حیدرآبادی خواتین کا قابل تقلید کردار

انیس عائشہ
عورت ہمیشہ سے سماج کے لئے ایک چیلنج رہی ہے۔ پرانی تہذیبوں میں جہاں اس کو قبول کرنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ بدھ بھکشوں نے قابل نفرت سمجھا، عیسائی خانقاہ نے ازدواجی زندگی کے انکار کو معراج سمجھا، کبھی ناقص العقل قرار دی گئی۔ غرض سماجی منظر نامے سے ہٹانے کی بہت کوشش کی گئی، لیکن اسلام کے عروج کے ساتھ ساتھ اس کو اپنے وجود کا احساس ہونے لگا۔ علامہ اقبال نے مہر ثبت کردی کہ عورت میں شرار زندگی ہے وہ محافظ سوز حیات ہے۔ باحوصلہ اور روشن دماغ ہے۔
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
ماں کے لئے کہا:
دفتر ہستی میں تھی زرین ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر مرے اجداد کا سرمایہ عزت ہوا
مجاز نے کہا:
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنالیتی تو اچھا تھا
کیفی اعظمی:
قدر اب تک تری تاریخ نے جانی ہی نہیں
تجھ میں شعلے بھی ہیں بس اشک فشانی ہی نہیں
تو حقیقت بھی ہے دلچسپ کہانی ہی نہیں
تیری ہستی بھی ہے اک چیز! جوانی ہی نہیں
قرۃ العین حیدر نے لکھا ’’عورت عموماً ذہین ہوتی ہے، اس میں بلاکی قوت برداشت ہوتی ہے ۔ بہت صابر ہوتی ہے۔ مشکلات میں کم ہارتی ہے۔ اس کی ان صفات سے مرد خوف زدہ رہتا ہے۔ وہ صحیح معنوں میں علم حاصل کرتی ہے اور اپنی مخلصانہ کوششوں سے اسے بروئے کار لاتی ہے‘‘۔
یہ اعتماد اگرچیکہ سست رفتاری سے آیا لیکن جب خواتین سرگرم اور تعلیم یافتہ ہوئیں تو آنے والی نسلوں کے لئے قابل تقلید نمونے پیش کردیئے۔ چراغ سے چراغ جلتا گیا۔ حیدرآباد بھی منور ہوگیا۔ حالانکہ ابتداء تعلیم صرف مذہب، اُمور خانہ داری اور بچوں کی تربیت تک محدود تھی لیکن اس وقت بھی ایسی ایسی خواتین پیدا ہوئیں جو اپنی مثال آپ تھیں۔ بچوں کو بہترین تعلیم و تربیت دے کر ملک کے حوالے کیا۔
بیرون خانہ اپنی صلاحیت بروئے کار لانے کے ضمن میں ہمیں قطب شاہی دور میں بہت نمایاں نام حیات بخشی بیگم کا ملتا ہے جو عبداللہ قطب شاہ کی والدہ تھیں۔ انہوں نے اپنی فہم و فراست سے کام لے کر بے شمار رفاہی کام عوام کے لئے کئے جب کہ تخت نشینی کے وقت قطب شاہ صرف گیارہ سال کے تھے۔ والدہ نے راست اور بالواسطہ طور پر حکومت سنبھالی۔ مسجدیں، ماں صاحبہ تالاب، کنویں، سرائے اور مدرسے تعمیر کروائے، مہہ لقابائی چندا درباری شاعرہ اور سلطان خدیجہ سلطان شہر بانو نے مثنویاں لکھ کر اردو ادب کو مالامال کیا۔ آصف جاہی دور میں خواتین پر تعلیمی اور صنعتی ترقی کا زیادہ اثر پڑا۔ انتظامی سرگرمیاں اور کسی کے لئے کچھ کردینے کا جذبہ بھی پروان چڑھا تو میدان وسیع تر ہوتا گیا۔ سفر کی سہولیات بڑھیں، نئی ایجادات کو قبول کرنے کا حوصلہ ہوا تو گھوڑ سواری، تیر اندازی اور فنون لطیفہ سیکھا، تعلیمی اور ادبی سرگرمیوں میں شرکت شروع کی۔ سائنسی ایجادات، ٹیلیفون، ریڈیو اور ہوائی جہاز کا استعمال ہونے لگا۔ دوسرے ممالک کے حالات سے واقفیت ہونے لگی تو حیدرآبادی خواتین بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں۔ لڑکیاں طب اور قانون میں داخل ہونے لگیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا حوصلہ بڑھا طیبہ بیگم والدہ علی یاور جنگ نے مدراس یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ رقیہ بیگم سید علی بلگرامی کی بیٹی، بس کوڑا والا، نورالنساء بیگم جن کا پورا خاندان سرشتہ تعلیم سے جڑ گیا تو شاید خاتون مس آمنہ پوپ، بشیر النساء (مصر سے بی اے کیا)، دور عثمانی کی پہلی شاعرہ دلہن پاشا بیگم تخلص مجاز، قابل داد حد تک ہمیں اس وقت اختر جہاں اختر، بشیر النساء بشیر (جن کے کلام پر اقبال کا بہت اثر تھا) حسینی بیگم طن زہرہ بیگم زہرہ ؔمنظور فاطمہ بیگم سردار ؔشریف بانو شریفؔ، صغرا بیگم صغراؔ ، جہاں بانو بیگم بانوؔ، شہربانو بیگم نسرینؔ ، مسز برکت رائے (بھگوت گیتا کا اُردو میں ترجمہ کیا) اور مس تلسی مانک لال وغیرہ کے نام ملتے ہیں، تلسی مانک لال مشرقی تہذیب کی دلدادہ تھیں۔ رباعی لکھی:
انگارہ خاکی میں یقین پیدا کر
بال و پر جبرئیل امیں پیدا کر
کیوں دو کو جگہ دیتا ہے اپنے دل میں
اک گھر کے لئے ایک مکیں پیدا کر
بیشتر خواتین جلسوں میں شریک ہونے لگیں صاحب دیوان شاعرات میں لطف النساء بیگم ہیں۔ خجستہ سلطانہ نے تاریخ تیموریہ لکھی۔ حمید خانم نے سفر نامہ حجاز لکھا۔ تہنیت النساء زور کے کلام میں نعت کے علاوہ انسانیت اور اپنے وجود کی اہمیت کا عنصر شامل ہے۔ مسز شانتا بائی نے یوروپ کی سیر کی وہاں کے حالات لکھے۔ ایک کتاب ’’نیا روس‘‘ لکھی جس کے انتساب میں لکھا‘‘ اس جذبہ کے نام جو غالبؔ کے اس شعر میں پنہاں ہے:
منظر اک بلندی پر اور ہم بنالیتے
عرش سے پرے ہوتا کاش کہ مکاں اپنا
آگے چلتے ہیں روڈا مستری نے 1944ء میں کالج آف سوشیل ورک قائم کیا۔ انڈین کونسل آف سوشیل ورک کی صدر بنیں سیاست میں حصہ لیا۔ معصومہ بیگم نے اعتراضات کے باوجود جلسوں میں شرکت کی، تقاریر کیں۔ 1952ء میں کانگریس پارٹی کے الیکشن میں حصہ لیا۔ ایم ایل اے بن گئیں۔ یہ حیدرآباد کی پہلی خاتون رکن تھیں۔
