حیدرآباد جو کل تھا سید عابد علی

محبوب خاں اصغر
’’ عہدِ رواں آسائشوں، اختراعوں اور ریاضتوں کے سبب شاندار کہلاتا ہے۔ رفتگان کو ایسا زمانہ نصیب نہیں ہوا۔ مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس عصر کا آشوب کرب اور اندوہ بھی ایسا ہے کہ اس سے پہلے والے محفوظ رہے۔ مسائل اُلجھے ہوئے اور زندگی شعبوں میں بٹی ہوئی جتنی آج دکھائی دیتی ہے پہلے کبھی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ آج حقیقت کی اکائی ریزہ ریزہ ہوچکی ہے۔ بولنے والوں کی بہتات ہے سننے والے کمیاب۔ سوال نایاب ہوچکے ہیں اور جواب ہر ایک کے پاس ہے۔ آج گروہ کے تعصب اور جلوس کے نعروں میں شامل رہو تو ٹھیک ہے ۔ علاحدہ ہوجاؤ تو بوجھ خود اٹھاؤ۔ اپنی لحد خود کھودو ۔‘‘ ان خیالات کا اظہار سید عابد علی نے کیا جو ’’ حیدرآباد جو کل تھا ‘‘ کے موضوع پر ہم سے ہمکلام تھے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست حیدرآباد میں برسوں قدیم گنگا جمنی تہذیب کیلئے ساری دنیا میں مثالی رہی ہے۔ آپسی بھائی چارہ، باہمی خلوص و تعاون، رواداری ، ہمدردی، اخوت اور محبت نے ہمیشہ یہاں اُجالے بکھیرے ہیں۔ انسانی اور اخلاقی معیارات کو اُبھارنے کے لئے ہندو ، مسلم، سکھ ، عیسائی نے شانہ بہ شانہ کام کیا ہے۔ یہی شاندار ماضی ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ اسلاف کے شاندار کارنامے ہمارے اندر جہد، اصلاح اور خود اعتمادی پیدا کرتے ہیں۔ نئی ٹکنالوجی سے متعلق سوال کے جواب میں بتایا کہ ٹیلی ویژن دریافت ہوا پھر عام ہوا یہاں تک تو ٹھیک تھا۔ موبائیل کلچر نے سب کچھ تباہ کردیا ہے۔ واٹس ایپ، فیس بک اور ٹوئیٹر نے پوری ایک نسل کو ذہنی طور پر مصروف کردیا ہے۔ انہیں کسی کے بارے میں سوچنے تک کی فرصت نہیں ملتی۔ انہوں نے اسے ارتقاء کے نام پر تہذیبی بربریت بتایا اور کہا کہ اب انسان کا ساتھی صرف اسمارٹ فون ہے۔
انہوں نے اپنے بیرونی اسفار سے متعلق بتایا کہ ٹرین ہو یا پلین یا بس، مسافرین ایک دوسرے سے خوشدلی سے پیش آتے تھے۔ ایک دوسرے کے احوال دریافت کرتے تھے۔ ایک دوسرے کو دوست بنایا جاتا تھا۔ انہوں نے موجودہ حالات پر اظہار تعجب کیا اور کہاکہ اب میلوں کا سفر کیا جاتا ہے ۔ منزل مقصود بھی آجاتی ہے مگر ہم اسمارٹ فون کے سبب بازو والی نشست پر بیٹھے مسافر کے نام سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ اب ہمیں صرف اپنی ذات سے دلچسپی رہ گئی ہے۔ کسی سے کوئی سروکار نہیں رہا۔
سید عابد علی 9 سپٹمبر 1941 میں حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سید سردار علی تھا، محکمہ پولیس میں اعلیٰ عہدہ پر فائز رہے اور وہیں سے وظیفہ حسن پر سبکدوش ہوئے۔ 1950 میں والدہ اور 1956 میں والد بزرگوار انتقال کرگئے۔ کم سنی میں یتیم ہوجانے کے سبب تعلیمی سلسلہ منقطع کرکے عملی زندگی کا آغاز کرنا، ناگزیر ہوگیا تھا۔ تاہم گرامر اور آل سینس جیسے مدارس سے دسویں جماعت کامیاب کیا۔ نانا منظر حسین اور دادا سید محمد علی تھے۔ خاندانی شجرہ خواجہ احمد عباس سے ہوتاہوا سید خواجہ الطاف حسین حالیؔ تک پہنچتا ہے۔ سید عابد علی کے مطابق ان کے والد جدید ذہن کے حامل ایک روشن خیال دانشور تھے۔ انسانی مساوات اور سماجی انصاف ان کی ترجیحات میں شامل تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ نامپلی ریلوے اسٹیشن کے عقب میں ولبھ دار بلڈنگ تھی۔ جس میں گجراتی، کرسچن، ہندو اور مسلمان مقیم تھے۔ اطراف و اکناف میں ایسے کئی محلے تھے جس میں تمام مذاہب کے لوگ شیر و شکر کی طرح رہتے تھے۔ فرقہ پرستی، ذات پات کا بھید بھاؤ، حقوق کی پامالی، علاقائی، ثقافتی اور لسانی تعصابت اور شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کا تصور تک نہیں تھا۔ چاہے کسی مذہب کے ماننے والے ہوں مذہبی روا داری، سیکولر، وسیع القلبی اور کشادہ ذہنیت کے لوگوں سے فضاء خوشگوار رہا کرتی تھی۔ سانس لینے میں دشواری نہیں ہوتی تھی۔ آج ہوا کے جسم میں ناگوار بُو کے سبب دَم گھٹنے لگا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں فٹبال اور ہاکی کھیلنے سے دلچسپی رہی۔ لیکن کرکٹ جیسا کھیل اُن پر حاوی رہا۔ وہ اپنے بہترین مظاہرے کے ذریعہ اُس وقت کے مشہور کرکٹ کھلاڑیوں کی نظر میں آگئے تھے۔ انہیں علاقائی سطح پر بہترین بلے باز کا خطاب مل چکا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ لمحہ ان کے لئے ناقابل فراموش ہے جب ریاستی سطح پر ان کا انتخاب عمل میں آیا تھا۔ انور عباسی سکریٹری تھے۔ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے لئے ٹیم تشکیل دی جارہی تھی۔ اسپورٹس کوٹہ میں انہیں ایس بی آئی میں ملازمت مل گئی۔ کپتان قرار پائے۔ پندرہ برس تک یہ عہدہ قائم رہا۔
بائیس سال تک بینک میں خدمات انجام دیں۔ معین الدولہ، غلام علی، کشن پرشاد اور بہرام الدولہ ٹرافیاں ملیں۔ انہوں نے کہا کہ کھلاڑی ہو یا فنکار اس کی خدمات کا اعتراف کئے جانے سے حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ چناں چہ ان کے کھیل کو پسند کئے جانے سے ان کا حوصلہ بڑھا۔سرِدست انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ نواب منصور علی خاں پٹوڈی جم خانہ گراؤنڈ میں پریکٹس کررہے تھے۔ انہیں گراؤنڈ میں کھیلتا دیکھ کر متاثر ہوئے۔ کبھی میدان تمام چکر لگاتے تو وہ دیکھا کرتے تھے۔ بھاگنے کو ، اُچھل کود کو بہرکیف ہر حرکت پر نظر رکھا کرتے تھے۔ 1967ء میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم لندن جارہی تھی۔ اسی سنہ میں ان کی شادی ہوئی تھی۔ اپنی شریک حیات کے مبارک قدموں کی تاثیر کہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ملک کی ٹیم میں منتخب کرلیئے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ آل راؤنڈر تھے۔ بولنگ بھی کی تھی۔ اچھے بلے باز بھی تھے اور ایک اچھے وکٹ کیپر کے طور پر خود کو منوا چکے تھے۔ انہوں نے جئے سمہا، پٹوڈی، عباس علی بیگ اور پرسنا کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔ انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ سید کرمانی جیسا سلجھا ہوا وکٹ کیپر ہندوستان کو پھر نہیں ملا۔ ملک کا کوئی بھی وکٹ کیپر کرمانی کے مقابلے میں ٹہر نہیں سکا۔
