حکیم یوسف حُسین خاں

یاد رفتگان

میرا کالم            مجتبیٰ حسین
ابھی چند روز پہلے کسی نے بتایاکہ حکیم یوسف حسین خاں صاحب اپنا مجموعۂ کلام شائع کر رہے ہیں تو میں نے تصور ہی تصور میں حکیم صاحب کے مجموعۂ کلام کا ایک خاکہ بنالیا تھا ۔ میں نے سوچاتھاکہ حکیم صاحب کا مجموعہ دراصل طب اور شاعری کا مجموعہ ہوگا۔ اس کی پیشانی پر ھوالشاّفی کے الفاظ درج ہوں گے ۔ پھر اس میں جو غزلیں ہوں گی تو اُن کے آگے خوراکوں کے نشان ہوں گے جیسے پانچ اشعار کی غزل ہوگی تو پانچ نشان ہوں گے اور سات اشعار کی غزل ہوگی تو سات نشان۔ پھر ہر غزل یا نظم کے نیچے اس قسم کی ہدایات بھی درج ہوں گی کہ یہ غزل ناشتہ کے بعد پڑھی جائے، یہ غزل نہار پیٹ پڑھی جائے۔ ۔ اس غزل کے دو اشعار ہر روز رات میں سونے سے پہلے پڑھے جائیں۔ یہ نظم چائے کے ساتھ پڑھی جائے، اس غزل کو پڑھنے کے بعد سات دنوں تک تیل کی اشیاء نہ کھائی جائیں۔ اور پھر مجموعہ کے پہلے صفحہ پر نہایت جلی حروف میں یہ عبارت بھی درج ہوگی۔
Shake the book before use
یہ تو صرف ایک تصور تھا جو میں نے حکیم صاحب کے مجموعۂ کلام کے تعلق سے اپنے ذہن میں بنا رکھا تھا لیکن جب حکیم صاحب کا مجموعۂ کلام ’’خواب زلیخا‘‘ حقیقت بن کر میرے سامنے آیا تو میں اپنے تصور کے بارے میں یہ کہنے پر مجبور ہوگیا۔
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
حکیم صاحب کا مجموعۂ کلام توسچ مچ ایک مجموعۂ کلام ہے جیسا کہ اور شعری مجموعے ہوتے ہیں۔ اس میں طب کا صرف اتنا پہلو مجھے نظر آیا کہ اسے پڑھنے کے بعد طبیعت میں بڑی فرحت آگئی ۔ یوں لگا جیسے آپ نے ’’خمیرہ مردارید‘‘ کھالیا ہو۔ سچ مچ حکیم صاحب کا مجموعہ کلام بڑا مفرّح اور مقوی ہے۔ یقین نہ آئے تو پڑھ کر دیکھ لیجئے۔ بس ایک بار آزمائش شرط ہے۔

حکیم صاحب کی شخصیت کے بارے میں کچھ لکھتے ہوئے مجھے بڑا خوف ہورہا ہے کیونکہ وہ جس پیشہ سے وابستہ ہیں وہ زندگی اور موت سے تعلق رکھتا ہے اور ہر انسان کو اپنی زندگی پیاری ہوتی ہے ۔ کسے معلوم کہ ایک دن میری نبض حکیم صاحب کے ہاتھ میں ہو اور وہ اس مضمون کا بدلہ چکا لیں۔ اس لئے بزرگوں نے کہا ہے کہ پولیس و الوں اور حکیموں سے ہمیشہ اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں۔ حکیم صاحب کی طبابت کے بارے میں میں کچھ بھی نہیں جانتا ۔ اس لئے کہ میں خدا کے فضل سے ابھی اس عمر کو نہیں پہنچا ہوں کہ حکیم صاحب کی طبابت سے استفادہ کروں۔ البتہ ان کی شاعری کے بارے میں خوب جانتا ہوں اور اسی شاعری کے چکر میں ان کے مطب کے اتنے چکر کاٹ چکا ہوں کہ لوگ اب خواہ مخواہ ہی مجھے دائم المریض سمجھنے لگے ہیں۔ مجھے بار بار حکیم صاحب کے پاس آتا دیکھ کرایک دن ایک صاحب نے مجھ سے سرگوشی کے انداز میں کہا تھا ’’بھئی ان حکیم صاحب کا پیچھا چھو ڑو اور کسی دوسرے حکیم سے علاج کراؤ‘‘۔ اس پر میں نے انہیں سمجھایا ’’بھائی تمہیں غلط فہمی ہوگئی ہے ، میں خمیرہ گاؤزبان لینے حکیم صاحب کے پاس نہیں آتا بلکہ ان کی نظمیں سننے آتا ہوں‘‘۔

