حضوراکرم ؐ کی حیات کے ہر گوشے میں سادگی شامل

جامع مسجد محمدی ساؤتھ لالہ گوڑہ میں مفتی محمد مستان علی کا خطاب
حیدرآباد ۔ 2 جنوری (راست) جامع مسجد محمدی ساؤتھ لالہ گوڑہ سکندرآباد میں مفتی محمد مستان علی قادری (جامعتہ المؤمنات) نے خطاب میں کہاکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری زندگی میں سادگی، رہن و سہن میں سادگی، نشست و برخواست میں سادگی، خوردونوش میں سادگی، لباس پہناوے میں سادگی، اوڑھنے بچھونے میں سادگی، لوگوں کے ساتھ میل جول اور رکھ رکھاؤ میں سادگی، آپ ؐ کی حیات طیبہ کے جن گوشوں پر نظر ڈالیں ہر طرف سادگی نظر آئے گی۔ آپ ؐ کی زندگی تکلف سے کوسوں دور، تواضع و عجز و انکساری کا یہ معمول تھا کہ الوان و اقسام کے کھانے تناول نہ فرمائے، بلکہ سادگی کے ساتھ جو کچھ میسر آجاتا وہی آپ کی غذا ہوتی۔ ایک موقع پر حضرت فاطمہ ؓ بارگاہ نبوتؐ میں روٹی کا ٹکڑا لے کر حاضر ہوئیں آپ ؐ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ کہا یہ روٹی ہے جسے میں نے پکایا ہے، دل نے گوارہ نہ کیا کہ آپ کو چھوڑ کر کھا لوں اس لئے یہ لے کر حاضرخدمت ہوئی۔ آپ ؐ نے فرمایا یہ تین دن کے بعد پہلا کھانا جو تمہارے باپ کے پیٹ میں گیا ہے۔ کبھی آپؐ کے دسترخوان پر دو قسم کے کھانے جمع نہ ہوئے۔ کبھی آپ ؐ پر ایسا فاقہ ہوتا کہ بھوک کی شدت سے پیٹ پیٹھ سے لگ جاتا، غزوہ خندق کے موقع پر حضرت طلحہ ؓ نے کھدائی کے دوران حضوراکرم ؐ کے پاس آ کر بھوک کی شکایت کی اور اپنا پیٹ کھول کر دکھایا جس پر ایک پتھر بندھا ہوا تھا، یہ دیکھ کر آپ ؐ نے بھی اپنے شکم مبارک سے کپڑا اٹھایا، ابوطلحہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ آپ ؐ کے جسم اطہر پر دو پتھر بندھے ہوئے ہیں۔ حضور ؐ کا بستر بھی نہایت سادگی سے معمور تھا۔ آپ ؐ نرم اور گدے دار بستر کو بالکل ہی پسند نہ فرماتے۔ کبھی چمڑے کے ٹکڑے، کبھی ٹاٹ پر، کبھی ریت پر ہی لیٹ جاتے۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ نبی ؐ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے جس کے نشانات آپ ؐ کے پہلوئے مبارک پر پڑ گئے تھے۔ نبی کریم ؐ بیدار ہوئے تو میں آپ کے پہلو کو جھاڑنے لگا اور عرض کیا یا رسول اللہ ؐ آپ ہمیں اس بات کی اجازت کیوں نہیں دیتے کہ اس چٹائی پر کچھ بچھادیں؟ نبی کریم ؐ نے فرمایا مجھے دنیا سے کیا، میری اور دنیا کی مثال تو اس سواری کی سی ہے جو تھوڑی دیر سایہ لینے کیلئے کسی درخت کے نیچے رہے پھر اسے چھوڑ کر چلا جائے۔ آپ ؐ کے گھریلو امور میں بھی یہی سادگی تھی۔ مولانا مفتی محمد مستان علی نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اسوہ رسول ؐ و تعلیمات نبوی ؐ کو اپنائیں تاکہ دنیا و آخرت میں رضائے الہٰی و رضائے مصطفوی ؐ حاصل ہوسکے۔