ان کا کہنا ہے کہ کیتھ مِلر (Keth Miller) ( آسٹریلیا ) ان کا آئیڈیل رہا۔ اس نے “Cross Rad” عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ انہوں نے کھیل کے میدان میں شفافیت کو ناگزیر بتاتے ہوئے کہاکہ ان کا عہد کئی اعتبار سے قابل ذکر ہے۔ الزام درالزام، جواب درجواب کی روش سے تمام کھیل مبرا تھے۔ہر کھلاڑی کا مقام و مرتبہ تھا۔ کمزور مظاہرے کے اسباب و علل تلاش کئے جاتے۔ اشتباہ اور اعتراض کے دائرے میں گِھر جانے کے بجائے اصلاح کے لئے جو طریقہ اختیار کیا جاتا وہ قابل تقلید ہوتا۔ جس کے نتیجہ کے طور پر انسانی اور اخلاقی معیارات بڑھ جاتے ۔ فریفتگی کا ایک خوشگوار ماحول قائم ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی میدان میں فروگذاشتوں کو واشگاف انداز میں پیش کرنے سے مخرب ماحول پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تمام کھلاڑی افراد خاندان کی طرح رہتے تھے۔ کپتان کی عزت کرتے تھے۔ ملک کی عزت و مرتبہ اور مقام پیشِ نظر رہتا تھا۔
کرکٹ سے 1979 میں سبکدوش ہونے والے کھلاڑی سید عابد علی نے بتایا کہ وہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، لندن، ساؤتھ آفریقہ وغیرہ میں کھیل چکے ہیں۔ ہمارے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ سبکدوشی کے بعد وہ بحیثیت کوچ کارگزار رہے۔ ملک نے انہیں مصدقہ کوچ کی سند سے نوازا ہے۔ وہ ملک میں کہیں بھی کوچنگ دینے کے مجاز ہیں۔ 1980 سے امریکہ میں مقیم رہے۔ وہاں بھی انہوں نے نئی نسل کو کھیل کی طرف راغب کیا۔ ان دنوں مستقلاً حیدرآباد عود کر آنے والے عابد علی نے بتایا کہ ہمارے ملک میں صلاحیتوں کی کمی نہیں رہی۔ ان کی سرپرستی کی ضرورت ہے۔
ان کے مطابق انہیں خدا نے صرف ایک بیٹے سے نوازا تھا۔ ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے مایہ ناز وکٹ کیپر سید کرمانی کی دختر سے سید فاخر علی ( فرزند ) کی شادی ہوئی۔ انہوں نے بڑے ہی دکھی لہجے میں اس بات کا اظہار کیا کہ صرف پینتیس برس کی عمر میں قلب پر حملے کے باعث امریکہ میں ان کے فرزند کا انتقال ہوگیا۔ مرحوم کو ایک لڑکی تھی، جو اِن دنوں اپنی ماں کے ساتھ بنگلور میں مقیم ہے۔ سید کرمانی ( سمدھی ) سے آج بھی عابد صاحب کے مراسم مضبوط ہیں۔
