حمایت اللہ صاحب کی یاد میں

میرا کالم                    سید امتیاز الدین
وہ خبر جس کا پچھلے دو تین برسوں سے کھٹکا سا لگا ہوا تھا کل بالآخر سننے میں آگئی ۔ سب کو ہنسانے والے حمایت بھائی اپنے بے شمار مداحوں کو نم دیدہ چھوڑ کر رخصت ہوگئے۔ آج سے کم و بیش دو مہینے پہلے ادارہ ’سیاست‘ نے ایک کتاب’’ نذرِ حمایت اللہ ‘‘ شائع کی تھی جس میں کئی اہلِ قلم نے حمایت اللہ صاحب کے تعلق سے اپنے مضامین قلمبند کئے تھے۔ کتاب میں طنز و مزاح کی اس مایہ ناز شخصیت کو روزنامہ ’سیاست‘ کی جانب سے بھرپور خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔ حمایت بھائی کی دگرگوں صحت کے پیش نظر کتاب کی رسم اجراء حمایت اللہ صاحب کی رہائش گاہ گارڈن ٹاورس کے ایک ہال میں رکھی گئی تھی۔ چونکہ ہال مختصر تھا اس لیے اس تقریب کی زیادہ تشہیر نہیں کی گئی پھر بھی کئی لوگ جلسے میں آگئے تھے۔ تقریب کی صدارت جناب زاہد علی خان ایڈیٹر ’سیاست‘ نے کی تھی۔ اس خوشگوار تقریب کا افسوسناک پہلو یہ تھا کہ حمایت بھائی کو اُن کے فلیٹ سے چار پانچ لوگوں کی مدد سے وھیل چیر پر لایا گیا تھا۔
مقررین نے حمایت اللہ صاحب کے فن اور شخصیت اور اُن کے کارناموں پر اُنھیں خراجِ تحسین پیش کیا لیکن اس پوری تقریب میں یہ بے مثال فنکار بالکل خاموش بیٹھا رہا۔ حاضرین جلسہ نے اُسی وقت محسوس کرلیا کہ حمایت اللہ کی زندگی سے زندگی رخصت ہوچکی ہے۔ زاہد علی خاں صاحب نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ طنز و مزاح کے اپنے طویل اور کامیاب سفر میں حمایت اللہ نے کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ خود اپنے خاندان کی مثال پیش کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا تھا کہ عابد علی خاں صاحب مرحوم سے لے کر عامر علی خاں تک سب حمایت اللہ کے مداحوں میں شامل رہے ہیں۔ اُنھوںنے جلسے کے آخر میں یہ قرارداد بھی پیش کی کہ اس عظیم فنکار کی طویل خدمات اور غیر معمولی صلاحیتوں کے اعتراف میں حکومت اُنھیں مناسب اور شایان شان اعزاز سے نوازے۔ اُنھوں نے کہا کہ تلنگانہ تحریک کے اولین مجاہد کی حیثیت سے بھی حمایت اللہ کی اہمیت مسلّم ہے کیونکہ 1969 میں ہی انھوں نے ایک نظم ’ تلنگانہ ‘ لکھی تھی ’’ تن دانا تانا تانا، وی وانٹ تلنگانہ ‘‘ اور علی الاعلان پڑھا تھا۔ زاہد علی خاں صاحب کی اس تجویز کو اُسی وقت ایک تحریری قرارداد کی شکل میں منظور کیا گیا۔ اگرچہ کہ حمایت اللہ اب تمام اعزازات سے بالاتر ہوچکے ہیں لیکن آج اُن کو طنز و مزاح کے بڑے سے بڑے اعزاز سے نوازنا عوام اور حکومت دونوں کے لیے اعزاز کی بات ہوگی۔ ’’ نذرِ حمایت اللہ ‘‘ کی اشاعت اور رسم اجراء کی تقریب کے اختصار میں اُن کے مخلص ترین دوست اور نامور طنز و مزاح نگار مجتبیٰ حسین صاحب نے جو دلچسپی دکھائی اور ہمہ تن مصروف رہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔

عام طور پر ایسے موقعوں پر سوانحی حالات اور کارناموں کا خاکہ بھی دیا جاتا ہے لیکن میرے خیالات اتنے منتشر ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا لکھوں۔ حمایت اللہ صاحب کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ میرے بچپن کی اولین یادوں میں سے ایک ہیں۔ میرا مکان بھی ملے پلی میں تھا اور حمایت بھائی بھی ملے پلی میں رہتے تھے۔ میں اسکول کے دنوں میں ہر روز اُن کے مکان کے سامنے سے گزرتا تھا۔ اُن کے مکان کے سامنے تعمیراتی سامان، لاری، سمنٹ اور ریتی کا مکسر اور مزدور وغیرہ دکھائی دیتے تھے۔ ایک بہت دراز قد صاحب لوگوں سے محو گفتگو رہتے تھے۔ مجھے یوں لگتا جیسے تمام لوگ مختلف مسائل اُن سے رجوع کرتے ہیں اور وہ ہر مسئلہ کو ہلکا پھلکا لطیفہ بناکر حل کردیتے ہیں۔ میرے بڑے بھائی شاذ تمکنت ؔ نے مجھے بتایا کہ ان صاحب کا نام حمایت اللہ ہے اور وہ بہت اچھے مزاحیہ فنکار ہیں اور لوگ اُن کے نام سے زیادہ اُن کی عرفیت سے جانتے ہیں۔ ریڈیو اور اسٹیج پر اُن کے پروگرام ہوتے ہیں۔ مجھے یہ جان کر اور بھی تعجب ہوا کہ ایسے دراز قامت شخص کی عرفیت ’چنو میاں‘ ہے۔ بعد میں میں نے ان کے کئی دلچسپ پروگرام ریڈیو پر سنے۔
صنعتی نمائش کے دنوں میں جب ہم ٹکٹ لے کر داخل ہوتے تو سب سے پہلے جو آواز سنائی دیتی تھی وہ حمایت اللہ کی ہوتی تھی۔ مجھے حیرت ہوتی تھی کہ وہ ہر روز کیسے نئے نئے پروگرام پیش کرتے ہیں۔ اکثر دلچسپ تشہیری پروگرام اسٹال ہولڈرس کی مصنوعات کے تعلق سے ہوتے تھے۔ پتہ نہیں کس طرح حمایت بھائی زندہ طلسمات اور منجنِ فاروقی سے لے کر حمیدی کنفکشنرس تک بے شمار چیزوں کے بارے میں مزاحیہ پروگرام فی البدیہہ پیش کردیتے تھے۔ بعض لوگ لطیفوں کی مدد سے ہنساتے ہیں لیکن حمایت بھائی سچویشن ہی ایسی پیدا کرتے تھے کہ سننے والے بے ساختہ ہنس پڑتے تھے۔ حمایت بھائی کے مزاج میں سادگی اور انکساری بہت تھی۔ ایک بار مجھے اُن کے ساتھ گلبرگہ جانے کا اتفاق ہوا۔ حمایت بھائی کے بارے میں اندازہ ہوا کہ وہ صرف ہنسنے ہنسانے کی باتیں ہی نہیں کرتے بلکہ موقع محل کی مناسبت سے خود بھی ذمہ دارانہ کردار نبھاتے تھے اور دوسروں کو بھی ڈسپلن کا پابند کرتے تھے۔

حمایت اللہ ڈرامہ نویس بھی تھے، ہدایت کار بھی، اداکار اور باکمال شاعر بھی۔ حیدرآباد میں بولی جانے والی ٹھیٹ دکنی زبان کو پورے ملک بلکہ یورپ اور امریکہ میں مقبول بنانے میں اُن کو جو بے مثال کامیابی ملی اُس کے سب قائل ہیں۔ اُن کا ڈرامہ ’’ چھوٹے نواب ‘‘ کہاں کہاں پیش ہوا اور کتنا کامیاب ہوا سب جانتے ہیں۔ یہ ڈرامہ نہ صرف طنز و مزاح کا بہترین نمونہ ہے بلکہ اس ڈرامہ میں مٹتے ہوئے جاگیردارانہ نظام، نوابوں اور دیوڑھیوں کے ماحول کا اتنی عمدگی سے جائزہ لیا گیا ہے لگتا ہے کہ تمثیل کے ذریعے عہدِ گزشتہ کی جیتی جاگتی تصویر پیش کی گئی ہے۔
