حضرت سید جلال الدین توفیقؔ حیدرآبادی دکن کا غالب

سعید حسین
حضرت توفیق مشاہیر کی نظر میں…
پروفیسر مغنی تبسم۔ جامعہ عثمانیہ :
حضرت توفیق کے کلام میں مجاز اور حقیقت کے جلوے دوش بدوش نظر آتے ہیں، ان کے کلام میں دھوپ چھاؤں کی سی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ توفیق صوفی منش انسان تھے، فلسفے سے بھی انہیں لگاؤ تھا۔ انہوں نے تصوف کے مضامین کو بڑی گہرائی سے شعر نہیں باندھا ہے جو دعوت ِفکر  دیتے ہیں۔ جتنا اشعار پر غور کریں معنی کی نئی بستیاں کھلتی جارہی ہیں۔ شعر ملاحظہ ہو۔
جلوۂ یکتا کس کا کس طرح آئے نظر
اعتبارِ آئینہ ہے، چشم حیران ہیں ہنوز
حضرت توفیق ایک اعلیٰ درجہ کے نقاد تھے۔ زبان و بیان پر انہیں کافی دسترس حاصل تھا۔ وہ لفظوں کے نبض شناس تھے۔ صنائع اور بدائع پر انہیں انہیں کافی عبور تھا۔’’جب حیدرآباد میں سکہ قرطاس کا اجرائعمل میں آیا تو نوٹ پر عبارت لکھنے کے لئے آپ کے خط کے ساتھ مختلف خوشنویسوں کا مقابلہ کیا گیا۔ آخر میں آپ ہی کا خط منتخب کیا گیا۔ چنانچہ جو نوٹ ممالک محروسہ میں رائج تھے ان کی اردو عبارت آپ ہی کے خط کا چربہ ہے۔‘‘
مرحوم فقیر سید علی برترخوندمیری۔ ایم اے۔ ایم ایڈ۔ رقم طراز ہیں۔ اہل حیدرآباد کو حضرت سید جلال الدین توفیق پر جتنا ناز کرے کم ہے۔ وہ ایک بلند پایہ شاعر تھے۔ توفیق فارسی اور اردو دونوں میں قادر الکلام تھے، ان کی زندگی میں ان کی بڑی قدر و منزلت تھی۔
ان کی غزلیں غالب اور مومن کی یاد دلاتی ہیں۔ اس لئے ان کو دکن کا غالب بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی ایک مشہور غزل جس کا مطلع ہے۔
کبھی پردہ در ہوں میں راز کا کبھی ہوں میں پردۂ راز میں
میری اُن حقیقتِ مشترک ہے حقیقت اور مجاز میں
اس بحر اور زمین میں علامہ اقبال کی بھی ایک غزل ہے۔
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری ایک جبینِ نیاز میں
عالی جناب مولوی محمد عبدالرزاق صاحب درشہ مددگار معتمد فینانس سرکار عالی رقم طراز ہیں۔’’مولانا حالی مرحوم سرکاری‘‘ مہمان کی حیثیت سے 1905ء میں حیدرآباد تشریف لائے تھے۔ حضرت توفیق سے اشتیاق کے ساتھ ملے اور آپ کا کلام سن کر بڑی دیر تک کلام کی تعریف کرتے رہے۔ آخر میں انہوں نے حضرت ِتوفیق سے فرمایا کہ استاد زندہ ہوتے تو آپ کے کلام کی خوب داد دیتے۔ استاد محترم سے ان کا اشارہ مرزا غالب کی طرف تھا۔ عبدالرزاق صاحب کہتے ہیں…’’فانوس خیال‘‘ اسم با مسمی ہے۔ اس میں نئی نئی دلکش تصویروں کا انبار ہے۔ اگر اس کو گلزار اِرم تصور کیا جائے تو بجا ہے کہ اگر مائی و بہزاد دیکھتے تو وہ ’’فانوس خیال‘‘ کو اپنا رہنما بناتے اور اس کی ہر تصویر پر جان و دل فدا کرتے۔ ہر تصویر بولتی ہوئی تصویر ہے۔ خط وخال میں بے نظیر ہے اور عارفانہ استعاروں سے تو خدا یادآتا ہے۔
