حوض کی لمبائی اور چوڑائی

سوال : ایک مسجد کا حوض انیس (19) ذراع لانبا ہے تو اس کی چوڑائی کتنی ہونی چاہئے تاکہ حوض کا پانی دہ در دہ ہوجائے ؟
عبدالاحد، ٹولی چوکی
جواب : صورت مسئول عنہا میں لانبائی انیس (19) ذراع ہے تو اس حوض کی چوڑائی ساڑھے پانچ ذراع رکھی جائے تو یہ حوض دہ در دہ ہوجائے گا۔ فتاوی تاتار خانیہ جلد اول ص : 169 میں ہے ۔ وعامۃ المشایخ أخذ وا بقول أبی سلیمان و قالوا اذا کان عشرا فی عشر فھو کثیر ، وفی شرح الطحاوی و علیہ الفتوی اور ص : 172 میں ہے ۔ ان کان عرضہ ذرا عایجب أن یکون طولہ مائۃ ذراع حتی یصیر فی معنی عشر فی عشر ، وان کان عرضہ ذرا عین یجب ان یکون طولہ خمسین ذراعا ۔ اور در مختار بر حاشیہ رد المحتار جلد اول ص : 142 میں ہے ۔ ولولہ طول لا عرض لکنہ یبلغ عشرا فی عشر جاز تیسرا اور ردالمحتار میں ہے (قولہ لکنہ یبلغ الخ) کان یکون طولہ خمسین و عرضہ ذرا عین مثلا فانہ لو ربع صار عشرا فی عشر۔

دو بیویوں کے درمیان باری تقسیم
سوال : میں نے دو شادیاں کیں اور دونوں بیویوں سے اولاد ہوئی، میں نے بلا لحاظ سب کو اچھا پڑھایا اور ان کی شادیاں کردیں، پہلی بیوی کے دو لڑکے اپنی ماں کے ساتھ رہتے ہیں، دوسری بیوی کا ایک لڑکا اپنی ماں کے ساتھ رہتا ہے ۔ میں نے بڑی مشکل سے دو بیویوں کے درمیان زندگی بسر کی ہے ۔ اب ساری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوگیا ہوں۔ اب میں مہینے میں چار پانچ روز اپنے آبائی مکان میں اپنے بھائی بہنوں اوران کی اولاد کے ساتھ رہتا ہوں۔ میری بھی جائیداد مشترکہ ہے اور شہر میں دو مکانات ہیں جس میں دو بیویوں کو علحدہ رکھا ہوں۔ اب دونوں بیویوں کا تقاضہ ہے کہ آپ وہاں اکیلے نہیں رہ سکتے ۔ ہم کو یہاں چھوڑ کر ایک ایک ہفتہ رہنا غلط ہے۔ کیا شریعت میں میرا یہ عمل درست نہیں ہے ؟ کیا مجھے اپنے ہی گھر میں اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ رہنے کا حق نہیں ؟ جبکہ میں ان دونوں سے کہتا ہوں کہ تم بھی آکر رہو تو وہ آنے تیار نہیں ہوتے۔
براہ کرم شریعت کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں ؟
نعمان حکیم، دبیر پورہ
جواب : شرعاً دو بیویوں کے درمیان باری باری سے رہنا لازم ہے۔ اگر ایک رات ایک بیوی کے پاس رہے تو دوسری شب دوسری بیوی کے پاس گزارنا لازم ہے۔ تاہم ہمیشہ ہر رات کسی ایک کے پاس رہنا ضروری نہیں۔ اگر وہ کچھ راتیں تنہائی یا کسی دوسرے کام میں یا کسی دوسرے مقام اپنے عزیز و اقارب کے پاس رہنا چاہتا ہے تو شرعاً منع نہیں ہے۔ رد المحتار جلد 3 کتاب النکاح باب القسم ص : 229 میں ہے : اللازم انہ اذا بات عند واحدۃ لیلۃ یبیت عندالا خری کذلک لا نہ یجب ان یبیت عند واحد منھمادائما فانہ لو ترک المبیت عندالکل بعض اللیالی وانفرد لم یمنع من ذلک اھ ۔ یعنی بعد تمام دورھن سواء انفرد بنفسہ او مع جواریہ فافھم۔
پس صورت مسئول عنہا میں اگر آپ مہینے میں چار پانچ دن اپنے آبائی مکان میں اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو شرعاً اس میں کوئی ممانعت نہیں۔

