حکومت پاکستان اور طالبان کمیٹی کے مذاکرات

اسلام آباد ۔ 6 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) ابتدائی رکاوٹوں کے بعد پاکستان کے سرکاری مذاکرات کاروں اور طالبان کی نامزد کمیٹی کا اجلاس آج نامعلوم مقام پر منعقد ہوا تاکہ مذاکرات کا لائحہ عمل تیار کیا جاسکے جس کا مقصد ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ اور امن کی بحالی ہے۔ حکومت کی چار رکنی کمیٹی کے رابطہ کار سینئر صحافی عرفان صدیقی نے کہا کہ کمیٹی ممنوعہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کھلے ذہن سے مذاکرات کرے گی۔ قبل ازیں سرکاری مذاکرات کار اسلام آباد میں اپنا ایک اجلاس منعقد کرکے مذاکرات کے آغاز اور اس کی پیشرفت کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرچکے ہیں۔ طالبان کی نامزد کمیٹی اور سرکاری مذاکرات کاروں کا اجلاس ابتداء میں 4 فبروری کو مقرر تھا لیکن اسے ملتوی کردیا گیا جبکہ سرکاری کمیٹی نے بعض غیرواضح مسائل کے بارے میں وضاحت طلب کی۔ طالبان کی کمیٹی سمیع الحق بنیاد پرست عالم دین جنہیں بابائے طالبان کہا جاتا ہے، جماعت اسلامی کے قائد ابراہیم خان اور لال مسجد کے بنیاد پرست عالم دین عبدالعزیز پر مشتمل ہے۔ قبل ازیں عبدالعزیز نے کہا تھا کہ طالبان اپنے نامزد ارکان کے ساتھ ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی وزیرستان کا دورہ کرنے پر غور کررہی ہے تاکہ طالبان کو پشاور کے قریب ایک مقام پر اجلاس کیلئے طلب کیا جاسکے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ وہ طالبان سے ان کے مطالبات تحریری طور پر بھی طلب کرسکتے ہیں۔ تاہم قطعی فیصلہ سرکاری کمیٹی سے ملاقات کے بعد ہی کیا جائے گا۔

سرکاری مذاکرات کاروں نے صدیقی، سابق سفیر رستم شاہ مہمند، صحافی رحیم اللہ یوسف زئی اور سابق آئی ایس آئی عہدیدار ریٹائرڈ میجر محمد امیر شامل ہیں۔ دریں اثناء عالم دین سمیع الحق نے وزیرداخلہ پاکستان چودھری نثار علی خان سے ٹیلیفون پر ملک میں امن کی بحالی کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے حکومت سے کہا کہ بات چیت کا عمل شروع کیا جائے اور صورتحال کو معمول پر لانے کی خواہش ہونے پر مذاکرات پرخلوص ہونا چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک اور حکومت مذاکرات کی کامیابی کیلئے دعاگو ہے۔ حکومت بات چیت کیلئے اپنی کمیٹی کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی۔ حق نے مذاکرات کے فروغ میں خان کے کردار کی ستائش کی اور امید ظاہر کی کہ مذاکرات کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