نوجوان پولیس کی حراست میں آئے تھے اُنھیں نام لے کر نشانہ بنایا گیا۔ حراست میں لئے گئے مسلم نوجوانوں میں محمد حسن الزماں، محمد شاہ، محمد اجمل، محمد عاشق، وی منصف کے علاوہ دیگر شامل ہیں۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے طلبہ دیپک اور امول نے بتایا کہ پولیس کے اِس رویہ سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کیمپس میں کارروائی کرنے والے عہدیدار مخصوص نظریہ کے حامل تھے اور اُنھوں نے اپنی متعصب ذہنیت کا اظہار نہ صرف یونیورسٹی کیمپس میں کیا بلکہ نوجوانوں کو پولیس اسٹیشن پہنچاتے ہوئے اُن کے ساتھ بدسلوکی اور مذہبی منافرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ محکمہ پولیس میں نہ صرف تعصب پایا جاتا ہے بلکہ مخصوص طبقہ کے نوجوانوں کو نشانہ بنانا پولیس کی عادت بن چکی ہے۔ پانچ روزہ حراست کے بعد رہا ہونے والے طلبہ نے بتایا کہ بیف کے متعلق پولیس اہلکاروں کے طنزیہ ریمارکس اور پاکستان چلے جانے جیسے الفاظ سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ کوئی سرکاری ذمہ داری نہیں نبھارہے ہیں بلکہ مخصوص فکر کی عکاسی کررہے تھے۔