حکومت کے خلاف ہر حربہ آزمانے کی مہم

تلنگانہ / اے پی ڈائری         خیر اللہ بیگ
اپوزیشن نے تلنگانہ حکومت کے خلاف ہر حربہ آزمانے کی مہم شروع کی ہے ۔ کانگریس ، تلگو دیشم اور بی جے پی الگ الگ محاذوں پر حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کے خلاف نبرد آزما ہیں ۔ آیا یہ پارٹیاں حکومت کے کاموں پر تنقید کررہی ہیں یا بحیثیت اپوزیشن اپنی ساکھ بنانے کے لیے عوام کو گمراہ کررہی ہیں ۔ یہ زمانہ واٹس ایپ کا ہے ۔ عوام کو ہر خبر کے عام ہونے سے پہلے ہی خبر ہوجاتی ہے ۔ میاں پور کی زمین کی دھاندلیوں میں کس کس کا ہاتھ ہے یہ اپوزیشن کو معلوم ہے تو حکومت کیا کررہی ہے ۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینہ کا سیاسی فائدہ اس سے بڑھ کیا ہوسکتا ہے کہ حکومت کی ہدایت پر ڈپٹی مئیر نے ایک ہوم گارڈ کے گھر پہونچکر اپنی تنخواہ کا تحفہ دیا اور اس کے بچوں کی اچھی تعلیم کے لیے وزیر آئی ٹی کے ٹی راما راؤ کے نیک ارادوں سے بھی واقف کرواکر خوش کردیا ۔ رمضان المبارک میں بھی امیر روزہ دار اور غریب روزہ دار یا افطاری پارٹیوں کی خوبی پر بیت بازی کرنے والوں کے درمیان یہ تاجر برادری نے روزہ داروں کی جیب سے بھی منافع خوری کا بندوبست کرلیا ہے آپ نے دیکھا ہوگا کہ رمضان آتے ہی مارکٹ میں ہر شئے مہنگی بنادی جاتی ہے ۔ کھجور سے روزہ کھولنے میں بھی اب کھجور کے اقسام پر فخر فخر اور امیری و غریبی کا مظاہرہ ہونے لگا ہے ۔ عجوہ کھجور سے افطار کرنے کا دعویٰ کرنے والے مہنگا کھجور خریدنے کے متحمل ہوتے ہیں اور جو لوگ اس کھجور کے حصول میں ناکام ہوتے ہیں وہ مقامی کھجور سے ہی افطار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جن کے پاس یہ بھی نہیں ہوتا وہ ٹھنڈے ثربت سے ہی روزہ کھولتے ہیں ، نمک سے بھی افطار کرنے کے واقعات موجود ہیں ۔ مگر سیٹھ اور ساہوکاروں کا روزہ اور افطاری تو اب منافع خوری سے ہورہی ہے ۔ اس لیے آج بازار کا رخ کرنے پر معلوم ہوگا کہ ہر شئے کے دام بڑھتے ہوئے ہیں ۔ بہر حال ڈپٹی مئیر بابا فصیح نے اچھا کام کیا اور ایک غریب ہوم گارڈ کی آرزوں کو پورا کرنے کا بیڑہ اٹھایا ۔ اس مقدس ماہ میں ایسے غریب شہریوں کی نشاندہی کر کے ان کی مدد کرنا درست اقدام کہلاتا ہے ۔

’’مانگنے اور خرچ کرنے والے فقیروں کی کمی نہیں ہے ۔ ان لوگوں کو تلاش کرو کہ جو مانگنا نہیں جانتے اور کسمپرسی میں زندگی گذارتے ہیں ۔ مگر ایسے بھکاری بھی ہوتے ہیں جو سیٹھوں کا پیچھا نہیں چھوڑتے بلکہ ان کی جیب کسی نہ کسی طرح ہلکی کراہی لیتے ہیں ۔ ایک چوراہے پر دیکھا کہ ایک بھکاری سیٹھ کو زچ کررہا تھا اس کا دامن پکڑ کر کھینچ رہا تھا ۔ سیٹھ کو غصہ آیا پھر بھی اس نے خود کو قابو میں رہ کر جیب سے 10 روپئے نکال کر دئیے ۔ فقیر نے مزید پانچ روپئے دینے کے لیے زور دیا ۔ سیٹھ کو غصہ آیا مزید پانچ روپئے کیوں سیٹھ نے زور سے پوچھا ۔ فقیر نے کہا کہ سیٹھ نئے مالیاتی سال میں ہر چیز پر ٹیکس لگنے والا ہے ۔ جی ایس ٹی کی وجہ سے ٹیکس دینا ہے ۔ بھیک تم لیتے ہو تو ٹیکس بھی تم ہی بھرو سیٹھ نے کہا ۔ فقیر نے جواب دیا سیٹھ ٹیکس ہمیشہ کلائنٹ سے لیا جاتا ہے ۔ اس نے وضاحت کی کہ 10 روپئے تم نے دئیے ہیں تو اس پر 5 روپئے کا ٹیکس بھی دیدو ۔ ‘‘

