حضرت شاہ صوفی غلام محمد ؒ

( جنہوں نے طشتِ سخن کو قلعیٔ معرفت سے چمکایا)

قلم نذیر نادرؔ
دکن کے صوفی بزرگ حضرت شاہ صوفی غلام محمد ؒ اُن متبرک ہستیوں میں شمار کئے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی دین متین کی تبلیغ کیلئے وقف کردی۔ حضرت صوفی 1918 میں اس عالم آزمائش ( کوٹرہ تعلقہ کلواکرتی ) میں جلوہ افروز ہوئے۔1938 تک تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ چند سال سنت تجارت کا بھی احیاء فرمایا پھر 1942 تا 1973ضلع محبوب نگر و اکناف کے مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ بالخصوص آپ نے مغل گدہ کو اپنی عرفانی تحریک کا جولان گاہ بنایا، لگ بھگ 30سال عید گاہ ( مغل گدہ ) کے خطیب رہے۔ مغل گدہ کے علاوہ اور بھی کئی اضلاع آپ سے بافیض ہوئے۔1969 میں شہر حیدرآباد تشریف لائے اور دمِ واپس تک یہیں مقیم رہے۔ 1989 میں رحلت فرما گئے۔ بہ لطف باری آپ کو عنفوان شباب ہی میں معرفت کا چسکا لگا، جس کی تکمیل کیلئے علوم الیہ کے ساتھ علوم عالیہ کی تحصیل کی فکر دامن گیر ہونے لگی خصوصاً حضرت صوفی کے ایک جلیل القدر استاذ حضرت مولانا سید ریاض الدین حسامی ؒ خضر راہ ثابت ہوئے اور بہت جلد عارف باللہ حضرت مولانا محمد حسین قبلہ ؒ ( ناظم ونپرتی ) سے ملاقات ہوئی اور شاہ صوفی نے حضرت کے دست حق پر بیعت فرمائی بعد ازاں حضرت ممدوح کے خلیفہ حضرت سید حسن قبلہ ؒ کے حلقہ ارادت سے منسلک ہوئے، حضرت حسن قبلہؒ نے سلوک و احسان کے مدارج کے طئے ہوتے ہی حضرت صوفی کو شرف خلافت سے سرفراز فرمایا۔ شاہ صوفی کے مواعظ حسنہ کی مجالس میں شریعت،طریقت ، حقیقت اور معرفت کے رموز و اسرار منکشف ہوتے تھے۔ خود شناسی و خدا شناسی کیلئے عامتہ المسلمین کے ساتھ خواص بھی کثیر تعداد میں رجوع ہوتے تھے۔ تصوف کی تعلیم و تفہیم اور تبلیغ و ترویج کیلئے حضرت صوفی نے خطبات و نصائح کے ساتھ ساتھ شاعری کو بھی خاص اہمیت دی اور اپنے صوفیانہ و عارفانہ کلام سے بندگان خدا کو فیضیاب فرمایا۔ آپ زمانہ طالب علمی ہی سے شعر و سخن کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ علامہ شبلی ؒ کی مایہ ناز تصنیف ’’ شعر العجم ‘‘ سے آپ نے مقدور بھر استفادہ فرمایا، ابتداء میں چند نظموں تک اسمعیل ازلؔ سے اصلاح لی( پھر یہ سلسلہ موقوف ہوگیا) مگر احساسات کا ایک سبلِ رواں جاری رہا اور آپ منظوم فرماتے رہے، آپ کی ایک مشہور نظم ’’ آگیا ‘‘ تاریخ انسانی کے عظیم ترین انقلاب کی بھرپور عکاسی کرتی ہے، ملاحظہ کیجئے!
