حیدرآباد کے اہم ادارے اورکتب خانے مولانا عبدالماجد دریابادی کی نظر میں

ڈاکٹر سید داؤد اشرف

مولانا عبدالماجد دریابادی 1963ء میں حیدرآباد تشریف لائے تھے ۔ انھوں نے اس دورے کی رودادا میں حیدرآباد کی چند ممتازشخصیتوں کے تعلق سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان کا خلاصہ گذشتہ مضمون میں پیش کیا جاچکا ہے ۔ مولانا نے اس دورۂ حیدرآباد کے موقع پر جن اہم اداروں اور کتب خانوں کا معائنہ فرمایا تھا ان میں ادارۂ ادبیات اردو ، انجمن ترقی اردو ہند ، مجلس تعمیر ملت ، دائرۃ المعارف ، کتب خانہ آصفیہ (موجودہ اسٹیٹ سنٹرل لائبریری) ، سالار جنگ کتب خانہ اور دارالقرأت کلیمیہ قابل ذکر ہیں ۔
مولانا ادارہ ادبیات اردو کے بارے میں تحریر کرتے ہیں ’’نام کی کشش جب ادارہ ادبیات اردو تک لے گئی تو ایوان اردوکو نام کا نہیں واقعی ایوان اردو پایا ۔ عمارت کے ظاہری حسن و جمال ، وسعت و طول و عرض سے قطع نظر جب عمارت کے اندر قدم رکھا اور چل پھر کر ، ادھر ادھر اوپر نیچے دیکھنا شروع کیا تو شان خدا نظر آئی ۔ میوزیم اور لائبریری سب کچھ ہی اس ایوان کے اندر جمع ! اللہ اکبر اپنی اردو کی یہ شان ! قلمی کتابوں نادر مخطوطوں کا پورا ذخیرہ فراہم ، ریسرچ اسکالر آئیں تو اپنے کام کے لئے مدتوں قیام کا سامان پائیں ۔ سچ یہ ہے کہ اس احاطے کے اندر آکر یہ بھی یاد نہیں رہ جاتا کہ اردو کوئی مظلوم زبان ناقدری اور کسمپرسی کا شکار ہے یا یہ کہ کسی بھی ترقی یافتہ زبان سے پیچھے یا نیچے! اللہ نے خلوص میں بڑی برکت رکھی ہے ۔ ڈاکٹر زور مرحوم اردو کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے تھے ۔ اللہ نے ان کی کوششوں کو کامیابی و سرسبزی کا یہ مرتبہ عطا کیا اور بابائے اردو کا صحیح جانشین بلکہ یوں کہئے کہ بابائے اردو ثانی بنادیا‘‘ ۔
انجمن ترقی اردو ہند کے بارے میں مولانا رقم طراز ہیں کہ ایک وسیع احاطے میں اور اس کے اندر دو اردو کالجوں کو بڑے پیمانے پر چلانا کوئی آسان اور معمولی کام نہیں ۔ کتابوں کی تالیف اور اشاعت اس کے علاوہ ہے ۔ یہ سب کچھ بڑی حد تک انجمن کے معتمد پروفیسر حبیب الرحمن کی جوان ہستی اور ایثار کا نتیجہ ہے ۔ انھوں نے اپنی ایک بڑی ذاتی عمارت انجمن کی نذر کردی ہے اور خود دن رات اردو کی خدمت میں لگے رہتے ہیں ۔ خوش نصیب ہیں وہ انجمن جسے ایسے مخلص کارکن نصیب ہوئے ہیں ۔ اس انجمن کو چلانے میں تنہا مسلمانوں کا ہاتھ نہیں بلکہ متعدد ہندو بھی اس میں دل و جان سے شریک ہیں ۔ چنانچہ شری جانکی پرشاد کا نام بار بار سننے میں آیا ۔
مجلس تعمیر ملت کے متعلق مولانا لکھتے ہیں کہ شہر حیدرآباد میں ایک ایسا ادارہ دیکھنے میں آیا جو شہر ہی کی نہیں بلکہ ساری ریاست کی ملی زندگی میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس ادارے کے صدر سید خلیل اللہ حسینی سرگرم عمل مجسم ہیں ۔ 1948ء کے بعد سے اس مدت میں جو افسردگی ، انتشار ، ہراس بلکہ سرسیمگی پیدا ہوگئی تھی اس کے دور کرنے اور مسلمانوں میں از سر نو اعتماد نفس پیدا کرنے میں بڑا دخل مجلس تعمیر ملت کو ہے ۔ مجلس کا نصب العین جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے تعمیر ہے ،تخریب نہیں ۔ ٹھوس کام کرنا ہے محض نعرے لگانا اور جلوس گشت کرانا نہیں ۔