فقیروں کی ضرورتوں میں اور سیاستدانوں کی چالاکیوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ فقیر کی ضرورت تو شام ہوتے ہی ہوجاتی ہے مگر سیاستدانوں کی چالاکیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں ۔ سیاسی پارٹیوں کی خوبیاں بھی علاقہ واری طور پر جانچی جاتی ہیں ۔ جنوب میں جس طرح کی سیاست کی جاتی ہے وہ شمالی ہند میں دکھائی نہیں دیتی ۔ شمالی ہند یعنی دہلی ، یو پی ، بہار ، ہریانہ ، پنجاب وغیرہ میں جو سیاسی پالیسیاں ہوتی ہیں انہیں جنوبی ہند میں لاگو نہیں کیا جاسکتا ۔ یا یوں کہئے کہ جنوبی ہند کے عوام کا شعور شمالی ہند سے بہتر ہے ۔ جنوبی ہند کے لوگ دیکھتے ہیں کہ حکومت نے آج ان کے لیے کیا کام کیا ہے اور عوام تک اسکیم کا فائدہ کیا پہونچ رہا ہے ۔ اگر عوام کو محسوس ہونے لگے کہ ان سے دھوکہ کیا گیا ہے کہ حکمران پارٹی کا موقف کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو انتخابات میں اسے سبق سکھاتے ہیں ۔ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ نے حال ہی میں ایسی ہی باتوں سے پارٹی ورکرس کو باخبر کردیا ہے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھیں ۔ انہوں نے خاص کر اپنے کابینی رفقاء ارکان پارلیمنٹ کے بشمول تمام بڑے لیڈروں سے کہا کہ انہیں سوچ سمجھ کر منہ کھولنا چاہئے ۔ کیوں کہ اپوزیشن اب ان کی ہر بات کا نوٹ لے رہی ہے ۔ ایک اپوزیشن ہو تو اس سے نمٹا جاسکتا ہے یہاں تو کئی اپوزیشن پارٹیاں ہیں جن میں دو قومی پارٹیاں ہیں ۔ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ پارٹی اور حکومت دونوں پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا چاہتے ہیں ۔ ان کا طرز عمل ایسا ہی ظاہر کررہا ہے جیسا کہ پہلے اندرا گاندھی یا جیہ للیتا کی کارکردگی میں دیکھا جاتا تھا ۔ اندرا گاندھی اور جیہ للیتا نے پارٹی امور پر مضبوط گرفت پیدا کرلی تھی ۔ اسی طرح کم یا زیادہ کے سی آر بھی ٹی آر ایس پر گرفت بنائے رکھنا چاہتے ہیں ۔ انہیں اس بات کا پوری طرح اندازہ ہے کہ تلنگانہ کے رائے دہندے باشعور ہیں ۔ انہیں جذباتی طور پر بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا ۔ جیسا کہ بعض پڑوسی ریاستوں میں وہاں کی حکومتوں نے عوام کو طبقاتی بنیاد پر اسکیمات بتاکر ان طبقات کا دل جیتنے کی کوشش کی ہے ۔ اس طرح اپنی حکومت کی پالیسیوں کے باوجود کے سی آر اپنی حکومت کو درپیش مالیاتی بحران سے بے خبر نہیں ہوسکتے کیوں کہ ان دنوں ریاستی حکومت گذشتہ سال کے زیر التواء بلوں کی ادائیگی کے موقف میں بھی نہیں ہے ۔ یہ بلس عدم ادائیگیوں کے باعث سڑ رہے ہیں ۔ ریاستی حکومت کے مالیاتی مصارف زیر التواء بلوں کے بشمول 10,000 کروڑ روپئے کے ہیں ۔ ان میں سے 5000 کروڑ تو صرف زیر التواء بلوں کے ہیں ۔ ریاستی حکومت پے رویژن کمیشن کے طور پر اپنے ملازمین کو 3000 کروڑ روپئے ادا کرنے باقی ہیں ۔ مالیاتی مسائل کے باعث ہی رقومات ادا نہیں کی جاسکتی ہیں ۔ مختلف محکمہ جات کے کنٹراکٹرس کو بھی 5000 کروڑ روپئے کے بلس ادا کرنے باقی ہیں ۔ ایسے میں حکومت کے لیے ایک دھکہ اراضی کی فروخت سے لگا ہے ۔ میاں پور میں قیمتی اراضیات کو خانگی اداروں کو کوڑیوں کے دام فروخت کردیا گیا ۔ 796 ایکڑ سرکاری اراضی بہت بڑی اراضی ہوتی ہے ۔ چیف منسٹر کی ناک کے نیچے ایک عہدیدار نے خانگی فرمس کو سرکاری اراضی فروخت کردی ۔ پولیس نے اس سلسلہ میں ایک سب رجسٹرار اور دو مختلف رئیل اسٹیٹ کمپنیوں کے دو ڈائرکٹرس کو گرفتار کرلیا ہے ۔ سرکاری قیمتی اراضی کو مبینہ طور پر خانگی کمپنیوں کو فروخت کر کے سرکاری خزانہ کا بھاری خسارہ کیا گیا ۔ رجسٹرار یا سب رجسٹرار کو حاصل غیر معمولی اختیارات سے بھی کئی بدعنوانیوں کا موقع مل جاتا ہے ۔ اب حکومت نے ان اختیارات کو کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور رجسٹریشن کی مرکزیت کو بھی ختم کرنے پر غور کیا ہے ۔
kbaig92@gmail.com