حکومت کو فی الحال کسی قسم کا کوئی چیلنج نہیں

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ حکومت کی اصل کارکردگی کب شروع ہوگی اس کا تھوڑا انتظار کرکے دیکھتے ہیں ، کیونکہ اب تک چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اور ان کی مختصر کابینہ نے صرف کاغذی فیصلے کئے ہیں۔ دن رات نئے منصوبوں اور نئی ریاست کے لئے ترقیاتی کاموں کا اعلان ہی ہورہا ہے۔نئی حکومت کیلئے پہلی پریشانی ضلع میدک کا ریلوے سانحہ ہے ۔ ریلوے کراسنگ پر خانگی اسکول بس اور ٹرین تصادم میں 17کمسن طلبہ کے بشمول 24 افراد کی ہلاکت افسوسناک ہے۔ اس طرح کے واقعات ریلوے کراسنگ پر نگرانکار نہ ہونے سے رونما ہوتے ہیں۔ وزارت ریلوے نے اپنے بجٹ میں تلنگانہ کو بری طرح نظرانداز کردیا تھا۔ حکومت کو ریاست تلنگانہ کے تمام ریلوے کراسنگس کی ترقی کیلئے زور دینا چاہیئے۔چندر شیکھر راؤ حکومت نے اپنی کارکردگی کی ابتداء میں جو پھرتی دکھائی تھی اور رمضان المبارک کے موقع پر تمام شہریوں کو صاف ستھرا ماحول دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ مساجد کے اطراف و اکناف صفائی، پانی کی سربراہی، برقی کے موثر انتظامات کی ہدایت دی گئی تھی۔ عوام نے دیکھ لیا کہ یہ ہدایت اور اعلانات حسب سابق ایک سیاسی پارٹی کے انتخابی وعدے ہی ثابت ہوئے۔ چیف منسٹر نے مساجد اور مسلم محلوں میں خاص انتظامات کی بھی ہدایت کی تھی مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ افطار پارٹیوں کے انعقاد میں بھی حکمراں پارٹی کے ارکان نے سیاسی صورت گری پر توجہ دی۔ کے سی آر اپنے حصہ کے طور پر کارکردگی کا مظاہرہ ضرور کررہے ہیں، اس کے نتائج کب سامنے آئیں گے اس کا عوام الناس کو شدت سے انتظار ہے۔

اسپورٹس کھلاڑی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کو تلنگانہ کا ایمبسیڈر بناتے ہوئے انہوں نے نئی ریاست کو عالمی سطح پر ایک روشن نام دینے کا قدم اُٹھایا ہے مگر بی جے پی لیڈر کے لکشمن نے ثانیہ مرزا کو پاکستان کی بہو قرار دے کر تلنگانہ برانڈ ایمبسیڈر بنانے کی مخالفت کی اور اپنی پارٹی کے ذہنی تعصب پسندی کا ثبوت دے دیا۔ ثانیہ مرزا کو برانڈ ایمبسیڈر بنانے پر سب سے زیادہ چراغ پا حسب روایت بی جے پی ہی دکھائی دی ہے۔ تنگ نظر کوتاہ ذہنی نے اس پارٹی کو ملک کی اقلیت کی نظروں میں کونسا مقام دیا ہے یہ سبھی جانتے ہیں۔ بی جے پی کی نظر میں ثانیہ مرزا کو تلنگانہ کا برانڈ ایمبسیڈر بنانے کی کوئی منطقی وجہ نظر نہیں آئی۔ تلنگانہ کی حکومت نے وطنیت کا مسئلہ بھی چھیڑا ہے۔ 1956ء کے بعد کے تلنگانہ مقیم شہریوں کی وطنیت مشکوک بتائی جارہی ہے۔ 1956ء سے قبل تلنگانہ میں رہنے والوں کو اپنی شناخت اور وطنیت کے ادعاء کے لئے ثبوت بھی پیش کرنے کی شرط رکھی جانے والی ہے۔ اگر 1956ء سے قبل کی ہی وطنیت کو اہمیت دی گئی تو پھر ثانیہ مرزا کی وطنیت کا مسئلہ اُٹھایا جائے گا