اس پراُن صاحب نے کہا ’’اگر یہ بات ہے تو تب بھی آپ کو فوراً دوسرے کسی حکیم سے رجوع ہونا چاہئے۔ مرض بڑھتا جارہا ہے‘‘۔ اب آپ اسے مرض سمجھ لیں یا کچھ بھی لیکن مجھے یہ مرض بہت پسند ہے اور اس کا علاج میں سمجھتا ہوں کہ صرف حکیم یوسف حسین خاں ہی کرسکتے ہیں۔
کتنی ہی بار ایسا ہوا کہ میں نہایت مایوس اور بیزار حالت میں حکیم صاحب کے پاس پہنچا لیکن جب ان کی دوچار نظمیں سن کر باہر نکلا تو پتہ چلا کہ ساری اعضا شکنی دور ہوگئی ہے اور گلے کی خراش بھی کم ہوگئی ہے۔
حکیم صاحب سے میری ملاقات یہی کوئی چار پانچ برسوں کی ہوگی ۔ انہیں پہلی بار میں نے ایک ایسے مشاعرے میں دیکھا تھا جس میں شعراء زیادہ اور سامعین کم تھے اور کبھی کبھار یوں گمان بھی ہوتا تھا کہ کہیں میں اس مشاعرے کا واحد’’سامعین‘‘ تو نہیں ہوں ۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کسے سامع کہیں اور کسے شاعر۔ عجیب نفسا نفسی کا عالم تھا ۔ مائیکرو فون پر ادھر کسی کا نام پکارا جاتا اور اُدھر ہماری بغل میں سے کوئی صاحب بیٹھے بٹھائے اُٹھ کر مائک پرچلے جاتے۔ یقین مانیئے اس دن تو شرفاء کو پہچاننا تک مشکل ہوگیا تھا ۔ میں کسی صاحب کو اپنے تئیں کوئی شریف سامع سمجھتا تھا لیکن یہی صاحب اچانک مائک پر پہنچ جاتے تھے ۔ اس پر مجھے یقین ہوگیا کہ اس مشاعرے میں سارے کے سارے شاعر جمع ہیں۔ دور دور تک میں ہی ایک سامع رہ گیا ہوں۔ اس کسمپرسی کے عالم میں صرف اپنے دل کی تسلی کی خاطر لوگوں پر نظریں دوڑا رہا تھا کہ شاید کوئی اور قسمت کا مارا سامع بھی اس  مشاعرہ میں موجود ہو اور ہم دونوں مل کر آہ  وزاریاں کریں۔ اسی جستجو میں میری نظر ایک صاحب پر پڑی جو فیلٹ ہیٹ لگائے ۔ بش شرٹ اور پتلون پہنے نہایت متانت کے ساتھ ایک کونہ میں بیٹھے تھے ۔ ان صاحب کی صورت سے بڑی شرافت ٹپک رہی تھی۔ چہرے پر ایک ایسا وقار تھا جو عموماً شعراء کے چہروں پر نہیں پایا جاتا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ ایسے رکھ رکھاؤ اور وضع قطع کا شخص ہرگز شاعر نہیں ہوسکتا۔ ہو نہ ہو یہ سامع ہی ہے۔ اس خیال کے ساتھ ہی مجھے بڑا سکون نصیب ہوا ۔ میں نے سوچا کہ مشاعرہ کی اذیت میں اکیلا ہی برداشت نہیں کر رہا ہوں بلکہ ایک اور صاحب بھی فیلٹ ہیٹ لگائے اس کی اذیت کو برداشت کر رہے ہیں ۔ ابھی میں اچھی طرح مطمئن بھی ہو نہیں پایا تھا کہ مائک پر اعلان ہوا ’’اب جناب حکیم یوسف حسین خاں صاحب آپ کو کلام سنائیں گے‘‘۔ اس اعلان کے ساتھ ہی کیا دیکھتا ہوں کہ کونے میں فیلٹ ہیٹ ہلنے لگی اور وہ صاحب جنہیں میں اپنی سادہ لوحی کے سبب سامع سمجھ بیٹھا تھا اُٹھ کھڑے ہوگئے اور اپنی پیٹھ کو ذرا سا خم دے کر اور گردن کو سیدھی جانب ضرورت سے زیادہ لٹکاکر مائک کی طرف بڑھنے لگے۔ میں بے بس ہوگیا ۔ امید کی آخری شمع بھی میرے حق میں بجھ چکی تھی ۔ دور دور تک کوئی مونس و غم خوار نظر نہیں آتا تھا ۔ ایک سہارا تھا سو وہ بھی چھوٹ گیا ۔ اتنے میں فیلٹ ہیٹ نے مائک کو دبوچ لیا تھا اور حکیم یوسف حسین خاں صاحب کلام سنا رہے تھے ۔ حکیم صاحب جب کلام سنا چکے تو میرے ذہن کا سانچہ ہی بدل گیا تھا ۔ یا تو تھوڑی دیر پہلے میں حکیم صاحب کے اچانک سامع سے شاعر بن جانے پر کف افسوس مل رہا تھا لیکن جب ان کی نظم سن چکا تو خدا کا شکر بجا لایا کہ اچھا ہی ہوا کہ یہ صاحب شاعر نکلے ۔ اس دن کے بعد سے حکیم صاحب سے ملنے کی تمنا دل میں پیدا ہوگئی تھی لیکن کئی دنوں تک ان سے تعارف نہ ہوسکا۔ اس تاخیر کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ میں حکیم صاحب کو ا پنے تئیں نہایت خشک آدمی سمجھ بیٹھا تھا اور پھر ان کے رکھ رکھاؤ ان کی وضع قطع ، ان کی چال ڈھال کے سبب میں نے یہ اندازہ قائم کرلیا تھا کہ حکیم صاحب ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں صرف دور سے دیکھ کر انسان کو خوش ہو لیناچاہئے ۔ سو میں بھی کئی دنوں تک حکیم صاحب کو دور ہی دور سے دیکھ کر خوش ہو لیا کرتا تھا ۔ میں یہ بھی عرض کردوں کہ حکیم صاحب ان لوگوں میں سے ہیں جو اپنی شخصیت میں ضرور کوئی ایسی بات رکھتے ہیں جو لوگوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتی ہے ۔اب میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ توجہ کو کھینچنے میں حکیم صاحب کے مخصوص لباس کو دخل ہے یا ان کی فیلٹ ہیٹ کو یا پھر ان کی مخصوص چال کو ۔ اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ حکیم صاحب کو پہلی بار دیکھنے والا انہیں ضرور ایک پراسرار شخصیت سمجھ لیتا ہے ۔ وہ بادی النظر میں ایک شاعر یا حکیم سے کہیں زیادہ ایک جاسوس نظر آتے ہیں جو کسی قتل کی سراغ رسانی کے سلسلہ میں مصروف ہو۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مشاعرہ میں جب حکیم صاحب کلام سنانے کیلئے مائیکرو فون کی طرف بڑھے تو سامعین میں سے کسی نے پکار کر کہا تھا ’’دیٹ مین فرم استنبول‘‘(THAT MAN FROM ISTANBUL)۔ اس سامع کا یہ تبصرہ حکیم صاحب کی شخصیت کو سمجھنے میں بڑی مدد دے سکتا ہے اور میں بھی اس سلسلہ میں مزید کچھ کہنا نہیں چاہتا۔

عرصہ تک میں حکیم صاحب سے بال بال بچا رہا لیکن بالآخر ان سے تعارف ہو ہی گیا۔ تعارف کے بعد مجھے افسوس بھی ہوا کہ میں خواہ مخواہ ہی اتنے دنوں تک ان سے دور رہا ۔ اس کے بعد حکیم صاحب سے سینکڑوں ملاقاتیں ہوئیں ، سینکڑوں محفلوں میں ساتھ مل کر بیٹھے اور اب سوچتا ہوں کہ اگر حکیم صاحب سے تعارف نہ ہوتا تو میری زندگی میں خوش گوار لمحوں کا سرمایہ کچھ کم ہی رہتا۔
