حقیقت کو دبانے کی ناکام کوشش

اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
حقیقت کو دبانے کی ناکام کوشش
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے دادری میں ایک شخص اخلاق احمد کے قتل کے بہیمانہ واقعہ کو ایک چھوٹا واقعہ قرار دینے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے دسہرہ کے موقع پر اپنے روایتی خطاب میں اس واقعہ کا بالواسطہ ذکر کیا اور کہا کہ چھوٹے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے ہندو کلچر کو مسخ نہیں کیا جاسکتا ۔ آر ایس ایس سربراہ نے در اصل اس پست اور متعصب ذہنیت کو چھپانے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجہ میں دادری کا واقعہ پیش آیا ۔ دادری کے واقعہ کو ایک چھوٹا واقعہ قرار دینا خود آر ایس ایس سربراہ کی پست ذہنیت کا ثبوت ہے ۔ دادری میں یقینا ایک شخص ہی کو قتل کیا گیا ہے لیکن اس کے پس پردہ جو ذہنیت کار فرما ہے اور جو منظم منصوبہ ہے وہ چھوٹا نہیں ہوسکتا بلکہ وہ پست ذہنیت اور اوچھی سوچ کا نتیجہ ہے ۔ یہ ایسی سوچ ہے جس سے ہندوستان کا اتحاد خطرہ میں پڑسکتا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں ہندوستان میں عدم رواداری کو فروغ حاصل ہو رہا ہے ۔ ہندوستان ایک کثرت میں وحدت کی مثال رکھنے والا ملک ہے اور ساری دنیا میں اس کو کثرت میں وحدت کی وجہ سے ایک منفرد مقام حاصل ہے اور دادری جیسے واقعات کے نتیجہ میں ہندوستان کی یہ شبیہہ متاثر ہو رہی ہے اور یہ صورتحال ایک چھوٹا واقعہ نہیں ہوسکتی ۔ آر ایس ایس سربراہ نے اس واقعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ہندو کلچر مسخ نہیں ہوسکتا ۔ یہاں سوال ہندو کلچر کا نہیں بلکہ ہندوستان کے کلچر کا ہے جس کی شائد آر ایس ایس سربراہ کو اپنی پست ذہنیت کی وجہ سے کوئی فکر نہیں ہے ۔ ساری دنیا میں اس واقعہ کے نتیجہ میں ہندوستان کی شبیہہ متاثر ہوئی ہے ۔ دنیا بھر کے بڑے بڑے اخبارات میں اس واقعہ کی وجہ سے ہندوستانی کلچر پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔ ہندوستان میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری اور بھائی چارہ کے خاتمہ پر تشویش ظاہر کی گئی ہے لیکن آر ایس ایس سربراہ اس کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں بلکہ وہ دادری واقعہ کو ایک چھوٹا واقعہ قرار دیتے ہوئے ان عناصر کی بالواسطہ طور پر حوصلہ افزائی کررہے ہیں جنہوں نے دادری میں محض بے بنیاد الزام عائد کرتے ہوئے ایک شخص کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے ۔ یہ حوصلہ افزائی مستقبل میں خطرناک ثابت ہوسکتی ہے ۔
جس وقت سے نریند رمودی نے وزارت عظمی کی ذمہ داری سنبھالی ہے ہندوستان میں اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ دادری کے بعد بھی کئی مقامات پر محض گاؤ ذبیحہ کے الزامات پر ملک میں روایتی بھائی چارہ اور رواداری کے ماحول کو بگاڑا جا رہا ہے ۔ ملک کے دو بڑے طبقات کے مابین خلیج میں اضافہ کیا جا رہا ہے ۔ منافرت کا بازار گرم کیا جا رہا ہے ۔ ملک کے امن پسند اور اصول پسند طبقات میں بے چینی پیدا ہو رہی ہے ۔ بے شمار ادیبوں اور قلمکاروں نے اپنے ایوارڈز واپس کردئے ہیں۔ حساس طبعیت رکھنے والے گوشے اس ملک کے مستقبل کے تعلق سے فکرمند ہیں اور اپنی تشویش کا اظہار بھی کر رہے ہیں لیکن آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت اس واقعہ کو ایک چھوٹا سا واقعہ قرار دے رہے ہیں۔ اس واقعہ نے ساری دنیا میں ہندوستان کی شبیہہ متاثر کردی ہے ۔ ملک کے عوام میں ایک دوسرے کے تعلق سے اندیشے پیدا ہونے لگے ہیں ۔ جو طبقات ایک دوسرے کے تہواروں اور عیدوں میں ایک دوسرے کی خوشیاں بانٹتے تھے اب وہ آپس میں دوریاں محسوس کر رہے ہیں اور اسی دوری میں انہیں اپنی سلامتی کا احساس ہونے لگا ہے ۔ ملک کے سکیولر تانے بانے کو خطرات محسوس کئے جا رہے ہیں ۔ یہ صورتحال ایسی نہیں ہے کہ اسے ایک چھوٹا سا واقعہ قرار دیتے ہوئے صرف نظر کیا جائے ۔ یہ تنگ نظری اورتعصب کی بدترین مثال ہے جس کا مظاہرہ آر ایس ایس سربراہ نے دسہرہ کے اپنے روایتی خطاب کے موقع پر کیا ہے ۔ ہر اصول پسند طبقہ اس خیال سے یقینی طور پر اختلاف کرے گا ۔
جہاں تک اس واقعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا الزام ہے وہ بھی غلط ہے کیونکہ یہ شائد پہلا موقع ہے کہ کسی مسلمان کے قتل کے واقعہ کو اتنی اہمیت حاصل ہوئی ہے ۔ ورنہ تو ایسے واقعات کو میڈیا میں منظر عام پر لایا ہی نہیں جاتا ۔ اس بار بھی جو اہمیت دی گئی ہے اس کے بھی سیاسی مقاصد ہوسکتے ہیں لیکن ان مقاصد کے باوجود یہ واقعہ سارے ہندوستان کے سکیولر اور اصول پسند طبقات کو بیدار کرنے کا موجب بنا ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ بلا لحاظ مذہب درجنوں ادیبوں اور قلمکاروں نے بطور احتجاج اپنے ایوارڈز واپس کردئے ہیں۔ اس کے باوجود مرکزی حکومت ایسا لگتا ہے کہ خواب غفلت سے بیدار نہیں ہونا چاہتی اور آر ایس ایس سربراہ بھی اسے چھوٹا واقعہ قرار دے کر حکومت کو ہنوز خواب غفلت ہی میں رکھنا چاہتے ہیں۔