حضرت توفیق اپنے نانا سید احمد مرحوم کے مکان میں بہ مقام سکندرآباد 1281ء ہجری میں پیدا ہوئے۔
توفیق ؔمرحوم سید محمود افسوس کے مکتب واقعی کاچی گوڑہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور فارسی اور عربی بھی سیکھتے تھے کیونکہ اس زمانے میں یہی علوم و فنون ضروری سمجھے جاتے تھے۔ علمِ منطق اور فارسی کی ادق کتابیں ڈاکٹر اقبال کے ہم وطن مولانا احمد علی سیالکوٹی سے پڑھیں ۔ عجمی ادب کا وسیع مطالعہ کیا اور فارسی کے متنبی کہلانے لگے۔ خطاطی میں منظور الدین خوش نویس مرحوم کو ایک مدت تک وصلیاں دکھائیں۔ عربی مولانا منور میاں قبلہ اور مولانا سید نصرت سے پڑھی۔ مولانا سید نصرت مرحوم جید عالم، شرافت اور اخلاق کا مجسمہ تھے۔ انہیں کی صفات حسنہ کا اثر شاگرد پر بہت زیادہ تھا۔ یہ تمام اساتذہ اپنے شاگرد کے ذہن رسا طبع وقار کا اعتراف کرتے تھے۔
بیس سال کی عمر میں حضرت توفیق نے اپنے پھوپی زادبھائی سید علی مرحوم مددگار صدر محاسب سرکار عالی کی دختر نیک اختر کے ساتھ شادی کی تھی۔  ان سے اولاد نہ ہوئی ان کے انتقال کے کچھ مدت کے بعد آپ نے دوسرا نکاح کیا۔ اس بیوی سے دو لڑکے اور دو لڑکیاں تولد ہوئیں۔حضرت سید علی مرحوم نے ایک بزم مناثرہ قائم کی جس کے حضرت توفیق رکن رکین تھے۔ اس بزم میں مجوزہ عنوانات پر شرکاء برجستہ تقریروں اور تحریروں کی مشق کرتے تھے۔ اسی بزم کی سرگرمیوں نے حضرت توفیق کو ایک اعلیٰ درجہ کا مقرر بنادیا۔ آپ کی تقریر اس قدر دلچسپ ہوتی تھی کہ سامع کبھی اکتاتا نہ تھا۔ بارہا ایسا ہوا کہ آپ نے کوئی قصہ چھیڑ دیا آدھی شب گزر گئی مگر یہ عالم ہے کہ سامعین بیٹھے سن رہے ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور انجمن کمال یار جنگ مرحوم نے بھی قائم کی تھی۔ جس میں آپ بالالتزام شریک ہوتے تھے۔
ابتداء میں ملازمت سررشتہ کروڑ گیری میں کی اس کے بعد دفتر صدر محاسب سرکار عالی میں (30) روپیہ ماہوار کی جائیدار پر منتقل ہوئے حساب اور ادب میں جو بعد ہے ظاہر ہے لیکن بخت ناساز کی زبونی اور چرخ کج رفتار کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جس کے عرفان خیز و و جد انگیز حقائق سے جہاں اد ب معمور تھا اس کو کسب ِمعاش کی خاطر دفتر حساب میں ملازمت اختیار کرنی پڑی آپ سررشتہ حساب میں اپنے فرائض نیک نامی کے ساتھ انجام دیتے رہے۔ اور ایک سو روپیہ مشاہرہ تک ترقی کی اگرچہ آپ قلیل المعاش تھے اور کسی اعلیٰ خدمت پر مامور نہ تھے لیکن اہل دفتر آپ کی عزت اور قدر و منزلت کرتے تھے اور ہر شخص آپ نے تیس سال کی ملازمت کے بعد چھپن سال کی عمر میں سرکاری خدمت سے سبکدوشی حاصل کی۔