آپ حکیم صاحب کو نہایت سچا اور ایماندار آدمی سمجھتے ہوں تو سمجھا کریں لیکن میں یہ کہوں گا کہ حکیم صاحب بڑی صفائی سے جھوٹ بھی بولتے ہیں ۔ ذرا دیکھئے کہ حکیم صاحب کا بیان ہے کہ انہوں نے پچاس برس کی عمر میں شاعری شروع کی لیکن میں کہتا ہوں کہ حکیم صاحب  غلط کہتے ہیں۔ بھلا بتائیے یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص پچاس برس کی عمر میں اچانک شاعری شروع کردے اور وہ بھی ایسی شاعری کہ جس کیلئے برسوں کے ریاض کی ضرورت ہو۔ کم از کم میں تو ان کے اس جھوٹ کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوں۔ ان کی شاعری کو پڑھ کر مجھے یہ گمان گزرتا ہے کہ ضرور حکیم صاحب برسوں سے خفیہ طور پرشاعری کر رہے ہیں۔ وہ بالکل اسی رازداری کے ساتھ شاعری کرتے رہے ہیں جیسے کوئی خفیہ طور پر شراب کی ناجائز کشید کر رہا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ میں غلط کہہ رہا ہوں لیکن کیسے یہ یقین کیا جائے کہ حکیم صاحب آن کی آن میں شاعر بن گئے ۔ یعنی رات کو سوئے تو اچھے خاصے حکیم تھے جو صبح ا ٹھے تو شاعر بن کر اٹھے۔ میرا خیال ہے کہ حکیم صاحب نے اپنی شاعری کے آغاز کے بارے میں بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے کیونکہ میری نظر میں پہلا شعر کہنا اور پیدائش ہی سے فطرتاً شاعر رہنا دو الگ باتیں ہیں۔ حکیم صاحب صرف اس حد تک سچے ہیں کہ انہوں نے چھ سال پہلے شعر کہا لیکن جہاں تک شاعر ہونے کا تعلق ہے میں تو یہ کہوں گا کہ حکیم صاحب عرصہ بعید سے شاعر چلے آرہے ہیں ۔ یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ حکیم صاحب کی شخصیت کے ہر پہلو میں مجھے شعریت نظر آتی ہے ۔ اُن کے مزاج میں شعریت ہے ، ان کی باتوں میں شعریت ہوتی ہے ، ان کے سماجی برتاؤ میں شعریت موجود ہے۔

لگے ہاتھوں میں یہاں یہ اشارہ بھی کردوں کہ حکیم صاحب نے اپنے سارے ہی بچوں کے نام ہم قافیہ رکھے ہیں جیسے زمزم ، افہم ، چشمم اور ارحم اوران بچوں کے بعد انہوں نے اپنی اولادوں کی تعداد شاید محض اس ڈر سے آگے نہیں بڑھائی کہ چشمم اور ارحم کے بعد مرہم اور درہم برہم کے قافیے آتے ہیں۔ سو حکیم صاحب نے نہایت ہوشیاری سے بچوں کی تعداد کو آگے بڑ ھنے سے اسی طرح روک دیا جس طرح کوئی ہوشیار شاعر اپنی غزل کو بھرتی کے اشعار سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اپنے بچوں کے ہم قافیہ نام رکھنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ حکیم صاحب عرصہ سے شاعر برقرار ہیں۔

حکیم صاحب کئی خوبیوں کے مالک ہیں جو کم از کم میری نظر میں خوبیاں نہیں بلکہ خرابیاں ہیں۔ ان میں سب سے بڑی خرابی تو یہ ہے کہ وہ بے حد ملنسار آدمی ہیں اور اسی ملنساری کا نتیجہ ہے کہ ان کے دوست احباب ان کے مطب کو ڈرائنگ روم کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ میں حکیم صاحب سے جب بھی ملنے گیا انہیں دوستوں میں گھرا ہوا پایا ۔ اب تو میری زندگی کی سب سے بڑی حسرت یہ رہ گئی ہے کہ میں کبھی حکیم صاحب کو کسی مریض کا معائنہ کرتے ہوئے دیکھوں۔ پتہ نہیں میری یہ تمنا کب پوری ہو اور خود حکیم صاحب کب اسے پوری کرنے کی کوشش کریں ۔ حکیم صاحب دوستوں کا بہت خیال رکھتے ہیں لیکن ان کے دوستوں سے میری گزارش ہے کہ وہ بھی کبھی حکیم صاحب کا خیال رکھیں۔ محض دوستوں کی خاطر میں نے حکیم صاحب کو کئی صعوبتیں اٹھاتے دیکھا ہے۔ اگر دوست اُن سے کہیںکہ وہ دوزخ میں چلے جائیں تو مجھے یقین ہے کہ حکیم صاحب اپنے پاس بے شمار نیکیاں رکھنے کے باوجود دوزخ میں جانے پر مصر رہیں گے اور میں سمجھتا ہوں یہی حکیم صاحب کا سب سے بڑا گناہ ہے ۔ کسی دوست نے مشاعرے میں شرکت کی دعوت دیدی اور حکیم صاحب جہاد پرنکل کھڑے ہوئے ۔ یہ تک نہ دیکھا کہ مشاعرہ کہاں ہے کتنے فاصلہ پر ہے۔ اس کے حدود اربعہ کیا ہیں اور یہ کہ مشاعرہ کتنے عرض البلد اور کتنے طول البلد پر ہونے والا ہے ۔ دوست کے کہہ دینے کے بعد حکیم صاحب کو ان باتوں کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
میں ایک مشاعرہ کا عینی شاہد ہوں جس میں شرکت کی خاطر حکیم صاحب نے جو جدوجہد کی اتنی ہی جدوجہد اگر کوئی دوسرا شخص کرلے تو اس کے اوسان خطا ہوجائیں ۔ یہ مشاعرہ ایک ضلع میں منعقد ہوا تھا اور اس میں حکیم صاحب نے صرف اس لئے شرکت کی تھی کہ ان کے ایک نہایت قریبی دوست نے ان سے مشاعرہ میں شرکت کی درخواست کی تھی ۔ اتفاق سے مجھے بھی اس تقریب کے سلسلہ میں وہاں جانا پڑا تھا لیکن میں اور میرے دیگر ادیب ساتھیوں نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ مقام بہت دور ہے اور پھر گرمی کے دن ہیں اسی لئے ہمارے لئے گاڑی کا علیحدہ انتظام کیا جائے ۔ ہم صبح میں آئیں گے اور شام کو واپس ہوجائیں گے ۔ ہم نے صاف صاف بات کہہ دی اور ہمارے لئے انتظام ہوگیا ۔ حکیم صاحب بھلا کسی دوست سے ایسی بات کیوں کر کہہ سکتے تھے ۔ میں یہ بھی عرض کردوں کہ حکیم صاحب کو وہاں مشاعرے کی صدارت کرنی تھی ۔ چنانچہ ہمارے لئے تو سواری کا بندوبست ہوگیا لیکن حکیم صاحب کو ان کے دوست محض سواری کے بندوبست سے بچنے کی خاطر اپنے ساتھ لے کر چلے گئے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حکیم صاحب مشاعرہ کی صدارت سے کم و بیش تین دن پہلے اس مقام پر پہنچ گئے ، تین دن بعد جب ہم وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حکیم صاحب کا حال مریضوں کا سا ہے ۔ گرمی نے انہیں نڈھال کر رکھا تھا ، بے بس و مجبور تھے اور صدارت کے لئے ہنوز سولہ گھنٹے باقی تھے ۔ ہم نے حکیم صاحب کی مزاج پرسی کی ، ساری کیفیت سنی اور نسخہ یہ تجویز کیا کہ منتظمین کو حکیم صاحب کے بارے میں توجہ دلائی جائے مگر حکیم صاحب کوئی حرف شکایت زبان پر لانا نہیں چاہتے تھے، محض اس خیال سے کہ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو ۔

چاروناچار ہم خاموش ہوگئے ۔ ہم اسی دن ادبی اجلاس میں شرکت کر کے واپس ہوگئے لیکن حکیم صاحب نے کچھ ایسی حسرت ویاس کے ساتھ ہمیں وداغ  کرنے کے لئے ہاتھ ہلایا گویا کہہ رہے ہوں ’’ساتھیو ! اہل وطن کو میرا سلام کہنا۔ اُن سے کہنا کہ دیارِ غیر میں ایک شخص اب تک تمہاری یاد میں جل رہا ہے ، اسے کبھی نہ بھولنا۔ زندگی باقی رہے گی تو وہ اہل وطن سے ملنے کیلئے چلا آئے گا‘‘۔ مجھے اس وقت حکیم صاحب کی حالت پر بڑا رحم آیا ۔ راستہ بھر حکیم صاحب کی وہ مسکین سی صورت میری آنکھوں میں گھومتی رہی ۔ میں نے سوچا کہ بیسویں صدی میں بھی چند لوگ ایسے ہیں جو دوستوں کی خاطر وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں جوان کے دوست خود ان کی خاطر نہیں کرسکتے۔ مجھے حکیم صاحب کے دوستوں سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ابھی دو سال پہلے وہ سخت گرمی میں وجئے واڑہ میں کوئی مشاعرہ پڑھنے گئے تھے ۔ وہاں بھی وہ اپنے ایک دوست کی سفارش پر گئے تھے اور وہاں انہوں نے جوتکلیفیں اٹھائیں وہ کسی بھی شخص کو عبرت دلانے کیلئے بہت کافی ہیں۔ آپ ہرگز نہ سمجھئے کہ حکیم صاحب مشاعرہ پڑھنے کیلئے دوزخ میں بھی جاسکتے ہیں۔ بلکہ آپ اس بات کا جائزہ اس طرح لیجئے کہ اگر دوست کہیں تو حکیم صاحب دوزخ میں بھی مشاعرہ پڑھ سکتے ہیں لیکن مجھے حکیم صاحب کی یہ بات بہت پسند آتی ہے کہ وہ اتنی ساری اذیتیں برداشت کرنے کے باوجود کبھی اپنے دوستوں کے خلاف کچھ نہیں کہتے ۔ وہ دوستوں کی تلخ باتوں کو یوں پی جاتے ہیں،جیسے خود ان کے مریض ان کی دی ہوئی کڑوی دوائیں پی جاتے ہیں۔
حکیم صاحب ایسے سعادت مند بزرگ  ہیں جواپنے سے چھوٹوں کا بڑا احترام کرتے ہیں اور انہیں آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ۔ خود اپنے بچوں سے ان کے برتاؤ کو دیکھ کر مجھے یہ پہچاننے میں دشواری ہوتی ہے کہ باپ کون ہے اور بیٹاکون… اپنے بچوں سے ان کے جو تعلقات ہیں وہ برادرانہ تعلقات کی تعریف میں آتے ہیں۔ میں نے کبھی حکیم صاحب کو اپنے بچوں کو ڈانٹتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ البتہ اُن کے بچوں کو خود حکیم صاحب کو ٹوکتے ہوئے کئی بار دیکھاہے ۔ وہ اپنے بچوں کے حق میں بڑے سعادت مند باپ ہیں اور بچوں کی خدمت کرنے کو اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں۔

حکیم صاحب کو طب کے سوائے ہرچیز سے دلچسپی ہے ۔ سناہے کہ وہ فوٹو گرافی میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ فوٹو گرافی میں وہ کتنا کمال رکھتے ہیں۔ البتہ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ایک بار انہوں نے میری ایک تصویر کھینچی تھی ۔ کئی دنوں بعد جب وہ تصویر دھل کر آئی تو حکیم صاحب نے مژدہ سنایا کہ میری تصویر بن کر آئی ہے۔ مجھے وہ تصویر دی گئی تو میں بڑی دیر تک اپنے آپ کو پہچان نہ سکا۔ مجھ پر بے خودی کی سی کیفیت طاری ہوگئی ۔ تصویر کو اُلٹ پلٹ کر دیکھتا رہا مگر کہیں ’’میں‘‘ نظر نہ آیا۔ اگر میں کہتا کہ حکیم صاحب یہ تصویر میری نہیں ہے تو حکیم صاحب کے دل کو ضرور ٹھیس پہنچتی ۔ اس لئے میں اپنے آپ کو نہ پہچانتے ہوئے بھی تصویر کی تعریف کرتا رہا اور حکیم صاحب بھی دل ہی دل میں خوش ہوتے رہے ، وہ تصویر اب تک میرے پاس محفوظ ہے اور اب تک میں یہ فیصلہ نہیں کرسکا ہوں کہ ا سے اپنی تصویر کہوں یا حکیم صاحب کی۔