اور کئی سوال کھڑے ہوجائیں گے کہ آخر برانڈ ایمبسیڈر بنانے کے بعد بھی ان کی وطنیت کی تفصیل معلوم نہیں کی گئی۔ تلنگانہ حکومت کو اپنے اس وطنیت کے فیصلہ سے کس حد تک مخالفت اور ناراضگیوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اور دیگر کئی مسائل بھی ہوں گے۔ اگر ٹی آر ایس حکومت نے اس وطنیت کے مسئلہ کو زیادہ شدید نہیں بنایا تو احتجاج اور دھرنوں کی سیاست سے وہ بچ سکتے ہیں۔ جہاں تک اس نئی حکومت کو اقتدار حاصل کرنے کے چند دنوں میں ہی احتجاج و دھرنوں کا سامنا کرنے کا سوال ہے، عثمانیہ یونیورسٹی ایک ایسا مرکزی مقام بن گیا جہاں سے کسی بھی تحریک اور احتجاج کی کرن پھوٹتی ہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے طلباء نے تلنگانہ حکومت کے اس فیصلہ کے خلاف احتجاج شروع کیا ہے جو کنٹراکٹ ملازمین کو باقاعدہ بنانے سے متعلق تھا۔ اس طرح احتجاج کا سلسلہ دیگر شعبوں اور دیگر گوشوں میں شروع ہوجائے تو نئی حکومت کو اپنی کارکردگی کی راہ میں کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
حیدرآباد کو آئی ٹی شعبہ کا سب سے بڑا مرکز بنانے کا ارادہ رکھنے والی اس حکومت نے اپنے بلند عزائم کا اظہار تو کیا ہے لیکن اس کے ساتھ تمام تقاضوں اور ضروریات و سہولتوں کو بھی فراہم کرنا اس کی دیانتدارانہ کوششوں پر منحصر ہوگا۔ شہر حیدرآباد کو خوبصورت بنانے کے منصوبہ اور عزم کی اب تک کوئی معمولی جھلک بھی دکھائی نہیں دی۔ شہر میں ٹریفک مسائل کو حل کرنے کا بھی کوئی جامع منصوبہ اور حرکیاتی پلان سامنے نہیں آیا۔ فُٹ اوور بریجس تعمیر کرکے راہ گیروں کو سہولتیں فراہم کرنے کا منصوبہ تیار ہورہا ہے

جبکہ موجودہ فُٹ اوور بریجس کے استعمال اور اس کی افادیت سے راہ گیروں کو کتنی سہولت ہورہی ہے وہی بہتر جانتے ہیں۔ مہدی پٹنم سرکل پر بنایا گیا فُٹ اوور بریج اکسپریس وے کی خاطر ہٹادیا دیا، اب یہاں سڑک عبور کرنا ایک جان لیوا اور جوکھم بھرا مرحلہ ہورہا ہے۔ آئے دن حادثات میں اضافہ کے باوجود اس سرکل پر راہ گیروں اور موٹر رانوں کی سلامتی کا کوئی موثر انتظام نہیں کیا گیا۔ اسی طرح شہر کے دیگر مصروف علاقوں میں راہ گیروں کو سڑک عبور کرنے میں خاص کر طلبہ کیلئے سڑک عبور کرنا جان لیوا ہے۔ خیریت آباد روڈ پر تعلیمی اداروں کی وجہ سے فُٹ اوور بریجس کی سخت ضرورت ہے مگر برسوں سے یہ مسئلہ تعطل کا شکار ہے۔ حکومت کو اپنے فیصلوں پر عمل کرنے اور دکھائی دینے والے کام انجام دینے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیئے۔ کسی بھی کام کی شروعات کے وقت ہی اس کی تکمیل کی تاریخ کا تعین کردیا جاتا ہے مگر متعینہ تاریخ کے کئی برس گذرنے کے باوجود پراجکٹ تعمیری مرحلہ میں ہی رینگتا رہتا ہے۔ ٹولی چوکی فلائی اوور بریج کی تعمیر کو وقت مقررہ پر مکمل کرلینے کا وعدہ کیا گیا مگر جس رفتار اور جس ڈھنگ سے کام ہورہا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ پراجکٹ پورا کرنے کے لئے برسوں لگ جائیں گے۔