کرسی پر نماز پڑھنے والے صف کے درمیان پڑھیں یا کنارہ پر
سوال : فرض نمازوں کی ادائیگی کیلئے صفوں کو درست کرنے کی سخت تاکید ہے، اسی طرح سے مونڈھے سے مونڈھا ملاکر دیوار کی طرح صفوں کو درست کرنے کی تاکید کی گئی تاکہ درمیان میں جگہ خالی نہ رہے۔ موجودہ حالات میں مساجد میں کرسیوں کا انتظام کیا گیا ہے تاکہ ضعیف ، معذور، بیمار مصلیوں کو نماز ادا کرنے میں سہولت ہو، دیکھا یہ جارہا ہے کہ اگر یہ حضرات کرسیاں لیکر صف میں جہاں جگہ خالی ہو شریک ہوکر نماز ادا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے خالی جگہ چھوٹ رہی ہے۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ کرسیوں پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے حضرات صف میں کہاں نماز ادا کریں جہاں جگہ خالی ہو وہاں پڑھیں یا صف کے کنارہ پر پڑھیں۔
اضغر علی ، ملے پلی

جواب : حیدرآباد اور مضافات میں کرسیوں پر نماز پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتے جارہا ہے، اس کی وجہ سے بعض شکوک و شبہات بھی پیدا ہورہے ہیں۔
پس دریافت شدہ مسئلہ میں شرعاً معذور (جس کو عذر لاحق ہو) کو بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے ۔ ازروئے شرع معذور اور غیر معذور شخص کے لئے صف میں کوئی جگہ مختص نہیں ہے ۔ سب یکساں صف میں نماز پڑھیں گے ۔ کرسی پر نماز پڑھنے کی وجہ مونڈھے سے مونڈھا نہ ملنے اور صف میں اتصال باقی نہیں رہنے کا اندیشہ ہورہا ہے تو اس کے لئے بہتر صورت یہی ہے کہ مسجد میں اتنے حضرات ہوں کہ جن سے صف پوری ہوجاسکتی ہے ۔ ضعیف و معذور اصحاب کو چاہئے کہ وہ درمیان صف پڑھنے کے بجائے کنارہ پر نماز پڑھ لیں اور اگر اقامت کے وقت اتنے لوگ نہ ہوں جن سے صف مکمل ہوتی ہو تو ایسے وقت ضعیف و معذور اصحاب صف جہاں ختم ہورہی ہے وہاں کھڑے ہوجائیں۔ بعد میں آنے والے حضرات ان کے بازو نماز ادا کر یں گے، اس کی وجہ سے صف میں اتصال نہ ہونے کا اندیشہ نہ کیا جائے کیونکہ یہاں عذر ہے، عمداً جگہ نہیں چھوڑی جارہی ہے ۔ نیز ہر حال میں ضعیف اور معذور حضرات کو صف کے کنارے پر نماز ادا کرنے کیلئے کہا جائے تو بسا اوقات صف مکمل نہیں ہوتی اور درمیان میں جگہ خالی رہ جائے گی جو مناسب نہیں ہے اور اقامت وقت اتنے افراد ہوں جن سے صف مکمل ہوسکتی ہو تو ایسے وقت ضعیف معذور اصحاب کا درمیان صف نماز پڑھنے پر اصرار کرنا مناسب حال نہیں۔
معذور کا وضو اور نماز
سوال : جب نماز کا وقت شروع ہوتا ہے اور میں وضو بناتی ہوں تو وضو کے دوران مجھے (ریاح) گیس خارج ہونے لگتے ہیں پھر شروع سے وضو کرنا پڑتا ہے اور وضو بناکر نماز کیلئے کھڑی ہوتی ہوں ایک یا دو رکعتوں کے بعد پھر گیسیس خارج ہوکر وضو ٹوٹ جاتا ہے پھر نماز کے درمیان سے اٹھ کر وضو بنانا پڑتا ہے اور باقی دورکعت مکمل کرنا پڑتا ہے اسی طرح نماز کے دوران تین تا چار مرتبہ وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اکثر فجر کی نماز میں مجھے ڈر رہتا ہے کہ بار بار وضو بنانے میں کہیں فجر کی نماز کا وقت ختم نہ ہوجائے۔برائے کرم شرعی حل بتلائیں۔
نصرت بیگم، شبلی گنج
جواب : ایسا شخص جسے شرعی عذر لاحق ہو یعنی وہ اس عذر کی وجہ سے اپنی نماز مکمل نہ کرسکتا ہو اور دوران نماز وضو ٹوٹ جاتا ہو تو شرعاً ایسے شحص کو معذور کہتے ہیں۔ مستحاضہ اور ایسا شخص جس کو پیشاب کے خطرے مسلسل ٹپکتے ہوں یا وہ شخص جسے خروج ریح کی بیماری ہو شرعاً معذور ہے ۔ معذور کے لئے شریعت اسلامیہ میں یہ سہولت ہے کہ وہ ہر نماز کے وقت پر وضو بنالیں اور اپنی فرض نماز کے علاوہ جتنی چاہیں نفل نمازیں تلاوت قرآن وغیرہ پڑھ لیں اس درمیان اگر عذر لاحق ہو بھی جائے تو اسے وضو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ اگر اس نماز کا وقت ختم ہوجائے اور دوسری نماز کا وقت شروع ہوجائے تو اسے دوبارہ نیا وضو بنانا ہوگا۔لقولہ علیہ السلام الوضوء عند کل صلواۃ (ابو داؤد ح : 297 ج 1 ص : 135 )