حکیم صاحب کو اگر کوئی آدمی پسند کرنا چاہے تو ان کی ذات میں بے شمار خوبیاں ہیں لیکن میں حکیم صاحب کو صرف اس لئے پسند کرتا ہوں کہ مجھے ان کی ذات میں بڑا دلچسپ تضاد نظر آتاہے ۔ یہ تضاد ظاہری بھی ہے اور اندرونی بھی ۔ اسی بات کو لیجئے کہ وہ حکیم ہیں لیکن لباس ایلوپیتھی کے ڈاکٹروں کا پہنتے ہیں۔ کلاسیکل ادب کو بے حد پسند کرتے ہیں لیکن جدید شاعری کرتے ہیں۔ خود شاعر ہیں لیکن شعراء کی بے اعتدالیوں پر طنز کرتے ہیں۔ خود سگریٹ پیتے ہیںاور لوگوں کو سگریٹ پینے سے منع کرتے ہیں۔ عمر کا بڑا حصہ گزارچکے ہیں لیکن باتیں نوجوانوں کی سی کرتے ہیں اور ان کی ذات کا یہی تضاد مجھے بہت پسند آتاہے۔
حکیم صاحب بڑے ہمدرد انسان ہیں، اتنے ہمدرد کہ اگر کوئی مریض اپنے مرض کی کیفیت شدتِ جذبات کے ساتھ ان کے سامنے بیان کردے تو مریض کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ ان کی آنکھوں سے بھی آنسو نکل آئیں گے اور وہ مریض کا علاج کرنے کی بجائے اس کے ساتھ آہ و زاریاں کرنے میں مصروف ہوجائیں گے۔

حکیم صاحب کی شخصیت کا ایک بڑا اچھا پہلو بھی ہے اور اسی پہلو کی بناء پر میں ان ہیں اردو شاعری کا ٹیڈی بوائے سمجھتا ہوں۔ وہ پہلو یہ ہے کہ حکیم صاحب کی عمر جوں جوں بڑھتی جارہی ہے وہ جوان سے جوان تر ہوتے جارہے ہیں ۔ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے حکیم صاحب لمحہ لمحہ عمر کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ سب جوان ہوکر بوڑھے ہوتے ہیں لیکن حکیم صاحب بوڑھے ہوکر جوان بنتے چلے جارہے ہیں۔ حکیم صاحب کو جب پچاس برس کی عمر میں احساس ہوا کہ وہ بوڑھے ہوتے جارہے ہیں تو انہوں نے شاعری شروع کردی جو خالصتاً جوانی کا کاروبار ہے ۔ حکیم صاحب نے جس عمر میں شاعری شروع کی اس عمر میں عام شعراء مرثیہ لکھنے لگ جاتے ہیں۔ پھر حکیم صاحب نے پچاس برس کی عمر میں نہایت جدید شاعری شروع کی اور اس طرح یہ ثابت کر دکھایا کہ آدمی اگر چاہے تو وقت سے لڑ بھی سکتا ہے ۔ پھر حکیم صاحب ا کثر ایسے دوستوں میں گھرے رہتے ہیں جنہیں اگر کوئی اجنبی حکیم صاحب کے ساتھ دیکھ لے تو یہ سمجھ لے کہ باپ اپنے بیٹوں کے ساتھ ہنسی مذاق کر رہا ہے، حکیم صاحب کے دوستوں کی اکثریت نوجوانوں سے تعلق رکھتی ہے اور حکیم صاحب خود کو ان کے درمیان پاکر بے حد مسرت محسوس کرتے ہیں ۔ ہمیشہ اپنے آپ کو جوان ، تندرست ، چست رکھنے کی اس کوشش نے حکیم صاحب کی شخصیت کو بڑا پرکشش بنادیا ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ میں حکیم صاحب کو اردو شاعری کا ٹیڈی بوائے سمجھتا ہوں۔ خدا سے دعا ہے کہ حکیم صاحب دن بدن جوان سے جوان تر ہوتے جائیں، ہر سالگرہ پر ان کی عمر پیچھے کی طرف گھٹتی جائے یہاں تک کہ وہ بالکلیہ جوان ہوجائیں مگر اس سے اور پیچھے جانے کی کوشش نہ کریں کیونکہ بچہ بننے سے تو بہتر یہی ہے کہ آدمی بوڑھا ہی برقرار رہے۔ (مجتبیٰ حسین کا یہ پہلا شخصی خاکہ جسے انہوں نے حکیم یوسف حسین خاں کے بے حد اصرار پر 1968 ء میں لکھا تھا اور یہیں سے اُن کی خاکہ نگاری کے سفر کا باضابطہ آغاز ہوا)
(1968 ء)