حضور ؐکے دائرہ رحمت میں انسانوں کے ساتھ تمام مخلوق ، مظاہر اور اشیاء سب شامل

آئی ہرک کا تاریخ اسلام اجلاس،مولانا مفتی سید محمد سیف الدین حاکم حمیدی کا لکچر

حیدرآباد ۔18؍نومبر( پریس نوٹ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات میں رحمت کی جھلکیاں بہر پہلو نمایاں ہیں ۔ شرک و کفر ، مظاہر و اصنام پرستی ، جہل و ظلم ، جبر و استبداد ، قتل و غارتگری ، برائیوں اور بداخلاقی میں مبتلاء انسانوں کو توحید و رسالت ، یقین و توکل ، علم و عرفان ، رحم و مروت ، صدق و صفا ، کردار کی بلندی اور اخلاق حسنہ سے مالا مال کردینا انسانی معاشرہ پر احسان اور انسانیت کی سب سے بڑی خیرخواہی ہے۔رسول اللہؐ نے نہ صرف پیغام حق پہنچایا بلکہ خود اپنی ہدایات و تعلیمات کا عملی نمونہ ، اپنی حیات طیبہ ، سیرت مبارکہ اور اسوہ حسنہ کے ذریعہ پیش کرکے عقیدہ و اطاعت کے تمام نظری و عملی مسائل حل کردیئے۔ امن و سلامتی کے پیغمبراعظم حضور ختمی مرتبتؐ نے حفاظت جان و مال و عزت کا حکم اس طرح دیا کہ’’ تمہارا خون اور تمہارا مال (ایک دوسرے پر) تا قیامت حرام ہے ‘‘۔لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کے بارے میں رسول اللہ ؐنے جو عملی نمونہ پیش فرمایا وہ اپنے گہرے اثرات کے ساتھ صبح قیامت تک رہنمائی کرتا رہے گا ۔ نوع انسانی کی بقاء کا انحصار انسانی حیات کے انقطاع پر نہیں بلکہ انسانی جان کے تحفظ پر ہے۔ جان کی حفاظت انسانیت کا سب سے بڑا جوہر ہے ۔ رسول اللہ ؐ کی تعلیمات رحمت اور حیات طیبہ اسی حفظ حیات کے جذبہ سے عبارت ہے ۔ ان حقائق کے اظہار کے ساتھ مولانا مفتی سید محمد سیف الدین قادری حاکم حمیدی کامل نظامیہ و معاون ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح ۹ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۳۰:۱۱ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی، مالاکنٹہ روڈ،روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ تاریخ اسلام کے ’۱۳۲۹‘ویں اجلاس کے دونوں سیشنس میں ’’رسول اللہؐ کی تعلیمات رحمت‘‘ کے مقدس موضوع پرلکچر دیئے۔قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے دونوں سیشنس کا آغاز ہوا۔اہل علم حضرات اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ،ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا گیا۔مولاناسید محمد سیف الدین حاکم حمیدی نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوے بتایا کہ جنگ و قتال کے سلسلے میں عرب کا وحشیانہ مزاج اور انسانیت سوز ظلم اور فریق مخالف کے ساتھ بدترین سلوک مثلاً رات میں حملہ ، عورتوں اور بچوں کا قتل ، مغلوب لوگوں کو زندہ جلا دینا ، لاشوں کو بے حرمت کرنا اور مقتولین کے چہروں کا مثلہ کرنا علاوہ ازیں اسیران جنگ سے نامناسب برتاؤ عام بات تھی ۔ اذن قتال کے بعد جتنے معرکہ ہوئے حضور ختمی مرتبت ؐنے جنگ و قتال کی جابر روایات کے برخلاف مخالفین کے ساتھ مرحمانہ سلوک کو رواج دیا ۔ فوجوں کی روانگی سے قبل یہ تہدیدی حکم فرمایا کرتے کہ ’’وعدہ خلافی اور زیادتی نہ کرو۔ بچے، بوڑھے، عورت اور عبادت خانہ کے گوشہ نشینوں کو قتل نہ کرنا ، باغوں کے نزدیک نہ جانا ، درخت نہ کاٹنا اور مکانات نہ ڈھانا‘‘۔ جنگ بدر کے موقع پر پانی کا ذخیرہ مسلمانوں کے قبضہ میں تھا ، لیکن قریش نے جب التجاء کی تو رحمتہ للعالمین صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے عین حالت جنگ میں اپنی طرف سے دشمنوں کو پانی دے کر کمال رحمت کا جلوہ دکھایا۔ حریت انسانی حقوق اور احترام آدمیت کے لئے ایک بڑا چیلینج بنی ہر نئی فکر ، تحریک اور نظریہ کو تکا کرتی تھی ۔ انسانی شرافت و عظمت کے اولین نقیب محسن انسانیت محمد رسول اللہؐ نے اس قباحت کے خاتمہ کے لئے قدم اٹھایا اور خالق کونین کا یہ حکم سنا کر اس عظیم کام کا آغاز فرمایا کہ ’’غلاموں کی آزادی کے لئے زکوٰۃ کا مال صرف کیا جائے ‘‘ ۔انسانی تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ عہد قدیم سے طلوع اسلام تک کم و بیش دنیا کے تمام مردوں نے خودپرستی ، انا اور احساس برتری کے ماتحت عورتوں کو اپنے ظلم و جور ، قہر و غضب اور نفرت و حقارت کا نشانہ بنا رکھا ہوا تھا۔ قید و بند ، خرید و فروخت اور زندہ درگور ہونا عورت کا مقدر تھا ۔ لڑکی کا باپ بننا ذلت اور کسی عورت کا بیٹا کہلانا عار تھا ۔ حضور رحمتہ للعالمین ؐ نے ظلم و جہل اور استحصال کی شکار اس صنف نازک کو جائز انسانی حقوق اور اس کا مستحقہ مقام و رتبہ عطا کیا ۔ رحمتہ للعالمین ؐ کی بچوں پر یہ شفقت و رحمت بلاامتیاز ہر کمسن کے ساتھ تھی ۔رسول اللہؐ کی تعلیم رحمت میں بچوں کے لئے خصوصی باب ہے جس کا خلاصہ اس حدیث شریف میں ہے کہ ’’ جو ہمارے چھوٹے پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑے کا ادب نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ‘‘۔ رحمۃ للعلمین ؐ کا انداز کرم اور لطف عام بے مثل و بے نظیر ہے ۔حضورؐنے ساری زندگی کسی سے بدلہ یا انتقام نہیں لیا بلکہ عفو و درگزر اور لطف و بخشش سے کام لیا ۔ اس ضمن میں فتح مکہ کے موقع پر عفو عام کا اعلان سب سے اہم واقعہ ہے۔ حضور انورؐکے دائرہ رحمت میں اشرف المخلوقات کے ساتھ تمام مخلوق ، مظاہر اور اشیاء سب شامل ہیں۔ نباتات پر رحمت کا اندازہ ان فرامین مبارکہ سے ہوتا ہے کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ سرسبز درختوں کو اور پھل دار اشجار کو نہ کاٹو ، لشکروں کو یہ ہدایت کہ فتح کی صورت میں باغ کے قریب نہ جائیں ۔جمادات پر رحمت اور ان سے تعلق خاطر کا حال اس ارشاد مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’ احد ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اسے چاہتے ہیں ‘‘۔رحمت عالم ؐ کی رحمت کا تعلق دنیا اور آخرت دونوں سے ہے آخرت میں رسول اللہؐکی رحمت بصورت شفاعت رہے گی ۔ حضور انور ؐ کی شفاعت سے انکار جہل و محرومی کی بات ہے ۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہیؐ میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’1329‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔جناب مظہراکرام حمید ی نے خیر مقدم کیا اور آخر میں شکریہ ادا کیا۔