16؍ذی الحجہ 1339ھ کو اتوار کی صبح کے چار بجے اس دنیائے ناپائیدار سے رحلت کی صبح ہوتے ہی آپ کے انتقال کی خبر تمام شہر میں پھیل گئی۔ سہ پہر کو اپنے خاندانی حظیرہ میں مدفون ہوئے آپ کے عزیزوں دوستوں اور ہم عصروں کو آپ کی وفات کا سخت صدمہ ہوا اور تمام اہل فن نے حسرت و تاسف کا اظہار کیا۔ صدر محاسب وقت قدر شناس تھے۔ سانحہ کی اطلاع ملتے ہی دفتر کو بند کردیا ملکی و بیرونی جرائد کے ایڈیٹر صاحبان نے ماتمی مقالے سپرد قلم کئے اور بیگم بازار میں آپ کا ایک تعزیتی جلسہ منعقد ہوا جس میں آپ کے ارتحال پرُملال پر نظمیں پڑھی گئیں۔ آپ کی وفات کا واقعہ ایسا جانگسل تھا کہ دکن کے ادبی حلقے آج تک آپ کے غم میں سیاہ پوش ہیں خدا مغفرت کرے۔آمین
ہمیشہ صوم و صلوٰۃ کے پابند اور ارکان دین پر کاربند رہے۔ اسلامی اصول کے شیفتہ مذہبی عقائد کے فریفتہ فرشتہ خصلت وضع دار نیک اطوار حلیم الطبع خوش اخلاق اور آزاد مشرب بزرگ تھے۔ ساری عمر صوفیانہ مشرب میں گزاری کبھی غافل نہ ہوتے۔ طبیعت میں انانیت تھی نہ رکاکت، نخوت تھی نہ تمکنت۔ جس بزم میں بیٹھتے شمع بزم بنتے کسی سے باتیں کرتے تو گویا پھول جھڑتے کسی کی باتیں سنتے تو ان کو سچ جانتے جس سے ملتے خلوص سے ملتے جہاں کہیں جاتے نیک طنیتی کا سکہ بٹھاتے رشتہ داروں سے محبت کرتے اور ملنے والوں سے مودت رکھتے بڑے روادار اور بے تعصب تھے۔اہل کمال کو سر آنکھوں پر بٹھاتے اپنے علم و فن کا کبھی دعوی کرتے نہ کمال سخن کا کسی کو زعم دکھاتے اپنے ہنر کو ارباب اقتدار کے نزدیک رسوخ کا ذریعہ بناتے نہ اپنے علم کو حسبِ جاہ یا حصول دولت کا وسیلہ گردانتے۔ علم کو علم کی خاطر کام میں لاتے ہر چند لوگ آپ کے کمال فن کو سراہتے لیکن آپ اس پر کبھی یقین نہ کرتے۔ نہایت مستغنی و منکسر المزاج تھے۔ان کی نثرکا ایک چھوٹا سا نمونہ پیش قارئین ہے۔
(ناظرین ! میں ایک ہیچمدان ژولیدہ زبان، زبان اہل زبان سے بے بہرہ دکھنی خاص حیدرآبادی شخص ہوں… حالات ذہنی کو لباس خارجی پہنا کر جلوہ گر کرنا میرا کام تھا ان کو اب تمغہ قبول عطا کرنا معزز ناظرین کا کام ہے فقط)
یہ دو سطریں آپ کی نثر کا نمونہ ہیں ان کے دیکھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کس درجہ منکسر تھے صفحہ ٔ گیتی پر آپ کی زندگی متانت و قناعت، شرافت و انسانیت، عبادت و ریاضت اور پارسائی و بے ریائی کا ایک مجسم نقش تھی۔ ایسے بزرگوں کی حیات بڑی سبق آموز ہوتی ہے اس لئے آپ کی سیرت کا مطالعہ نوجوانوں کے حق میں اکسیر سے کم نہیں۔آپ نے لمحات فرصت میں بہت سی کتابیں تصنیف وتالیف فرمائی ہیں۔ لیکن ایک سو فارسی کی رباعیات ایک مختصر انتخاب غزلیات اور ایک دیوان اردو کے سواء کوئی کتاب اب تک طبع نہیں ہوئی تصانیف کی فہرست حسب ذیل ہے۔