سلام کے بجائے قدمبوسی کہنا
سوال : بعض لوگ ’’ السلام علیکم‘‘ کہتے ہیں اور بعض ’’ سلام علیکم‘‘ کہتے ہیں۔ دونوں میں صحیح طریقہ کیا ہے اور اکثر حضرات بڑوں کو آداب ، قدمبوسی کہتے ہیں تو شریعت میں اس کا کیا حکم ہے اور اگر اس طرح نہ کہا جائے تو بڑے حضرات بسا اوقات ناراضگی اور خفگی کا بھی اظہار کرتے ہیں۔ شرعاً کیا حکم ہے ؟
ابراہیم خان، قاضی پورہ
جواب : ’’السلام علیکم‘‘ الف لام کیساتھ کہنا بہتر ہے ۔ اور بغیر الف لام کے تنوین کے ساتھ ’’ سلام علیکم‘‘ کہنا بھی درست ہے ۔ آداب اور قدمبوسی کہنے سے مسنون سلام ادا نہیں ہوتا ۔ کنزالعباد صفحہ 349 میں ہے : فی الظھیریۃ و لفظتہ السلام فی المواضع کلھا ’’ السلام علیکم‘‘ لا یکفی سلاما۔ عالمگیری جلد 5 صفحہ 325 کتاب میں ہے : ولو قال المبتدی ’’ سلام علیکم ‘‘ او قال ’’السلام علیکم ‘‘ فللمجیب ان یقول فی الصور تین سلام علیکم ولہ ان یقول السلام علیکم ولکن الالف والارم اولی کذا فی التاتارخانیۃ۔