جوہری بم گرا عالم کفر پر، مزریح شرک میں قحط عام آگیا
دہریت شیطانت تھرتھرانے لگی، جب جہاں میں خدا کا پیام آگیا
پیاسی روحوں پہ رحمت برسنی لگی، دل میں ایماں کے چشمے اُبلنے لگے
ساری انسانیت میں بہار آگئی ، جب جہاں میں رسالت کا کام آگیا
روح میں بجلیاں کوندنے لگ گئیں، دل تڑپنے، اُچھلنے ، مچلنے لگا
آنکھ میں آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی جب زباں پر محمدؐ کا نام آگیا
کُھل گئی اب معیشت کے دل کی کلی اور سیاست کو معراج ہوہی گئی
سارے عالم میں روحانیت جاگ اُٹھی، جب جہاں میں یہ دینی نظام آگیا
خاکیوں پر مکمل نکھار آگیا، عبدیت نورِ مطلق میں ڈوبی گئی
آدمی عرس پر جاکر آہی گیا، زندگی میں اک ایسا مقام آگیا
جس گھڑی زندگی بندگی بن گئی، اُس گھڑی زندگی کو ملی زندگی
جس گھڑی موت کو موت آہی گئی زندگی میں بھی اپنی دوام آگیا
عالم عشق آنسو بہانے لگا، عالم عقل بھی مُسکرانے لگا
عالم شعر و فن گنگنانے لگا، ہاتھ میں جب کلام غلام آگیا
حضرت صوفی نے مثبت طریق اپنایا تاکہ مسلکی تشدد سے احتراز کرتے ہوئے افراد ملت کو دین حق سے قریب کیا جاسکے۔ مذہبی نوع کے تقریباً تمام اصناف پر آپ نے طبع آزمائی فرمائی۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہے۔ علاوہ ازیں آپؒ کی شاعری میں عربی تعبیرات اور محاورے بھی ملتے ہیں۔ نیز آپ نے اسلامی اصلاحات و اصطلاحات کی تعمیم بھی فرمائی۔ آپ کی شاعری حمد و نعت، دعوت تبلیغ، تعلیم و تربیت، عشق و عرفان، اخلاق و مروت کے ساتھ ریاستی ، ملکی و عالمی سطح کے پُر پیچ مسائل اور ان کا حلِ سہل وغیرہ کو محیط ہے۔ حضرت شائق، مولانا شاہ معز ملتانی، حضرت کامل شطاری، علامہ فاضل ؒ اور بیدم شاہ وارثی کے کلام کی طرح حضرت صوفی کا کلام بھی عشق و عرفان کا مظہر اجمل ہے۔آپؒ کا شعری مجموعہ ’’ کلامِ غلام ‘‘ اسلامی افکار و اقدار کا آئینہ ہے، اب تک اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ آپؒ کی شاعری میں کئی علوم پنہاں ہیں جن کا سمجھنا اور سمجھانا ہرکس و ناکس کی دسترس میں نہیں۔ آپؒ کا عارفانہ کلام، سید شاہنواز ہاشمی، ڈاکٹر طیب پاشا قادری، حافظ ارشد فیضی، یوسف خاں اعجاز، مقبول احمد وغیرہ نے اپنی کھنک دار آواز میں پیش کیا ہے۔ بنا بریں آپ کا کلام دور دور تک پہنچا اور بے شمار اہلِ ذوق مستفید ہوئے۔ آپ کے کلام کی چشنی سے ہزارہا قلوب بیدار ہوئے، آپؒ نے برائے تسکینِ خاطر شاعری نہیںکی بلکہ ایک خاص مقصد آپ کے مطمع نظر تھا، حضرت صوفی نے شاعری کی وساطت سے متلاشیان خدا کی رہبری فرمائی وہیں کوائفِ ذوق و حال کو حدِ اعتدال میں لانے کی سعی بھی فرمائی۔ آپ کے بعد آپؒ کے نامِ نامی فرزندان گرامی ( مولانا شاہ محمد کمال الرحمن قاسمی، مولانا شاہ محمد جمال الرحمن مفتاحی، مفتی شاہ محمد نوال الرحمن مفتاحی اور مولانا شاہ محمد ظلال الرحمن فلاحی ) آپؒ کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