حضرت مسورؓبن مخرمہ کی ساری زندگی عشق الٰہی کی دولت سے مالا مال

آئی ہرک کا تاریخ اسلام اجلاس،ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی اورپروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کے لکچرس
حیدرآباد ۔۹؍نومبر( پریس نوٹ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے فیضان نگاہ رحمت اور صحبت اقدس سے شرف یاب صحابہ کرام ایمان و توکل، تسلیم و رضا اور محاسن اخلاق کے جواہر سے مالا مال اور ان میں ہر ایک صبح قیامت تک ساری انسانیت کے لئے قابل تقلید نمونہ ہے۔ انہیں حق شناس حق پسند اور حق گو ہستیوں میں حضرت مسور بن مخرمہؓ کا اسم مبارک بھی ملتا ہے۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح ۹ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور دو بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی، مالاکنٹہ روڈ،روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۱۲۰‘ویں تاریخ ا سلام اجلاس کے علی الترتیب پہلے سیشن میں احوال انبیاء علیھم السلام کے تحت حضرت شمویل علیہ السلام کے مقدس حالات اور دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول مقبولؐحضرت مسور بن مخرمہؓ کے حالات شریفہ پر توسیعی لکچر دیئے۔قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے دونوں سیشنس کا آغاز ہوا۔اہل علم حضرات اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔جناب سید محمد علی موسیٰ رضا حمیدی نے خیر مقدمی خطاب کیا۔ مولانا مفتی سید محمد سیف الدین حاکم حمیدی کامل نظامیہ و معاون ڈائریکٹر آئی ہرک نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری مطالعاتی مواد پیش کیا۔پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی جائنٹ ڈائریکٹر آئی ہرک نے ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوے بتایا کہ حضرت مسورؓ بن مخرمہ ان خوش نصیبوں میں ہیں جنھوں نے بچپن کا اہم اور سیکھنے والا زمانہ فیضان رسالت سے شرف پاتے ہوئے گزارا اور ان کی زندگی کی ابتداء ہی تربیت حق اور انوار حبیب کبریاؐ سے فیضیاب ہوتے ہوئے ہوئی۔ حضرت مسورؓ بن مخرمہ ، عبد مناف بن زہرہ کی اولاد سے تھے اسی لئے زہری کہلاتے تھے ان کی کنیت ابو عبد الرحمن مشہور ہے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف آپ کے حقیقی ماموں تھے حضرت مسورؓ کی والدہ کا اسم مبارک عاتکہؓ بنت عوف تھا۔ حضرت مسورؓ کی ولادت ہجرت کے بعد مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ سارا گھر انوار ایمان سے جگمگا رہا تھا۔ بچپن میں رسول اللہؐ کی صحبت کا شرف پایا۔ چھ سال کی عمر میں مدینہ منورہ حاضر ہوے تھے۔ خدمت اقدسؓ میں زیادہ حاضر رہا کرتے تھے۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے بتایا کہ ایک مرتبہ جب کہ حضور انورؐ وضو فرما رہے تھے پشت اقدس سے چادر مبارک ذرا سی ہٹ گئی تھی تو انھوں نے مہر نبوت کی زیارت کی۔ حضور اقدسؐ نے ان کے منہ پر تھوڑے پانی کے چھینٹے دئیے جس پر حضرت مسورؓ ساری زندگی مسرور و شاداں رہے۔ حضرت مسورؓ کو صغر سنی میں رسول اللہؐ کے ساتھ حجۃ الوداع میں شرکت کی سعادت بھی ملی۔ حضرت مسورؓ بہت ذہین تھے یادداشت بڑی قوی تھی۔ رسول اللہؐ کی خدمت اقدس میں گزرے ہوے ماہ و سال کی ایک ایک تفصیل یاد تھی۔ چنانچہ خطبہ حجۃ الوداع کے یہ ارشادات عالیہ ان کے ذہن میں محفوظ تھے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ’’(سابق میں) مشرک لوگ دن رہے جب آفتاب پہاڑ کے سر پر ہوتا یہاں (عرفات) سے چلے جاتے تھے اور ہم غروب آفتاب کے بعد جائیں گے‘‘۔ حضرت مسورؓ اپنے ماموں حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کے ساتھ اکثر خلفاء راشدین کی خدمت میں جایا کرتے تھے۔ حضرت مسورؓ کثرت سے عبادات کیا کرتے تھے بلند مرتبہ فقیہہ اور بڑے زبردست عالم تھے۔ حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کے بعد مکہ چلے آے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی تھی۔ حضرت عبد اللہؓ بن زبیر کے حامیوں میں ممتاز تھے۔ عشق الٰہی کی دولت سے مالا مال تھے پوری زندگی محبت رسول ؐ سے عبارت تھی۔ رسول اللہؐ کے تمام آثار و منسوبات کو دل و جان سے عزیز رکھتے تھے۔ اتباع سنت کا کامل نمونہ تھے۔ ۶۴ھ میں جب شامیوں نے حرم شریف کا محاصرہ کیا تو حضرت مسورؓ حطیم میں محو نماز تھے اسی دوران شامی فوج کی سنگباری کا نشانہ بنے اور پانچ دن بعد وفات پائی۔