حیدرآباد میں آر ایس ایس کا اجلاس

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری       خیر اللہ بیگ
حیدرآبادمیں آر ایس ایس کے سہ روزہ اجلاس کا مقصد نئی ریاست تلنگانہ میں آر ایس ایس کے قدموں کو مضبوط بنانا ہے۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے چندر شیکھر راؤ نے سیکولر عوام کے ووٹ حاصل کرکے حلف لیا تھا، بعد کے دنوں میں ان کی حرکتیں اور ان کے فیصلے آر ایس ایس نظریات کے حامل واقع ہونے لگے۔ بی سی کمیشن کے قیام میں بھی آر ایس ایس کے نظریات کو ملحوظ رکھا گیا۔ مسلمانوں کو تحفظات دینے کا وعدہ وفا کرنے کا بارہا ادعا کرنے والے چیف منسٹر کی نیت اب مکمل آشکار ہوچکی ہے۔ تلنگانہ کے مسلمانوں کیلئے ضرر رساں پہلی چیز حکمراں کا نظریہ تبدیل ہوتا ہے۔ دراصل یہ حکومت اپنے اصل ایجنڈہ کو چھپاکر اور مٹی ڈالتے ہوئے دروغ گوئی سے کام لینا چاہتی ہے۔ اس لئے حکومت کے 3 سال بعد بھی  مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات نہیں دیئے گئے۔ بی سی کمیشن کے قیام کا مقصد صرف اپنی حکومت کو اس صورتحال سے بچ نکالنے کی کوشش ہے۔ چنانچہ اس مسئلہ کو ابہام میں ڈلتے ہوئے وقت گذارا جارہا ہے۔

آر ایس ایس کے لئے کھلا میدان تیار کرنے والے حکمراں قائدین نے حیدرآباد میں منعقد شدنی سہ روزہ اکھل بھارتیہ کاریکاری منڈل کیلئے وسیع قلبی کے ساتھ تعاون کیلئے بی جے پی کی نظریاتی استاد آر ایس ایس نے اب تلنگانہ میں اپنی جڑوں کو وسیع کرلینا شروع کیا ہے۔ اس ہندوتوا ٹولے کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی نے 2019 کے اسمبلی انتخابات کے لئے ابھی سے تیاری شروع کی ہے، اس بات کو یقینی بنایا جارہا ہے کہ اس کا منصوبہ من و عن پورا ہوجائے۔ آر ایس ایس کو اپنے کارکنوں خاص کر حکمراں کی شکل میں وفاداروں پر فخر ہیکہ ان کی وجہ سے ہی ریاست میں آر ایس ایس کی رکنیت سازی کا نشانہ 35 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس حکومت سے قبل 1600 شاکھائیں قائم تھیں اب بڑھ کر 2,308 شاکھائیں ہوگئی ہیں۔ تلنگانہ کے 9000 مواضعات کے منجملہ 6,500 مواضعات میں آر ایس ایس کا اثر ہوچکا ہے۔1990 کے دہے میں تلنگانہ کے علاقہ میں آر ایس ایس کی شاکھاؤں کوقائم کرنے کا کام شروع کیا گیا تھا۔ 25سال قبل آر ایس ایس کا اثر کچھ نہیں تھا بعد کے برسوں میں بھی آر ایس ایس کی کوئی زیادہ پذیرائی نہیں کی گئی تھی لیکن جب سے تلنگانہ بنایا گیا ہے آر ایس ایس نے ریاست کے کونے کونے میں اپنی جڑوں کو پھیلانا شروع کردیا ہے۔ حیدرآباد چونکہ ساری دنیا میں آئی ٹی کا مرکز مانا جاتا ہے، آئی ٹی ملین بھی شروع کیا گیا ہے۔ آئی ٹی شعبہ سے وابستہ نوجوان نسل کو زعفرانی ذہنیت سے نوازا جانا خطرناک عمل ہے۔ ہندوستان بھر کی 24ریاستوں کی نمائندگی کرنے والے تقریباً 400مندوبین نے اس اجلاس میں شرکت کی تھی ۔