صبح سویرے اٹھنا
سوال : مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ مسلم نوجوان کاہل و سست ہوگئے ہیں، وہ رات دیر گئے دوست و احباب کے ساتھ گفتگو کرتے رہتے ہیں، دیر سے سوتے ہیں، نتیجے میں دیر سے اٹھتے ہیں، کئی نوجوان لڑکے تعلیم یافتہ ہیں، کمانے کے قابل ہیں لیکن وہ سستی و عفلت میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں ، کماتے دھماتے نہیں، دکان عموماً دیر سے کھولتے ہیں، آپ سے گزارش ہے کہ اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رہنمایانہ ارشادات سے رہبری فرمائیں۔
حافظ عبدالباسط، ملک پیٹ
جواب : صبح سویرے جلد اٹھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا اور صبح خیزی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو پسند ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح سویرے اٹھنے والوں کے حق میں دعاء خیر فرمائی ہے۔ ’’ اے اللہ ! میری امت کو صبح کے اٹھنے میں برکت دے ‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ رزق کی تقسیم صبح سویرے ہوتی ہے۔ حضرت صخر ایک تجارت پیشہ صحابی تھے ، وہ ہمیشہ اپنا سامان تجارت صبح سویرے روانہ کرتے اور فرماتے ہیں کہ اس کی برکت سے مال کی اتنی کثرت ہے کہ رکھنے کو جگہ نہیں ملتی۔ (ابو داود، 3 ، 8 ، کتاب الجہاد 26-6 ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات صبح سویرے ہی لشکر روانہ فرماتے اور سفر بھی و دیگر اہم کاموں کو رات کے آخری حصے میں انجام دینے کی ترغیب فرماتے۔
لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ فجر کی نماز کے ساتھ ہی اپنے کام و کاج کاروبار و تجارت و دیگر اہم امور کی انجام دہی میں مشغول ہوجائیں۔ رات میں زیادہ دیر تک بلا وجہ جاگنا پسندیدہ نہیں ہے، اس سے فجر کی نماز جو کہ فرض ہے چھوٹ جانے کا ندیشہ رہتا ہے اور رزق کی تقسیم کے وقت وہ خواب غفلت میں رہتا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں جلد سونے اور صبح جلد اٹھنے کی ترغیب دی ہے اور بعد نماز عشاء باہمی گفتگو و قصہ گوئی سے منع فرمایا ۔ پس فجر کی نماز ترک کرنا اور صبح دیر گئے تک سونا منحوسی ہے۔

سکرات میں تلقین
سوال : جو لوگ سکرات میں ہوتے ہیں‘ ان کو کلمہ کی تلقین کی جاتی ہے ۔ شریعت میں تلقین کا کیا حکم ہے اور اس کا فائدہ کیا ہے ؟ اگر شریعت میں اس کی کوئی فضیلت آئی ہے تو بیان کریں؟ حافظ یسین شریف، فلک نما
جواب : آخرت میں کامیابی و سعادتمندی کا دارومدار صرف اور صرف خاتمہ بالخیر پر ہے ۔ جن کا خاتمہ ایمان پر ہو وہی شحص کا میاب و کامران ہے ۔ اس لئے شریعت مطھرہ میں جو شخص قریب الموت ہو اس کو ’’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کی تلقین کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ حکم مستحب ہے ۔ ردالمحتار ج : 2 ص : 78 میں ہے : لکنہ تجوز لما فی الدرایۃ من أنہ مستحب بالا جماع۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لقنوا موتاکم لا الہ الا اللہ فانہ لیس مسلم یقولھا عندالموت الا انجتہ من النار‘‘ یعنی تم قریب الموت افراد کو ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کی تلقین کرو کیونکہ جو کوئی مومن موت کے وقت یہ کلمہ پڑھتا ہے۔ وہ دوزخ سے نجات پاجاتا ہے ۔ نیز آپ کا ارشاد گرامی ہے : من کان آخر کلامہ لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ ‘ ‘ یعنی جس کا آخری کلام ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ (کوئی معبود نہیں ہے سوائے اللہ کے) وہ جنت میں داخل ہوگا (ابو داؤد) اس لئے تلقین کرنا پسندیدہ ہے۔