حیدرآباد میں تمہارے علاوہ کوئی نیک لیڈر نہیں … !

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
اسمبلی انتخابات میں ٹکٹ سے محروم قائدین اِدھر اُدھر جھانکنے لگے ہیں ۔ اپنی متعلقہ پارٹیوں کی قیادت سے ناراض ہوگئے ہیں ۔ ظاہر ہے یہ لوگ اب آئندہ پانچ سال کے لیے سیاسی آرزوں کو سیاسی کھوٹی سے ٹنگا کر سیاسی مسخرے پن کرتے پھرتے رہیں کیوں کہ پارٹی میں جان توڑ محنت کرنے کے باوجود ٹکٹ نہیں دیا گیا ۔ پارٹی قیادت نے صرف ان لوگوں کو ٹکٹ دیا جو اس کے نور نظر یا خطرے نظر ہوتے ہیں ۔ خطرے نظر سے مراد یہ ہے کہ ایسے لیڈر جو ٹکٹ نہ دینے پر پارٹی کو اور پارٹی قیادت کو دیکھ لینے کا ہنر رکھتے ہیں ۔ پارٹی صدر ان لوگوں سے ڈرتے ہیں اس لیے انہیں ٹکٹ دیا گیا ہے ۔ تلنگانہ میں جوں جوں انتخابی تاریخ قریب آرہی ہے ۔ انتخابی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں ۔ کئی قائدین اپنی سیاست کو عبادت سمجھ کر کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں ۔ جلسوں میں اس دعویٰ کا ورد بھی کرتے جارہے ہیں ۔ مسلم قیادت نے تو اپنے رائے دہندوں کے سامنے اپنی درویشی کے قصے سنانے شروع کئے ہیں ۔ ان کے لیڈر ہی آپس میں ایک دوسرے کو پرانے شہر کے درویش بناکر پیش کرتے ہیں ۔ پرانے شہر کے ایک دوسرے درجہ کے لیڈر نے اپنے بڑے لیڈر کی شان میں قصیدہ خوانی کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیڈر کے علاوہ حیدرآباد میں کوئی ایسا نیک لیڈر نہیں ہے جو غریبوں کے لیے اتنے بڑے بڑے کام انجام دئیے ہوں ۔ غریبوں کو مکانات کے نام پر صرف وعدے کیے ہوں ۔ اعلیٰ تعلیم کے نام پر کروڑہا روپئے کے ڈونیشن لیے ہوں ۔ اس کے باوجود ان چھوٹے لیڈروں کو اپنے بڑے لیڈر کے تمام خرابیاں اچھائیوں میں دکھائی دیتی ہیں ۔ اپنے تعریفی کلمات کو وسعت دیتے ہوئے یہ قائدین یہ بھی کہتے جارہے ہیں کہ پرانا شہر کی رونق تو انہی لیڈروں سے ہے ۔ ان کی کامیابی کے لیے ان کے چیلے سیاسی چلہ کشی بھی کررہے ہیں ۔ ان 7 سیاستدانوں کی کامیابی کے کئی کرامتیں بھی دیکھی جاچکی ہیں ۔ ایسے کرشمہ سازی کرنے والا لیڈر عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھانے میں کامیاب ہوتا آرہا ہے ۔ کرسی اور طاقت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی قیمت پر کام کرتے ہیں ۔ بلا شبہ اس مرتبہ کے انتخابات ریاستی اور مرکزی سطح دونوں جگہ اہمیت کے حامل ہیں ۔ تلنگانہ اسمبلی کے نتائج ہی مرکز کی مودی حکومت کے مستقبل کا اشارہ دیدیں گے ۔ درحقیقت حیدرآباد کی قیادت ہو یا حکمراں پارٹی کے قائدین اس وقت اپوزیشن کے اتحاد سے خوف زدہ نظر آرہے ہیں ۔ مرکز کی قیادت کو بھی اس اتحاد سے ڈر ہونے لگا ہے ۔ کانگریس ۔ تلگو دیشم اتحاد کا اثر بڑھتا جارہا ہے ۔ صدر تلگو دیشم چندرا بابو نائیڈو نے 2019 میں بی جے پی کے خلاف اپوزیشن کی ذمہ داری لینے کے لیے خود کو واضح طور پر تیار کرلیا ہے بلکہ انہوں نے مودی کو بیدخل کرنے کے لیے کمر کس لی ہے ۔ مخالف مودی یا مخالف کے سی آر اپنے اتحاد کو مضبوط بنانے کے لیے چندرا بابو نائیڈو نے کانگریس سے ہاتھ ملا لیا ہے ۔ اس کے بعد جو حالات رونما ہورہے ہیں ، اس میں یہ واضح دکھائی دے رہا ہے کہ بی جے پی اندر ہی اندر گھٹ کر مر رہی ہے ۔ بلکہ اس کا ہندوتوا کارڈ بھی اکسپائری ڈیٹ بن گیا ہے اس لیے رام مندر کی تعمیر کا شدت سے مطالبہ شروع کردیا گیا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اب بی جے پی کی مخالفت میں اب ان تمام حریف پارٹیوں نے ہاتھ ملا لیا ہے جو کل تک ایک دوسرے کے خلاف میدان میں سرگرم تھے ۔ اب اقتدار کے لیے بے تاب ہوچکی ہیں ۔ ان کی یہی بے تابی اتحاد کو مضبوط بنانے کا کام کررہی ہے ۔ چندرا بابو نائیڈو علاقائی سیاستداں ہونے کے علاوہ مرکز میں بادشاہ گر بھی ہیں ۔ انہوں نے اپوزیشن کو متحد کرنے کا مسئلہ درست کرلیا ہے ۔ تاہم حکمراں پارٹی کے قائدین خاص کر کے سی آر کے فرزند کے ٹی آر نے اس اپوزیشن اتحاد کو تسلیم ہی نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے یہ پیشن گوئی بھی کی ہے کہ اگر یہ اتحاد حکومت بنائے گا تو وہ زیادہ دن تک برقرار نہیں رہے گا ۔ چیف منسٹر کے عہدہ کا مسئلہ انہیں منتشر کردے گا ۔ اتحاد کرنے والی پارٹیاں چیف منسٹر کی کرسی کے لیے آپس میں لڑپڑیں گی جو پارٹیاں نشستوں کی تقسیم کے مسئلہ پر ہی آپس میں لڑ پڑی ہیں تو وہ اقتدار تک پہونچکر خود کو لہو لہان بھی کرسکتی ہیں ۔ سوال یہ پیدا کیا جارہا ہے کہ اگر مہاکوٹمی اتحاد کو اقتدار حاصل ہوتا ہے تو چیف منسٹر کون ہوگا ۔ کانگریس ، تلگو دیشم ، ٹی جے ایس اور سی پی آئی کو اس اتحاد پر اتفاق نہیں ہے ۔ اس بات کو تلنگانہ عوام اچھی طرح محسوس کر کے ہی ٹی آر ایس کو دوبارہ ووٹ دیں گے ۔ ٹی آر ایس قیادت کا دعویٰ ہے کہ دوبارہ اقتدار ملنے پر تلنگانہ کو ایسی ریاست میں تبدیل کردیا جائے گا جہاں کوئی بھوکا نہیں رہے گا ۔ کوئی کسان خود کشی نہیں کرے گا ۔ حکومت کی کارکردگی ایک غیر مختتم ایجنڈہ ہے ۔ گذشتہ انتخابات میں عوام سے جو وعدے کئے گئے تھے ان کا کوئی ذکر نہ کرتے ہوئے کے سی آر نئے وعدے سے بھی گریز کررہے ہیں ۔ صرف پہیلیوں میں بات کررہے ہیں ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت میں تلنگانہ نے 52 ماہ کے دوران قابل قدر معاشی ترقی کی ہے ۔ علحدہ ریاست کے قیام کے بعد مختصر مدت میں اتنی بڑی ترقی کی ہے ۔ یہ تلنگانہ عوام کے لیے تکلیف دہ موازنہ ہے ۔ چندرا بابو نائیڈو کے دور حکومت کا کے سی آر کے دور سے تقابل کرنے والوں کو تلنگانہ کو پسماندگی اور جہالت میں غرق کرنے والوں میں کس کا شمار ہوگا ۔ یہ خود اندازہ کرلیجئے کسی بھی ریاست کے معاشرہ کو برباد کرنے کے کئی طریقہ اور حربے ہیں جن میں یہ سیاستداں کھرے اترتے ہیں ۔ ان سیاستدانوں کے تعلق سے یہی کہا جاتا ہے کہ اگر یہ لوگ کچھ کھاتے ہیں تو کچھ لگا بھی دیتے ہیں ۔ سیاستدانوں کے کھانے اور لگانے کی تشریح کرنے والوں نے خود بھی کھایا ہے مگر لگایا کچھ نہیں ہے ۔ مگر ان سے یہ پوچھنے کی کوئی جرات کرسکتا ہے کہ انہوں نے جتنا کھایا ہے اس میں سے کس حد تک لگایا ہے ۔ انتخابی مہم چلاتے ہوئے جب یہ لوگ عوام کے سامنے پہونچ رہے ہیں تو لوگوں نے ان سے سوال ہی نہیں کیا خاص کر حیدرآباد کے لیے جو انتخابی مہم کی اسٹراٹیجی ہے وہ یہاں کے رائے دہندوں کو دیکھ کر ہی تیار کی جاتی ہے اور اس میں ان کے لیڈر کامیاب بھی ہوتے آرہے ہیں ۔ اپنے حلقوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے لیے اس مرتبہ پہلے سے زیادہ شدت سے مہم بھی چلا رہے ہیں ۔ مسلمانوں کی حالت بہتر بنانے کے وعدوں کے ساتھ یہ کہتے جارہے ہیں کہ ان کے اپنے حلقہ میں عوام کو اب پہلے سے زیادہ سہولتیں دی جائیں گی ۔ انفراسٹرکچر سہولتوں کو بہتر بنایا جائے گا ۔ ہیلت کیر اور تعلیم پر خاص توجہ دی جائے گی لیکن اس مرتبہ کانگریس اور تلگو دیشم کے اتحادی امیدواروں نے مقامی جماعت کے گڑھ میں اپنا اثر دیکھنا شروع کیا ہے ۔ بی جے پی بھی پرانے شہر پر خاص توجہ دے رہی ہے ۔ بی جے پی ریاستی یونٹ کا کیا ہے کہ اس نے ضلع حیدرآباد میں کئی نشستوں پر اپنی توجہ مرکوز کردی ہے ۔ حیدرآباد و رنگاریڈی کے 24 شہری حلقوں میں 2014 کے انتخابات میں تلگو دیشم نے 15 پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن 10 تلگو دیشم ارکان نے پارٹی سے انحراف کر کے تلنگانہ راشٹرا سمیتی میں شمولیت اختیار کرلی تھی ۔ اس سال تلگو دیشم کا کانگریس سے اتحاد ہوا ہے تو ان حلقوں میں اتحادی جماعتوں کو کامیابی ملتی ہے تو رائے دہندوں کی آراء میں تبدیلی واضح نظر آئے گی ۔ شہر میں ٹی آر ایس کو بیروزگار نوجوانوں خاص کر عثمانیہ یونیورسٹی طلباء یونینوں کی ناراضگی کا سامنا ہے ۔ یہ نوجوان گذشتہ چار سال سے خود کے لیے روزگار کا مطالبہ کرتے آرہے تھے اب ان کے سامنے فیصلہ کرنے کا وقت آگیا ہے تو وہ اس موقع سے دانشمندانہ طور پر استفادہ کریں گے ۔
kbaig92@gmail.com