حضرت عوفؓ بن مالک کو فتح مکہ مکرمہ کے موقع پر اپنے قبیلہ اشجع کی علمبرداری کا اعزاز

آئی ہرک کا تاریخ اسلام اجلاس،ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی و پروفیسرسید حسیب الدین حمیدی کا خطاب
حیدرآباد ۔۱۴؍سپٹمبر( پریس نوٹ) یہ حقیقت اظہر من الشمن ہے کہ اطاعت حق، اتباع رسول مقبولؐ،عبادت و ریاضت، تقویٰ و پرہیزگاری، نیکی و صالحیت کے لحاظ سے ایک سعید ازلی بندہ کو بڑے سے بڑے درجہ کمال، تقرب خاص اور روحانی نعمتوں سے مالا مال ہونے کے مواقع نصیب ہوتے رہتے ہیںلیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ کوئی بھی صحابیت کے درجہ اور مرتبہ کو پا نہیں سکتا کیوں کہ یہ خاص الخاص فضل رب تعالیٰ او ررسول اللہؐ کی صحبت اقدس بحالت ایمانی پانے سے متعلق اور مخصوص ہے۔ ان عظیم المرتبت ہستیوں میں حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ بھی شامل ہیں جنھیں دولت ایمان پانے، قرب حق پانے اور دیدار جمال حبیب کبریاؐ کی سعادتیں ملیں ۔یہی نہیں بلکہ راہ حق میں جہاد اور اللہ و رسولؐ کے لئے جانثاری کے حقیقی مظاہرے کے مواقع نصیب ہوے۔ چنانچہ سب سے پہلا غزوہ جس میں حضرت عوفؓ بن مالک اشجعی نے بصد ہزار جوش و جذبہ ایمانی شرکت کی تھی وہ معرکہ حق و باطل خیبر تھا۔ان حقائق کے اظہار کے ساتھ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح ۹ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور دو بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی، مالاکنٹہ روڈ،روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۱۱۲‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے علی الترتیب پہلے سیشن میں احوال انبیاء علیھم السلام کے تحت حضرت الیسع علیہ السلام کے مقدس حالات اوردوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے ضمن میں حضرت عوف بن مالکؓ کے احوال شریف پر مبنی توسیعی لکچر دئیے۔ قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے دونوں سیشنس کا آغاز ہوا۔اہل علم حضرات اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوے کہا کہ حضرت عوفؓ بن مالک قبیلہ اشجع کے معزز، مقبول اور محبوب شخصیت تھی۔ اہل قبیلہ ان کو بے حد چاہتے، اکرام کرتے اور ان کی بات اور راے کو بے حد اہمیت دیا کرتے تھے اپنے قبیلہ کے معزز و معتبر نمائندہ کی حیثیت سے انھوں نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے قبیلہ کا جھنڈا اٹھا رکھا تھا۔ حضرت عوف بن ملک کی کنیت ابو عبد الرحمن تھی ارباب سیر و تاریخ نے ابو حماد اور ابو عمر بھی بتایا ہے۔ حضرت عوف بن مالکؓ نے شام میں سکونتی مکان بنا لیا تھا اور وہیں فروکش ہو گئے تھے۔ ان کا مصر آنا اور کچھ عرصہ تک وہاں قیام کا بھی ذکر ملتا ہے۔ رسول اللہؐ کے قرب کی دولت اور رات دن اکتساب فیوض کے باعث قرآن و حدیث کے علم سے مالا مال تھے۔ اکابر صحابہ اور تابعین نے حضرت عوفؓ بن مالک سے روایت کی ہے۔ احادیث شفاعت میں بھی حضرت عوفؓ سے مروی روایت موجود ہے۔ انھوں نے یہ روایت بھی بیان کی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ کوئی شخص وعظ نہ کہے مگر وہ جو حاکم ہو یا حاکم کی طرف سے مقرر ہو ان دو کے علاوہ جو شخص وعظ کہے وہ ریاکار ہے۔ حضرت عوف بن مالکؓ اشجعی بڑی خوبیوں کے مالک اور معاصرمیں احترام سے دیکھے جاتے تھے۔ عشق الٰہی اور محبت رسولؐکے جلووں سے ان کی کتاب حیات منور تھی۔ عمر طویل پائی۔ ۷۳ھ میں بمقام دمشق حضرت عوفؓ بن مالک کی وفات کا واقعہ ہوا۔