آر ایس ایس نے حال ہی میں تلنگانہ کے کئی اضلاع میں سروے کروایا تھا اور ہندوؤں کے ذہنوں میں زعفرانی سوچ کو فروغ دینے کیلئے باقاعدہ اپنی شاکھاؤں کو مضبوط بنایا۔ ہندو مذہب کو مضبوط بنانے کیلئے اس نے تمام ذاتوں میں اتحاد کی بھی کوشش شروع کی ہے اور اپنے ایجنڈہ کو ’’ یکجہتی ‘‘ کا نام دیا ہے۔ سنگھ پریوار میں عوام کی بڑی تعداد کو شامل کرنے کی مہم کو جب سرکاری سرپرستی ملتی ہے تو یہ مہم صد فیصد کامیاب مانی جاتی ہے، شاکھاؤں کے باقاعدہ اجلاس منعقد ہورہے ہیں۔ ہندوستان بھر میں 2015 میں تقریباً 80000 شاکھائیں تھیں اوراب 1,12,000 شاکھائیں بن گئی ہیں۔ تلنگانہ کے ہر شعبہ میں آر ایس ایس نظریات کے لوگوں کو ترقی دینے کے آگے چل کر سنگین مسائل پیداہوں گے۔ موجودہ حکومت مسلمانوں کے ووٹوں سے اقتدار پر آئی ہے اور مسلمانوں نے خود اپنے ہاتھوں اپنے مستقبل کو داؤ پر لگادیا۔ انتخابی منشور میں 12فیصد تحفظات کا وعدہ دیکھ کر ٹی آر ایس ایس پر اتنا بھروسہ کرلیا تھا کہ اس پارٹی کے بارے میں کچھ برا خیال لانا بھی گناہ سمجھا جارہا تھا۔

اب مسلمانوں کو اپنے خیال کے برعکس کاموں کا سامنا کرنا پڑیگا۔ اس وقت وائرس کی طرح سبک رفتاری سے پھیل جانے والا مجموعی عمل فرقہ پرستانہ سوچ ہے۔ مسلمانوں کو اس ملک میں تنہا کرنے کیلئے قومی سطح پر مودی حکومت نے شریعت میں مداخلت کرنے کی جرأت کی ہے تو علاقائی سطح پر مسلمانوں کو آر ایس ایس کے نظریات والے لوگوں کا سامنا کرنے کیلئے کھڑا کردیا گیا ہے۔ اب حکمراں کو اس کی ایسی حرکت کے خلاف آگاہ کرنے والے بی سی کمیشن کی تشکیل کے بارے میں اس کی پس پردہ رائے کوسمجھنے کی زحمت کوئی نہیں کرے گا تو کیا اس سے مراد تلنگانہ میں مسلمانوں کے ساتھ مضحکہ خیز رویہ اختیار کیا جائے گا۔ ہم مسلمان اس تلنگانہ کے حصول کے لئے کئی مراحل سے گذرے ہیںمگر تلنگانہ صرف زعفرانی طاقتوں کا ہورہا ہے، عہدے بھی نہیں مل رہے ہیں۔ تاریخی فرقہ پرستوں کی منطق بہت نرالی ہوتی ہے ان کا استدلال ہے کہ وہی ہر عہدے کیلئے مستحق ہیں چاہے انہیں اس عہدہ کی الف ب تت بھی آتی نہ ہو۔ سرکاری عہدوں کے یہ لوگ ایسے مجاور ہیں جو ہر مال اپنے لئے حق سہی سمجھ کر رکھ لیتے ہیں۔
تلنگانہ کی اپوزیشن پارٹیوں کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ حکمراں کی غلطیوں پر ہاتھ پکڑ سکیں۔ حکومت سکریٹریٹ کی عمارت پر عوام کے پیسہ کو بے دریغ خرچ کرنا چاہتی ہے، سکریٹریٹ کی عمارت موجود ہونے کے باوجود اس کی جگہ نیا سکریٹریٹ بنانا اور اس کیلئے 350کروڑ روپئے خرچ کرنے کی کوشش کو لوگ حماقت ہی کہیں گے۔ تلنگانہ کی ترقی کے لئے حکومت نے کئی پراجکٹس بنائے تھے اور ان پراجکٹس کی تکمیل کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے اور نہ ہی بہبودی پروگراموں کو پورا کیا جارہا ہے۔ عوام کی محنت کی کمائی سے ادا کردہ ٹیکس کی رقومات کو حکومت اس طرح من مانی طریقہ سے خرچ کرے گی تو پھر غریب عوام کی بہبود کے پروگرامس ٹھپ رہیں گے۔ آج ہر شعبہ میں بلز کی ادائیگی کا مسئلہ تعطل کا شکار ہے۔ اقلیتی بہبودکیلئے بھی اسکیمات کو شروع کیا گیا ان پر صرف دکھاوے کی حد تک پیشرفت ہوئی۔ ان خامیوں کے باوجود ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عوام نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی ہے، انہیں اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے یا حکومت کی غلط کارکردگی کا عمل دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