حمایت اللہ صاحب کی ماہرانہ اداکاری صرف محنت اور مشقت کا نتیجہ نہیں تھی، اُن کی کامیابی کا راز اُن کی فطری صلاحیت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے لاجواب ڈراموں کی پیشکشی کے لیے اُن کو دو مرتبہ لندن بلایا گیا اور اُن کے ڈرامے کئی دن تک تھیٹر میں کامیابی سے چلتے رہے۔ دہلی دوردرشن، حیدرآباد دوردرشن، زی ٹی وی، سونی ٹی وی، بمبئی دوردرشن، ای ٹی وی اردو سے حمایت بھائی نے قہقہہ انگیز ڈرامے پیش کئے جو بے حد مقبول ہوئے۔ اُنھوں  نے بی بی سی لندن سے بھی اپنا پروگرام پیش کیا جو خود ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ فائن آرٹس اکیڈیمی کا قیام حمایت بھائی کا بہت بڑا کارنامہ تھا۔ اُنھوں نے اور اُن کے ساتھیوں نے حیدرآباد کی افسردہ فضاء میں مسکراہٹیں اور قہقہے بکھیردیئے۔ فائن آرٹس اکیڈیمی کے ارکان عاملہ نے اکیڈیمی کو عوامی سطح سے قریب تر کرنے کے لیے ’’ زندہ دلانِ حیدرآباد‘‘ کی بنیاد ڈالی جس کی سرگرمیاں آج بھی جاری ہیں۔ اس انجمن کو ہندوستان گیر پیمانے پر فعال بنانے میں حمایت اللہ کا نام بہت اہم ہے۔ 1966 میں مجتبیٰ حسین کی تحریک پر طنز و مزاح نگاروں کی کُل ہند کانفرنس حیدرآباد میں ہوئی۔ حمایت بھائی نے اس کانفرنس میں اہم رول ادا کیا۔
حمایت بھائی کی ہمہ جہت خوبیوں میں ایک اہم ترین خوبی اُن کی دکھنی شاعری ہے۔ اُن کی شاعری کی مقبولیت حیدرآباد یا ملک کے مختلف شہروں تک محدود نہیں رہی بلکہ حمایت اللہ کو انگلستان، امریکہ اور کنیڈا بھی لے گئی جہاں اُن کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ حمایت اللہ سعودی عرب، کویت، یو اے ای، پاکستان، قطر اور مسقط میں بھی بہت کامیاب رہے۔
حمایت بھائی نے طنز و مزاح کے میدان میں نام پیدا کیا۔ اُن کا خاندان کئی برسوں سے فوج کی ملازمت کرتا رہا تھا۔ حمایت اللہ نے فوج کی ملازمت نہیں کی لیکن اُن کے اندر ہمیشہ ایک فوجی رہا جس نے سماج کے کمزور طبقے کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ حمایت بھائی نے شاعری کے ذریعے، ڈراموں کے ذریعے انصاف کی سربلندی کا پیام دیا۔ اپنی زندگی کے آخری تین سال یہ مجاہد تنہا اپنی جان لیوا بیماری سے لڑتا رہا۔ بہت کم لوگوں نے اُس کی پُرسشِ حال کی زحمت کی۔ حمایت اللہ مزاجاً بے نیاز تھے۔ اُنھوں نے شکایت کرنا سیکھا ہی نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ حمایت اللہ جیسے باصلاحیت فنکار برسوں میں کبھی پیدا ہوتے ہیں۔ اُن کا رخصت ہوجانا اسٹیج اور طنز و مزاح کا بہت بڑا نقصان ہے۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں