حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کو رسول اللہؐ کے ہمراہ ہجرت کا شرف

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا کا تاریخ اسلام اجلاس۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی کا خطاب
حیدرآباد ۔3؍جنوری( پریس نوٹ) عہد رسالتؐ اور عہد خلفائے راشدین ؓ میں دور دراز علاقوں میں صحابہ کرامؓ کو تبلیغ دین کا فریضہ اداکرنے اور مسلمانوں کی دینی تعلیمی رہبری کے اہم فرائض انجام دینے کے مواقع ملے جسے انھوںنے کبھی خلفاے راشدین کے ارشاد پر اور کبھی خود اپنے ارادے سے یہ کام پورا کیا۔ چنانچہ کوفہ ،شام ،بصرہ اور دیگر مقامات پر بکثرت صحابہ ؓ  کاجانا اور خدمت دین مبین انجام دینا ایک واقعہ ہے کوفہ جانے والے بہت سارے صحابہ ؓ  میں عرصہ دراز تک بقید حیات رہنے والوں میں صحابی رسول ؐ مقبول حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کا اسم مبارک نمایاں طور پر ملتا ہے جنھوں نے خلفاےؓراشدین کے ابتدائی عہد میں مدینے سے کوفہ کی طرف رخ کیا اور وہیں پر تقریباً سترسال تک قیام پذیر رہے البتہ اس دوران تھوڑی مدت کے لئے بصرہ میں بھی قیام کیا لیکن زندگی کا آخری زمانہ کوفہ میں ہی گزارا۔ ان حقائق کے اظہار کے ساتھ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح 9 بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور دو بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی، مالاکنٹہ روڈ،روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’1180‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے علی الترتیب پہلے سیشن میں احوال انبیاء علیھم السلام کے تحت حضرت سلیمان علیہ السلام کے مقدس حالات اوردوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے ضمن میں صحابی رسول اللہؐ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ کے احوال شریف پر مبنی توسیعی لکچر دئیے۔ قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے دونوں سیشنس کا آغاز ہوا۔اہل علم حضرات اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوے بتایا کہ خود حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ نے رسول اللہ ؐ  کی خدمت اقدس کا شرف پانے اور دین حق اسلام کے لئے غزوات ومشاہد میں شریک رہنے کے متعلق کہا کہ ہم نے رسول اللہ ؐ کے ہمراہ سات جہاد کئے۔ جنگ حنین میں انھیںزخم آے ان کے منجملہ ایک نشان ان کے ہاتھ پر دیکھا جاتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کو بیعت الرضوان میں شرکت کا بھی اعزاز حاصل تھا ارباب سیر انہیں اصحاب شجرہ میں شمار کرتے ہیں یعنی آپ حدیبیہ میں درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے تھے وہ کہاکرتے تھے کہ اصحاب بیعت شجرہ ایک ہزار چارسو تھے جن کے منجملہ پونے دوسواصحاب کا تعلق مہاجرین میں قبیلہ اسلم سے تھا جو ان کے خاندان کے لوگ تھے۔ ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے بتایاکہ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کی کنیت ابوابرہیم تھی ۔ ان کے والد ابی اوفیٰ کا نام علقمہ تھا پدری شجرہ علقمہ بن خالد سے ہوتا ہوا’’ہوازن بن اسلم‘‘سے جاملتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ اسلام لانے کے بعد سے حضورؐ  کی خدمت اقدس میں مدینہ منورہ ہی میں رہے مابعد کوفہ منتقل ہوگئے۔ انھوں نے خیبر اور اس کے بعد کے غزوات میں حصہ لیا۔ ان سے روایت کرنے والوں میں سالم بن ابی نضر نے بیان کیا کہ ان کے پاس عبداللہ بن ابی اوفیٰ نے ایک خط لکھ کر بھیجا تھا انھوںنے بتایا کہ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ بالوں میں مہندی کا خضاب لگاتے تھے۔ انھوں نے خوارج سے قتال کیا اس جنگ کے دوران اپنے ایک غلام سے جو خوارج سے مل گیا تھا سختی سے پیش آے۔ حضرت عبداللہ ؓ  کہاکرتے تھے کہ مجھے رسول اللہ ؐ  کے ہمراہ ہجرت کا شرف حاصل ہے۔ آخر میں بینائی جاتی رہی تھی۔ ساری زندگی اطاعت حق تعالی ،محبت واتباع رسول اکرم ؐ میں گزری کوفہ میں86ھ میں وفات پائی۔ کوفہ میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابیوں میں آخری صحابی یہی باقی رہ گئے تھے۔