نئی ریاست کو ویسے تو کسی قسم کے معاشی چیلنجس کا سامنا نہیں ہے۔ مہنگائی سے تو صرف عوام ہی پریشان ہیں اور عوام کو اس پریشانی پر غصہ نہیں آرہا ہے تو حکومت محفوظ ہے۔ عوام خاموشی سے برداشت کررہے ہیں اس کا مطلب حکومت کے سامنے آنے والے دنوں میں کوئی سنگین چیلنج کا سامنا نہیں ہے۔عوام میں ہر خرابی اور ابتری کو برداشت کرنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ ایک حکومت کی زیادتیوں سے چھٹکارا پانے دوسری حکومت لائی جاتی ہے تو اس کے بھی وہی منصوبے اور پروگرام ہوتے ہیں تو عوام کو اپنے فیصلوں پر ندامت ہوتی ہے، اور ایک نادم رائے دہندہ کس سے شکایت کرے گا اور کس سے منصفی چاہے گا۔ لہذا آئندہ چند دنوں تک مرکز اور ریاستی حکومتوں کو کوئی بڑی پریشانی کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا۔ اگر مہنگائی اور ملک و ریاستوں کے اِفراطِ زر کا حال مزید سنگین رُخ اختیار کرجاتا ہے تو پھر عوام غور کریں گے کہ انہیں کیا کرنا ہے۔

ہندوستان میں فرقہ پرستوں کا راج جب آچکا ہے تو ملک کی بڑی اقلیت کو کئی فکریں لاحق ہوگئی ہیں۔ زعفرانی ٹولوں کی دندناتی ہوئی سرگرمیوں نے ظاہر کرنا شروع کیا ہے کہ مسلمانوں کو مستقبل میں کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شیوسینا کے رکن پارلیمنٹ نے ایک مسلم روزہ دار کا روزہ زبردستی توڑ دیا تو اس مسئلہ پر سارا ملک خاموش ہے خود مسلمانوں کی تنظیمیں خاموش ہیں۔ اگر یہ واقعہ اس کے برعکس ہوتا ، کوئی مسلم کسی ہندو کے مذہبی جذبہ کو ٹھیس پہنچاتا تو ملک میں فرقہ پرستی کی بھیانک کہانی شروع کردی جاتی۔ صرف فیس بُک پر بعض شرپسندوں کی جانب سے کی گئی توہین آمیز پوسٹنگ پر پونے میں ایک مسلم نوجوان کو زدوکوب کرکے ہلاک کردیا گیا۔

اسی مہاراشٹرا میں ایک مسلم روزہ دار کو کیمرہ کے سامنے چپاتی کھلا کر روزہ توڑنے کے لئے زبردستی کی گئی تو یہ واقعہ اور منظر دیکھ کر مسلمان چُپ ہوگئے ہیں، اُف تک نہیں کی اور نہ کوئی احتجاج کیا ، پارلیمنٹ میں جو آواز اُٹھائی گئی وہ سراسر سیاسی مفاد پرستی تھی تاہم ایوان میں اس مسئلہ کی گونج ضرور سنی گئی ہے جس سے حکومت اور نظم و نسق کی توجہ مبذول ہوسکے۔ روزہ توڑانے اور روزہ کھلوانے کے لئے ترتیب دی جانے والی افطار پارٹیوں کی خبروں کے درمیان یہ خبریں توجہ کا باعث بن گئی ہیں کہ گورنر ای ایس ایل نرسمہن کی دعوت افطار میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے شرکت نہیں کی۔ ان کی عدم شرکت کی وجہ کیا ہے یہ وہی جانتے ہیں مگر انہوں نے اپنی جانب سے مسلمانوں کیلئے ہائی ٹیکس میں دعوت افطار کا اہتمام کیا تھا اور اس میں ان کی شرکت بھی نیم دلانہ دکھائی دی، وہ اپنے ڈپٹی چیف منسٹر محمود علی پرکسی قدر برہم دکھائی دے رہے تھے۔

گورنر کی افطار پارٹی میں ان کی عدم شرکت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جارہا ہے کہ وہ بھیڑ بھاڑ سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ خاص کر ایسے وقت جہاں دیگر پارٹیوں کے قائدین کی اکثریت ہوتی ہے۔ گورنر کی افطار پارٹی میں آندھرا پردیش کے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو کو محفل کا نور نظر کہا گیا۔ انہوں نے ساری محفل کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے ہر ایک سے ملاقات کی۔ ٹی آر ایس کے قائدین سے گرمجوشی سے ملاقات سے یہ ظاہر ہورہا تھا کہ وہ تلنگانہ حکومت سے دوستانہ تعلقات کو ترجیح دینا چاہتے ہیں۔اب عید ملاپ پارٹیوں میں دیکھیں گے کہ کون کس سے دوستانہ تعلقات کو دعوت دینے خیرسگالی جذبہ کا مظاہرہ کرتا ہے۔
kbaig92gmail.com