حکومت کو بھی اندازہ ہے کہ اس ریاست کے عوام کو غصہ ہی نہیں آتا ہے، جب انہیں غصہ دلانے والے حالات ہی پیدا کردیئے جائیں تو یہ لوگ مزے سے اپنی موجودہ مصیبت زدہ زندگی میں خوش رہتے ہیں۔ عوام کو کچھ نہیں مل سکتا کیونکہ ان کے لیڈروں کو حصول عہدوں کی دوڑ میں مصروف رکھا گیا ہے۔ نئے اضلاع بنائے جانے کے بعد بھی اب ٹی آر ایس نے کئی بے روزگار لیڈروں کو نئے اضلاع میں ضلع صدور بنائے جانے کی آرزو میں اِدھر اُدھر دوڑتے دیکھا جارہا ہے۔ جن ٹی آر ایس قائدین کو عہدے نہیں ملے ہیں اب وہ ضلع صدرکا ہی عہدہ قبول کرنے کیلئے دوڑ لگارہے ہیں۔ دیپاولی تک ان تمام نئے اضلاع میں ضلع صدور کا تقرر عمل میں لایا جارہا ہے۔ کے سی آر سے قریب رہنے والے یا کے سی آر کے نور نظر ارکان اسمبلی کو ہی ضلع صدور بنایا جائے گا اور ان نئے صدور کو مکمل اختیار دیا جائے گا کہ وہ ضلع کیلئے نئی کمیٹیاں تشکیل دیں۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے نئے اضلاع بنانے کا اعلان کرنے کے ساتھ یہ حکمت عملی بھی بنائی تاکہ ہر ایک کابینی وزیر دو ضلع کی نگرانی کرے گا جبکہ رکن اسمبلی کو ضلع سیاسی اُمور کا صدر بنایا جائے گا۔ کے سی آر کے قریبی حلقوں کا خیال ہے کہ ٹی آر ایس سربراہ صرف انھیں ہی ضلع صدر بنائیں گے اور ہر ضلع میں اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کا بھی اختیار دیں گے۔ جب کسی علاقہ میں نگرانی کا توازن صرف ایک ہی پارٹی کی جانب جھک جاتا ہے تو وہاں اپوزیشن یا عوام کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں سمجھی جاتی۔ ان دنوں ٹی آر ایس بھی اپنی یکطرفہ کامیابی کا فائدہ اٹھاکر عوام اور اپوزیشن دونوں کو نظرانداز کردیا۔
kbaig92@gmail.com