حکومت سے محکمہ اقلیتی بہبود کو بجٹ عدم اجرائی کا شاخسانہ

دیڑھ لاکھ درخواست گزار سبسیڈی اسکیم کے استفادہ سے محروم
حیدرآباد۔یکم ڈسمبر، ( سیاست نیوز) تلنگانہ حکومت کی جانب سے اقلیتی بہبود کے بجٹ کی عدم اجرائی کے سبب بینکوں سے مربوط سبسیڈی اسکیم میں تقریباً دیڑھ لاکھ درخواست گذار اسکیم سے استفادہ سے محروم ہوگئے۔ حکومت نے جاریہ سال سبسیڈی اسکیم میں ترمیم کرتے ہوئے 5 لاکھ روپئے تک کی سبسیڈی فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس اسکیم کیلئے ایک لاکھ 53 ہزار 906 درخواستیں داخل کی گئیں۔ حکومت نے اسکیم کیلئے بجٹ میں 150کروڑ روپئے مختص کئے تھے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 75 کروڑ روپئے جاری کئے گئے اور اقلیتی فینانس کارپوریشن نے 34 کروڑ 50 لاکھ روپئے خرچ کئے ہیں۔ 40کروڑ 50 لاکھ کی اجرائی ابھی محکمہ فینانس اور ٹریژری میں زیر التواء ہیں۔ ایک طرف اقلیتی فینانس کارپوریشن کو سبسیڈی کی فراہمی کیلئے 8153 امیدواروں کا نشانہ مقرر کیا گیا لیکن دیڑھ لاکھ سے زائد درخواستیں حاصل کی گئیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ کارپوریشن کے نشانہ میں اضافہ کیا جاتا۔ کارپوریشن کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ابھی تک 2861 امیدواروں کو 23کروڑ 29 لاکھ کی سبسیڈی جاری کی جاچکی ہے۔ یہ سبسیڈی 2 لاکھ روپئے تک کے قرض پر فراہم کی گئی ہے۔ ایک طرف کارپوریشن کا یہ دعویٰ خود اپنے میں تنازعہ کا باعث ہے کیونکہ درخواست گذاروں کے انتخاب کے سلسلہ میں کارپوریشن نے کبھی بھی طریقہ کار کا اعلان نہیں کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اندرونی طور پر مقرر فوائد کے بغیر امیدواروں کا انتخاب کرلیا گیا اور اس معاملہ میں کئی بے قاعدگیاںکی گئیں۔ ہزاروں درخواست گذار سبسیڈی کے بارے میں کارپوریشن کے چکر کاٹ کر تھک چکے ہیں لیکن وہاں کوئی ان کی رہنمائی کرنے والا موجود نہیں ہے۔ کارپوریشن نے جاریہ سال 34 کروڑ 50 لاکھ روپئے جو خرچ کئے ہیں اس کی تفصیلات ضلع واری سطح پر جاری کی جانی چاہیئے۔ 2861 امیدواروں کو سبسیڈی کی اجرائی کا دعویٰ تو ہے لیکن اس میں بھی ضلع واری سطح پر منتخب کئے گئے امیدواروں کی تعداد اور فہرست جاری کرنے سے گریز کیا جارہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پروسیڈنگ لیٹرس کی اجرائی کے نام پر امیدواروں سے ہزاروں روپئے حاصل کئے گئے۔ اس طرح سبسیڈی اسکیم میں بے قاعدگیوں کی جانچ کی ضرورت ہے۔ حکومت کی جانب سے جب بجٹ جاری نہیں کیا گیا تو پھر کارپوریشن نے کم نشانہ کے ساتھ کیوں دیڑھ لاکھ سے زائد درخواستیں قبول کی ہیں۔ درخواست گذار اس بات پر سخت ناراض ہیں کہ ان کی جانب سے اندرون 2 لاکھ قرض کی درخواست کے باوجود انہیں منتخب نہیں کیا گیا۔جاریہ سال دیگر اقلیتی اسکیمات کی طرح اقلیتی فینانس کارپوریشن کی اسکیمات بھی عملاً ٹھپ ہوچکی ہیں۔ اسکیمات کے سلسلہ میں عوام دفتر سے رجوع ہورہے ہیں لیکن وہاں اعلیٰ عہدیدار دستیاب نہیں کیونکہ انہیں اقامتی اسکولس کی اہم ذمہ داری دی گئی ہے۔ منیجنگ ڈائرکٹر کارپوریشن کو اسکول سوسائٹی کی ذمہ داری دیئے جانے سے کارپوریشن کی اسکیمات پر مناسب وقت دینے سے قاصر ہیں۔ اس کے علاوہ کارپوریشن کے بعض دیگر عہدیداروں کو بھی اسکول سوسائٹی میں مصروف کردیا گیا ہے جس سے اقلیتی فینانس کارپوریشن کی سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کارپوریشن کے احاطہ میں موجود اسکول سوسائٹی کا دفتر بنجارہ ہلز منتقل ہونے کے باوجود کارپوریشن کے اُمور میں غیر متعلقہ افراد کی سرگرمیاں ابھی بھی جاری ہیں۔ اعلیٰ عہدیداروں کی سرپرستی میں نہ صرف غیر متعلقہ افراد کارپوریشن کی مراعات سے استفادہ کررہے ہیں بلکہ ایک ریٹائرڈ شخص کو ابھی بھی کارپوریشن میں چیمبر برقرار رکھا گیا اور وہ کارپوریشن کی کار اپنے زیر استعمال رکھے ہوئے ہے جو کہ قواعد کی صریح خلاف ورزی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ ریٹائر ڈ عہدیدار کے خلاف سی بی سی آئی ڈی کی رپورٹ کو بھی نظر انداز کردیا گیا اور کارروائی کرنے کے بجائے دوبارہ تقرر کردیا گیا۔ اگر اعلیٰ عہدیدار اداروں میں موجود بدعنوان افراد کی سرپرستی جاری رکھیں گے تو اس سے نہ صرف دیگر عہدیداروں اور ملازمین پر اثر پڑے گا بلکہ کارکردگی متاثر ہوگی۔ اس سلسلہ میں ایک مقدمہ لوک آیوکت میں بھی دائر کیا جاچکا ہے۔