دائرۃ المعارف کے بارے میں مولانا اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ دوسرے دینی اداروں سے قطع نظر یہ دینی علمی ادارہ ایسا ہے کہ جو حیدرآباد بلکہ سارے ہندوستان میں منفرد تھا اور اب تک ہے اور ہندوستان کیا معنی اس کی نظیر اس بڑے پیمانے پر عالم اسلام میں کمتر ہی نظر آئے گی ۔ اس کے ناظم ڈاکٹر عبدالمعید خان جو نظامت سے ہمہ وقتی و نازک کام کے علاوہ بلند پایہ انگریزی سہ ماہی اسلامک کلچر کے ایڈیٹر ہیں ، یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اور اسلام کے علمی محاذوں پر سپاہی کی خدمات انجام دیتے ہیں ۔ دائرۃ المعارف کو بند کروانے کی کوششوں اور مولانا ابوالکلام آزاد کی دلچسپی اور توجہ کے باعث اس ادارے کی برقراری کے بارے میں مولانا کہتے ہیں ’’یاروں نے کیا کوئی کسر ادارے کو بند کرادینے کی اٹھا رکھی تھی ۔ ادارہ مسلمانوں کا مخصوص کام کررہا ہے ۔ فرقہ وارانہ ہے ۔ سیکولر حکومت میں اس کا کیا کام ، اسے فوراً القط ہونا چاہئے ۔ قریب تھا کہ فرمان قضا اسی مضمون کا شائع ہوجائے اور حکومت آندھرا پردیش کے حکم سے ادارے کے دروازوں پر قفل پڑجائیں لیکن حافظ حقیقی کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ وزیر تعلیم سرکار ہند مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے منصب عالی کی کرسی سے زبردست احتجاج نامہ بھیجا ’’بند ہونا کیا معنی‘‘ ایسے ادارے کو قائم ہی نہیں اور ترقی دینا چاہئے ۔ بیرون ہند کی پڑھی لکھی دنیا میں سرکار ہند کے سیکولرازم کا بھرم ہی اس سے قائم ہے ۔ اپنے سرکاری دورے میں میں نے کیا جرمنی کیا فرانس ، کیا برطانیہ اور کیا اٹلی سب مقامات کے اہل علم کو اس کی خیریت دریافت کرتے اور اس کے کارناموں کے راگ گاتے ہوئے پایا جب کہیں جا کر ادارے کی جان بخشی ہوئی‘‘ ۔
مولانا جب دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ میں ملازمت کے دوران حیدرآباد میں مقیم تھے ان دنوں کتب خانہ آصفیہ ان کے شوق و دلچسپی کا مرکز تھا ۔ وہ اکثر وہاں جایا کرتے تھے ۔ اب کتب خانہ آصفیہ اسٹیٹ لائبریری میں تبدیل ہوچکا تھا ۔ اس مرتبہ اس کتب خانہ کو دیکھنے پر مولانا کے یہ تاثرات تھے کہ اس ریاست میں اردو کے ساتھ سوتیلے پن کا رویہ تھا ۔ اردو کی نئی کتابوں کی کوئی فہرست باہر آویزاں نہ تھی جبکہ انگریزی اور ہندی کتابوں کے نام تعارف کے ساتھ بورڈ پر چسپاں تھے ۔
مولانا پہلے بھی کئی بار کتب خانہ سالار جنگ جاچکے تھے ۔ سالار جنگ سوم ان سے بری شفقت و مہربانی سے پیش آتے تھے ۔ اس مرتبہ کتب خانہ سالار جنگ میں نصیر الدین ہاشمی سے ان کی تفصیلی ملاقات رہی جن کے بارے میں مولانا تحریر کرتے ہیں کہ پڑھے لکھوں اور تحقیقی کام کرنے والوں میں کون ان سے ناواقف ہوگا ۔ وہ اپنی ذات سے خود ایک زندہ کتب خانہ ہیں ۔ وہ کتنی کتابوں اور کتاب سازوں کے نام ، پتے ، خصوصیات کے حافظ ، کتب خانوں کی ترتیب  ،فہرست سازی وغیرہ کے ماہر ہیں ۔ ملک میں قرأت و تجوید کے نظام کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا عبدالماجد دریابادی کہتے ہیں کہ حیدرآباد بحمداللہ اس خصوص میں بھی اپنی امتیازی شان قائم کئے ہوئے ہے ۔ فارسی کے پروفیسر قاری کلیم اللہ حسینی کی نگرانی و سرپرستی میں کامیابی کے ساتھ کام کرنے والے ادارے دارالقرأت کی کارکردگی پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قاری صاحب خود اپنی ذات سے جامع صفات ہیں ۔ ایک طرف صورۃً ، سیرتاً پختہ و گہرے مسلمان اور دینی علوم کے عالم اور دوسری طرف انگریزی زبان اور مغربیات میں برق ۔
مولانا عبدالماجد دریابادی نے حیدرآباد میں اٹھاون دن (29 ستمبر تا 16 اکتوبر 1963ء) بے حد مصروف گزارے ۔ واپسی کے وقت وہ اپنے احساسات کا ان الفاظ میں اظہار کرتے ہیں ۔ ’’بڑی بڑی عمریں بات کہتے اور لمبی لمبی زندگیاں پلک جھپکاتے ختم ہوجاتی ہیں تو سترہ اٹھارہ دن کی بساط ہی کیا تھا ۔ ابھی حیدرآباد کے پلیٹ فارم پر آمد ہی ہوئی تھی کہ اسی اسٹیشن سے روانگی کی گھڑی بھی آگئی ۔ وہ 29 ستمبر کی صبح تھی اور یہ 16 اکتوبر کی شام ! خوب یقین کے ساتھ شروع ہی سے معلوم تھا کہ قیام بالکل عارضی اور چند روزہ ہے پھر بھی دل کسی حد تک لگ گیا تھا اور طبیعت در و دیوار گلی کوچے سے مانوس ہوگئی تھی ۔ چلتے وقت دل کسی درجہ میں ضرور کڑھا‘‘ ۔