حلف برداری میں سارک قائدین کو دعوت ’ صحیح وقت پر صحیح فیصلہ ‘ مودی

نئی دہلی ۔ یکم جون ( سیاست ڈاٹ کام ) وزیر اعظم نریندر مودی نے آج کہا کہ انہوں نے اپنی تقریب حلف برداری میں اپنی خارجہ پالیسی کے ایک حصے کے طور پر سارک ممالک کے قائدین کو جو دعوت دی تھی وہ صحیح وقت پر کیا گیا صحیح فیصلہ تھا ۔ انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجہ میں دنیا کو ایک پیام گیا ہے اور دنیا ابھی تک اس پر غور کر رہی ہے ۔ وزارت عظمی کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ بی جے پی ہیڈ کوارٹر کا دورہ کرتے ہوئے نریندر مودی نے واضح کیا کہ عوام کو ان کی حکومت سے کئی امیدیں ہیں

اور یہ ان کا فرض ہے کہ وہ عوامی توقعات کو پورا کرنے کی جدوجہد کرتے رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کو مس تحکم کرنے کی ضرورت ہے جس کے نتیجہ میں ساری دنیا بھی ہندوستان کو دنیا میں اس کی عزت اور مقام دے گی ۔ اس تناطر میں انہوں نے سارک ممالک کے قادئین کو اپنی حلف برداری تقریب میں مدعو کرنے کا حوالہ دیا انہوں نے کہا کہ ساری دنیا کو اس دعوت نامے سے ایک پیام گیا ہے اور دنیا ابھی تک اس تعلق سے تبادلہ خیال کر رہی ہے کہ یہ ہوا کیا ہے اور کس طرح سے ہوا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک صحیح وقت پر صحیحے فیصلہ کیا گیا ہے ۔ وزیر اعظم بی جے پی دفتر میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے ۔ اس موقع پر پارٹی صدر اور وزیر داخلہ مسٹر راج ناتھ سنگھ کے علاوہ کچھ دوسرے قائدین بھی موجود تھے ۔ یہ استدلال پیش کرتے ہوئے کہ ملک کے عوام کانگریس کے ساتھ بیزار ہوچکے تھے اور وہ جان چکے تھے کہ متبادل کے تجربے بھی کارگر ثابت نہیں ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کی یہ اضافی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرے ۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات میں بی جے پی کو جو واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے وہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتی تھی جب تک کشمیر سے کنیا کماری تک جو لہر چلی وہ اگر نہیں چلتی ۔ مودی نے بی جے پی کارکنوں سے کہا کہ اگر حکومت کے کام کاج سے عوام میں یہ تاثر پیدا نہیں ہوا کہ حکومت ان کی فلاح و بہبود کیلئے کام کر رہی ہے تو پھر عوام پارٹی کے ساتھ اپنے روابط ختم کردینگے ۔ انہوں نے انتخابات میں بی جے پی کو قطعی اکثریت حاصل ہوئی ہے اسے اکیسویں صدی کا ٹرننگ پوائنٹ قرار دیا اور کہا کہ تمام روایتی دات پات ‘ مذاہب اور دوسرے سیاسی مساوات کو عوام نے مسترد کردیا ہے اور انہوں ںنے امید اور توقعات کی سیاست کو سب پر ترجیح دی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سماجی سائینسدانوں اور سیاسی مبصرین کو چاہئے کہ وہ ان کی پارٹی کی کامیابی کو برطانیہ میں ٹونی بلئیر کی قیادت میں لیبر پارٹی اور امریکہ میں بارک اوباما کی اولین کامیابی کے طرز پر دیکھیں۔ یہ انتخابات سماجی سائینسدانوں اور سیاسی مبصرین کیلئے بھی ایک چیلنج رہے ہیں۔

اگر قوم میں اس کو مناسب اہمیت دی گئی اور اگر یونیورسٹی آگے آئے تو ہم اس کو ایک دستاویز کی شکل میں تیار کرتے ہوئے دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔ انہوں نے تاہم یہ واضح کیا کہ ہندوستانی عوام عموما تاریخ کے تئیں سنجیدہ نہیں رہے ہیں۔ انہوں نے پارٹی ورکرس کی ستائش کی اور کہا کہ جب اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم بننے کے بعد پہلی مرتبہ بی جے پی کے ہیڈکوارٹرس آئے تھے اس وقت انہیں بے انتہا خوشی محسوس ہوئی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ اس سے کارکنوں کے حوصلے بلندہوتے ہیں ۔