سنٹرل سوشیل بورڈ دہلی کی چیرمین مقرر ہوئیں۔ بیرون ملک اپنے ملک کی نمائندگی کی۔ پدم شری ایوارڈ حاصل کیا۔ شعبہ قانون میں سعادت جہاں رضوی، آمنہ نقوی اور فیض النساء نے قدم جمائے، میدان وسیع ہو چلا، خواتین کی پہنچ صنعتی کارخانوں، سماجی تنظیموں، صحافت اور یونیورسٹی تک ہوگئی۔ سروجنی نائیڈو، پدمجا نائیڈو، مسز ڈھگے، سنگم لکشمی بائی، مسز راج، بہادر گوڑ، باجی جمال النسائ، پرمیلا بائی، مسز نارائن ریڈی (ہرنولا) اور فخرالحاجیہ کے کارنامے بھی حیدرآباد کی شان میں اضافہ کا سبب بنے۔
صغرا ہمایوں مرزا کا قائم کردہ اسکول (جس سے ہزاروں لڑکیاں فیضیاب ہورہی ہیں) آج بھی شہر کے بہترین اسکولوں میں شمار کیا جاتا ہے، درگا بائی دیشمکھ نے اسپتال، نرسنگ اسکول اور کالج قائم کیا، سماجی اور رفاہی کام انجام دیئے، رانی کمودنی، مسز نائیک، سبتا یدھ ویر شاہجہاں بیگم، ڈاکٹر زہرہ بلگرامی، رفیعہ منظور الامین، مسز ارجمند وہاب الدین، شفیق فاطمہ شعریٰ، مہا لکشمی، بانو طاہرہ سعید، نسیم یزدانی، سلامت النسائ، اعلیٰ تعلیم یافتہ زینت ساجدہ شفیق، کامل استاد جن کی تعریف اور تشکر میں آج تک بین الاقوامی سطح پر مضامین لکھے جارہے ہیں۔ عظمت عبدالقیوم نے خود کام کیا، محفل خواتین قائم کی۔ ان کی لگن اور پرورش کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی بیٹی شاداں اس وقت میڈیکل کالج، پوسٹ گریجویٹ کالج اور نہ جانے کتنے کالج اور اسکول چلا رہی ہیں۔ مسز شاہ پور مانک جی ویمنس ایجوکیشنل بورڈ کی ممبر اور چائیلڈ ویلفیر کی سرگرم کارکن، مس رشیدہ پریس رپورٹر رستم یار جنگ کی بھانجی سائنس، ریاضی، موسیقی مصوری میں ماہر کلید اناث میں کیمیاء کی پروفیسر منیزہ ماؤس جی نے ’’مولانا حالی اور ان کا کلام‘‘ اور کلید معرفت‘‘ اردو میں لکھی۔
ہوتا یہ ہے کہ جب کوئی صاحب علم و عمل ہوتا ہے تو اس کو خواہش ہوتی ہے اور اس کی ذمہ داری بھی ہوتی ہے کہ اس علم و ہنر کا فائدہ دوسروں تک پہنچے۔ مستفید ہونے والوں کا ایک سلسلہ قائم ہوجائے۔ حقوق العباد کے فرائض پورے کئے جائیں۔ ماضی بہرحال ہمارے حال پر اثرانداز ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ حال کیا ہے ایک لمحہ جو اس کے گذرتے ہی ماضی بن جاتا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے غبار خاطر میں لکھا ہے۔ جسے ہم حال کہتے ہیں، وہ بظاہر ہے کہاں؟ فی الوقت ہے کہاں؟ یہاں وقت کا جو احساس بھی ہمیں میسر ہے، وہ یا تو ماضی کی نوعیت رکھتا ہے یا مستقبل کی اور ان ہی دونوں زمانوں کا تسلسل ہے جسے ہم حال کے نام سے پکارتے ہیں چنانچہ اسی طرح ماضی حال بنے گا اور حال ماضی، مستقبل، خدمت خلق ہوتی رہے گی۔
اس وقت حیدرآباد میں فکری و عملی خدمت انفرادی اور اجتماعی طور پر بہت ہورہی ہے۔ پدم شری جیلانی بانو اپنی پرمغز اور بااثر تحریر کی وجہ سے بے شمار بین الاقوامی اور قومی انعامات سے نوازی گئیں۔ پروفیسر لئیق صلاح اور اشرف رفیع صاحبہ نے صاحب کتب ہوکر نہ صرف بے شمار شاگردوں کو علم و ادب سے نوازا بلکہ دینی، ادبی جلسوں کی صدارت اور سرپرستی کرکے ہمت افزائی فرما رہی ہیں۔ اسی طرح اودیش رانی، لکشمی دیوی راج، اندرا دھن راج گیر اردو سے محبت کی بناء پر زبان و ادب کی خدمت میں مصروف ہیں، اودیش رانی کا ہر جمعرات کو ’’منصف‘‘ اخبار میں جو کالم ’’مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا‘‘ ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ فاطمہ عالم علی صاحب کتاب و علم و فراست اپنی مثال آپ ہیں۔ اس کے علاوہ حیدرآباد میں کئی فلاحی، دینی و ادبی انجمنیں کام کررہیں۔ سرور بابو خاں ایک نمایاں نام ہے۔ مسز متین انصاری ’’دوبارہ‘‘ رفیعہ نوشین ’’مہتا‘‘ صبا قادری “Help Hyderabad” سنیتا کشن “Prajwala” نور جہاں “My Choice” جمیلہ نشاط ’’شاہین آرگنائزیشن‘‘ انورادھا “Rainbow Homes” ، اسماء زہرہ، مسلم گرلس اسوسی ایشن، ’’حسنیٰ پاشا ، “A.I.M.E.S” ، انیس عائشہ ’’تنظیم نسواں تعمیر ملت‘‘ اور “Access Foundation” ، سلطانہ نذیر اور نور آمنہ مسلم ایجوکیشن سوسائٹی خالدہ پروین، فرزانہ بیگم عائشہ روبینہ وغیرہ اپنے اپنے طور پر رات دن ذہنی، عملی طور پر مصروف ہیں۔ دینی اور ادبی انجمن میں سرفہرست حمیرا جلیلی، صبیحہ صدیقی، عقیلہ خاموشی، اصغر صدیقہ، امت الغفور صادقہ، عزیزہ محبوب، رضوانہ زرین، عابدہ کریم۔ ادھر پروفیسر حبیب ضیاء صدر ’’محفل خواتین‘‘ نے سرپرستی اور نگرانی کے علاوہ نثر، مزاح طنز نگاری میں بین الاقوامی شناخت بنا رکھی ہے جہاں پر نسیمہ تراب الحسن، 10 کتابوں کی مصنفہ قمر جمالی سیکریٹری ’’حلف‘‘ گویا زبان او ادب کی خدمت کا حلف لیا ہوا ہے۔ عزیز النساء صباء کہنہ مشق شاعرہ، مظفر النساء ناز، تسنیم جوہر، معیاری شاعرات، دراصل اس پلیٹ فارم نے قلم کا استعمال سکھایا، اردو کو فروغ دیا۔ بہتوں کو صاحب کتاب بنایا، ریاض فاطمہ ، مشرف ، افروز سعیدہ، سعدیہ مشتاق، فریدہ زین، فاطمہ تاج رفیعہ نوشین، اندورشٹ، فریدہ راج، ثریا جبین، شبینہ فرشوری، اسریٰ منظور ، بے تکان لکھ رہی ہیں۔ پروفیسر فاطمہ پروین، آمنہ تحسین، مانو اور دوسری یونیورسٹیز کی پروفیسر زبان و ادب کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں۔ بہرحال حیدرآباد کی تہذیب، علم و ادب کی شہرت ہمیشہ سے تھی اور رہے گی۔
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مغرب و مشرق میں تیرے دور کا آغاز ہے
ہماری کئی بہنیں حیدرآباد سے باہر جاچکی ہیں۔ پر پیار تو اسی سرزمین سے ہے وہ کہتی ہیں:
ہم اہل قفس تنہا ہی نہیں ہر روز نسیم صبح وطن
دوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جاتی ہے