حضرت عثمان بن عفانؓ ذوالنورین، مسلمانوں کے بہی خواہ، فیاض اور حلم و حیا کے پیکر

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا کا تاریخ اسلام اجلاس،ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی کا خطاب

حیدرآباد ۔12؍اکٹوبر( پریس نوٹ)خلیفہ سوم امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہٗ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چہیتے، عزیز ترین صحابی، داماد محترم، ذوالنورین، حبشہ اور مدینہ منورہ دو ہجرتوں کا اعزاز پانے والے، مسلمانوں کے بہی خواہ، امیرالمومنین حضرت فاروق اعظمؓ کے جانشین، خلیفہ راشد، صاحب حلم و حیا، علوم قرآن و حدیث کے ماہر، طالب رضاے حق تعالیٰ اور محبت و اطاعت رسول اکرم ؐ میں کامل اور منفرد شان کے حامل تھے۔ حضرت عثمان غنی ؓ کا سلسلہ نسب عبد مناف تک پہنچتا ہے جو رسول اللہ ؐکے جد مکرم تھے حضرت عثمانؓ کے پڑ دادا امیہ بن عبد شمس تھے اس طرح آپ قریشی اموی ہیں حضرت عثمان ؓ کی کنیت ابو عبد اللہ اور ابو عمرو تھی والد ہ محترمہ کا نام ارویٰ بنت کریز تھا جو حضرت عبد المطلب کی نواسی تھیں۔ دعوت حق اور تبلیغ و اشاعت اسلام کے اولین دور میں حضرت ابو بکرؓ صدیق کی ترغیب پر شرفیاب ایمان ہوے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حضرت عثمانؓ پر عنایت خاص تھی حضور انور ؐ نے اپنی صاحبزادی شہزادی ثقلین حضرت سیدہ رقیہؓ کو آپؓ کے حبالہ نکاح میں دیا تھا جب ان کی وفات ہو گئی تو اپنی دوسری صاحبزادی شہزادی قبلتین حضرت سیدہ ام کلثومؓ کا عقد نکاح حصرت عثمان ؓ بن عفان سے کر دیا اور ان کے دستار فضیلت میں دو طرے لگا دیئے اسی باعث حضرت عثمانؓ ذو النورین سے معروف ہوے۔ راہ خدا میں گھر بار کو خیر باد کیا۔ حضرت عثمانؓ غنی نے پہلے حبشہ پھر بعد میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا افتخار حاصل کیا ان دونوں ہجرتوں میں حضرت سیدہ رقیہؓ ان کے ہمراہ تھیں۔ قرآن مجید کی خدمت اور حفاظت حضرت عثمان غنی ؓ کے عظیم الشان کارناموں میں بہت نمایاں ہے۔ حضرت عثمانؓ بن عفان نے بحیثیت خلیفہ سوم و امیر المومنین یکم؍محرم الحرام 24ھ کو شوریٰ کے فیصلہ اور انتخاب کے مطابق خلافت کی گراں بہا ذمہ داریاں سنبھالیں اس وقت ان کی عمر شریف ستر سال تھی۔ان حقائق کے اظہار کے ساتھ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح 9 بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور دو بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی، مالاکنٹہ روڈ،روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’1116‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے علی الترتیب پہلے سیشن میں احوال انبیاء علیھم السلام کے تحت حضرت الیسع علیہ السلام کے مقدس حالات اوردوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے ضمن میںامیر المومنین حضرت عثمان بن عفانؓ کے احوال شریف پر مبنی توسیعی لکچر دئیے۔ قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے دونوں سیشنس کا آغاز ہوا۔اہل علم حضرات اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جن دس صحابہ کرام کو دنیا میں بشارت جنت سے ممتاز فرمایا ان میں حضرت عثمانؓ بن عفان بھی شامل تھے۔ ارتعاش کوہ احد والی حدیث میں حضرت عثمانؓ کے شہادت پانے کی پیشین گوئی بھی فرمادی گئی تھی۔حضرت عثمان غنی ؓ کے کلاہ مبارکہ میں طرئہ مزید یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیعت الرضوان کے موقع پر حضرت عثمانؓ بن عفان کو اہل مکہ سے مذاکرات کے لئے بھیجا تھا جب لوگوں نے بیعت کی تو حضور اقدس ؐ نے فرمایا کہ عثمانؓ اللہ اور اس کے رسولؐ کے کام میں ہیں اور خود حضورانور ؐ نے اپنے ایک دست پاک پر دوسرا دست اقدس رکھ کر فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔ مصلیوں کی کثرت کے سبب مسجد نبویؐ کی توسیع کے لئے حضرت عثمان ؓ نے قریبی متصل علاقہ خرید کر نذر کیا تھا۔ و نیز رومہ کنواں جو میٹھے پانی کے لئے مشہور تھا حضرت عثمان غنی ؓنے مسلمانوں کے لئے زر کثیر خرچ کرکے خریدا اوروقف کر دیا تھا۔ مسجد حرام کی توسیع کے لئے ایک متصل گھر خرید کر حضرت عثمانؓ نے نذر کیا تھا جس پر انھیں جنت میں بہترین عوض کی نوید ملی تھی۔ حضرت عثمانؓ قریش کے متمول اور معتبر لوگوں میں خاص مرتبہ رکھتے تھے۔ وہ ابتداء ہی سے نیک خو، خلیق، اعلی اوصاف و خصائل کے حامل تھے۔ ہجرت کے بعد ان کی مواخاۃ حضرت اوس بن ثابتؓیا ابی عبادہ سعدؓ سے ہوئی ۔ حضرت عثمانؓ کا مال ہمیشہ مسلمانوں کی بہی خواہی میں کام آیا۔ جیش العسرۃ کے موقع پر مجاہدین کے لئے سامان سفر و حرب ہو یا مستحقین کی اعانت کے لئے حضرت عثمانؓ غنی کا دست سخا ہمیشہ کشادہ رہا۔ علوم اسلامیہ میں بلند رتبہ تھا۔حضرت عثمان بن عفانؓ کا دور خلافت بھی فتوحات اور نظم خلافت کے لحاظ سے بڑا یادگار رہا۔ انھوں نے کچھ دن کم ۱۲ سال مسند خلافت پر رونق افروزی کے بعد18؍ذی الحجہ 35ھ کو بہ عمر82 سال جام شہادت نوش کیا۔