امریکہ میں قیام کے پس منظر میں ہمارے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہاں تعلیم کا مفہوم وسیع تر ہے۔ معمولات زندگی کی انجام دہی کے لئے علم کا حصول بے فیض ہے۔ مادری زبان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم۔ مگر انگریزی زبان عالمی سطح پر خود کو منوانے کے کام آتی ہے۔ شعور اور آگہی کے حوالے سے تمام زبانیں سیکھنی چاہیئے۔ ان کے بموجب زبانیں مختلف فرقوں سے جوڑنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج معاشی مسائل اتنے انہیں ہیں جتنے کہ ماضی میں رہے۔ آج ہر کوئی تعلیم کے حصول میں سرگرداں دکھائی دیتا ہے۔ تعلیم ہی سے سیاسی پسماندگی اور مذہبی غفلت شعاری دور ہوتی ہے۔ تازہ بصیرت اور ایک روشن مستقبل کیلئے درکار لائحہ عمل تعلیم ہی سے ممکن ہے۔
انہوں نے ماضی کے مختلف تحریکوں کا ذکر کرتے ہوئے خاکسار تحریک کو یاد کیا۔ جس میں ایسے لوگ شامل تھے جو عوام کے مسائل کے حل کیلئے ہردَم تیار رہا کرتے تھے۔ ان کی یہ خدمات بے لوث تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس تحریک سے وابستہ لوگ مختلف ضلعوں میں مسائل کی سنوائی کرتے اور دوسرے ہی دن ان کے حل کیلئے کمر بستہ رہتے۔ ان کے سامنے کدال، پھاؤڑے، سبل ہوتے۔ موریوں کی صفائی، راستے کی رکاوٹیں ، بجلی کے مسائل اور آب رسانی کو یقینی بنانے میں اہم رول ادا کرتے تھے۔ میت کو غسل دینے اور تجہیز و تکفین سے متعلق اُمور کی انجام دہی میں بھی پیش پیش رہتے۔ انہوں نے ایسی تحریکوں کو آج کی اہم ضرورت بتایا۔ قدیم ریاست حیدرآباد میں شہر کی آرائش سے متعلق بتایا کہ موسیٰ ندی میں طغیانی کے سبب شہر کے کئی محلے تباہ و برباد ہوگئے تھے۔ 1912 میں مجلس آرائش بلدہ کا قیام عمل میں آیا۔ دراصل یہ ممبئی اور کلکتہ کے امپرومنٹ ٹرسٹ کی تقلید تھی۔ لیکن ریاست میں مجلس آرائش بلدہ اپنے فرائض کی تکمیل کیلئے آزاد تھی۔ اس میں کئی مشاہرین کی شمولیت سے اس کا وقار اور مرتبہ بڑھ گیا تھا۔ نواب نظامت جنگ صدر المہام اس مجلس کے صدر مقرر ہوئے۔ آپ کی سبکدوشی کے بعد شہزادہ معظم جاہ بہادر کو آرائش بلدہ کا صدر مقرر کیا گیا۔ انہوں نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ مجلس کے تمام صدور نے کوشش کی تھی کہ یہاں کے تنگ و تاریک محلے کشادہ ہوں۔ عدالت العالیہ، عثمانیہ دواخانہ، سٹی کالج اور کتب خانہ آصفیہ کی شاندار عمارتیں مجلس ہی کی مرہونِ منت ہیں۔
اپنی تمام تر خدمات کے عوض مجلس کو ایران اور عرب میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ مزدوروں اور مفلوک الحال طبقے کے لئے اس مجلس بلدہ کے تحت ایک کمرے پر مشتمل متعدد مکانات تعمیر کئے گئے۔ درحقیقت آصف سابع کو ریاست حیدرآباد سے بے پناہ عشق تھا۔ فنِ تعمیر سے بھی انہیں والہانہ لگاؤ تھا۔ جوبلی ہال، جاگیر دار کالج، جامعہ عثمانیہ اس کا زندہ ثبوت ہیں۔
ہم نے گفتگو سمیٹتے ہوئے ملک کے موجودہ حالات پر اظہار خیال کے لئے کہا تو انہوں نے بتایا کہ مذہب اور سیاست کا خوفناک کھیل کھیلا جارہا ہے۔ ٹکراؤ اور تصادم کے راستے پر ڈالا جارہا ہے۔ اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ان حالات میں عوام کو آہنی عزم کے ساتھ غور و فکر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