حضرت سید نا امام حسین ؓ کی ساری زندگی صبر و شکر کا مظہر

مسجد عزیزیہ میں جلسہ ، ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد کا خطاب
حیدرآباد۔/11نومبر، ( دکن نیوز) اسلام کے آفاقی دین کی تاریخ عزیمت و شہادت سے بھری پڑی ہے۔ قرآن کریم، سیرت رسول ؐ ، انبیاء اور صحابہ کرام ؓ، اولیاء اللہ کی حیات طیبہ اس بات کا سبق تاقیامت دیتی رہے گی کہ جس دین حنیف کو مسلمانوں نے اپنے باپ دادا اور ماں کے بطن سے حاصل کیا ہے وہ یوں ہی ٹھنڈے پیٹوں نہیں ملا بلکہ اس دین کے لئے تو عرب کی سنگلاخ زمین اور تپتی ہوئی ریت ، چلچلاتی دھوپ میں اللہ کے ان برگزیدہ ہستیوں نے جو محنتیں کی ہیں وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ ان کی قربانیاں و شہادتیں قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے یہ پیغام دیتی رہے گی کہ جب تک جان باقی رہے اس وقت تک اسلام کی بقاء و سربلندی کیلئے جہد مسلسل کرتے رہیں گے۔ حضرت سیدنا امام حسین ؓ کی ساری زندگی جدوجہد، صبر و شکر، قناعت پسندی اور اپنے نانا کی لائی ہوئی شریعت کو زمین پر نافذ کرنے کیلئے گذری جس کے لئے آپؓ نے اپنی جان کی کوئی پرواہ نہیں کی بلکہ افراد خاندان کو بھی اسلام کی راہ میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ آپؓ کی آنکھوں کے سامنے اپنے ہی لخت جگر علی اکبر، علی اصغر کو ظالموں نے بڑی بے رحمی سے مارا، اس پر آپؓ کا صبر و ثابت قدمی کا آج تک کوئی ثانی نہیں۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد نے جماعت اسلامی ہند نامپلی کے زیر اہتمام ہفتہ واری اجتماع عام سے کیا جو مسجد عزیزیہ کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا۔ امیر مقامی سید سلطان محی الدین نے نگرانی کی۔ ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد نے ’شہادت مطلوب و مقصود ہے مومن ‘ کے موضوع پر کہا کہ آج کے دور میں جتنی بھی جنگیں لڑی جارہی ہیں اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقاصد کار فرما ہیں، ان جنگوں نے انسانیت کے مال و جان کا صرف خرابہ ہی نہیں کیا بلکہ یہ جنگیں ہر حیثیت سے بے سود ثابت ہوئیں مگر ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ ان جنگوں کے ذریعہ زیادہ سے مقدار میں ہتھیاروں کی فروختگی جو چیز ان جنگوں کے ذریعہ انہیں مطلوب تھی اس میں وہ پورے اُترے اور ممالک پر قابض ہوئے یہاں تک کہ انہیں ان جنگی امور سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔لیکن اس میں وہ اتنا آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے ہیروشیما و ناگا ساکی پر بمباری کی اور وہاں کی بستیوں کو مکمل تباہ و تاراج کردیا۔ ان ظالموں نے اتنی بربادی مچائی کہ اس علاقہ کی سرزمین پر زراعت، کھیتی باڑی کا آج تک تصور نہیں کیا جاتا ۔دوسری طرف ان جنگوں نے ایک دوسرے سے کو غلام بنایا اور یہ غلامانہ تصور کا سلسلہ بھی زور و شو ر سے جاری ہے۔