(۱) تذکرۃ الشعراء فارسی موسوم بہ ’’جواہر خانہ دکن (۲) کلمات طیبات (۳) الحقایق (۴) السلوک (۵) رسالہ علم عروض (۶) دیوان فارسی (۷) دیوان اردو موسوم بہ فانوس خیال (۸) ڈرامہ اردو ۔
ان کتب کے علاوہ کئی جلدیں مختلف مباحث پر لکھی ہیں جن کے مسودے آپ کے صاحبزادے سید امیر الدین صاحب توصیفؔ کے پاس محفوظ ہیں۔ ان تصانیف میں اخلاق و حکمت و تصوف و معرفت کا بڑا ذخیرہ ہے اور شائع ہونے کے قابل ہے۔دفتری مشاغل کے بعد جو وقت ملتا وہ تصنیف و تالیف و شعر گوئی و کتب بینی کے علاوہ خطاطی میں صرف ہوتا تھا۔ آپ نہایت خوشخط تھے کئی قطعات مطلا و مذہب بخط نسخ آپ کے تحریر کردہ موجود ہیں۔ کلام مجید کی بعض آیتوں اور سورتوں کے لکھنے میں خوشنویسی کا کمال صرف کیا ہے۔ آپ نے اپنے تلامذہ کی تعداد نہیں بڑھائی اور ہمیشہ فرماتے کہ ’’میں استاد بننے کے قابل نہیں ہوں‘‘۔
حضرت توفیقؔ نے یہی نہیں کہ اپنے کمال سخن سے چار دانگ عالم میں غیر فانی شہرت حاصل کی بلکہ اپنے شاگردوں کو بھی اس قابل بنادیا کہ وہ راہ مستقیم پر گامزن ہوکر شاعری کی منزل مقصودتک پہنچ جائیں۔ آپ کے شاگرد نورؔ مرحوم نے آپ کی کامیاب تقلید کی۔ نورؔ اور تنویر ؔدونوں اپنے استاد کی طرح صاحب دیوان ہیں اور ان کے دو اوین میں استاد کا رنگ صاف جھلکتا ہے۔
حضرت توفیق نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ حضرت توفیق کے حقیقی بھانجے جناب بخش صاحب توحیدؔ رسالہ ’’المصدق‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ایک زمانے تک توفیق اردو ہی میں زور طبع دکھاتے رہے اور فارسی کی طرف توجہ نہ کی۔ لیکن ایک دلچسپ واقعہ آپ کی فارسی شاعری کا محرک ہوا۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ آپ اکثر مہاراجہ کشن پرشاد کے مشاعروں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ جہاں حیدرآباد کے نامی گرامی شعر اور مہاراجہ کے اسٹاف کے شاعر گرامی ؔو ترکی ؔبھی موجود رہتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت توفیق اردو میں اپنا کلام سنارہیتھے۔ مشاعرہ میں دھوم مچ گئی اور ہر شخص توفیق صاحب کے اشعار کی تعریف کررہا تھا۔ یہ دیکھ کر ترکی صاحب کو یہ بات ناگوار گذرتی اشعار سن کر ترکی صاحب نے کہا اردو میں شعر کہنا کونسی کمال کی بات ہے۔ اگر فارسی میں شعر لکھیں تو یہ کمال ہوگا۔ یہ سن کر توفیق صاحب خاموش رہے۔ دوسری مرتبہ جب مشاعرہ میںشرکت کی تو اردو کے ساتھ ساتھ فارسی میں بھی شعر سنائے۔ تب یہ سن کر گرامی صاحب نے ترکی صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ دیکھا، کہنے والے فارسی اشعار یوں کہتے ہیں۔
ترکی صاحب یہ سن کر شرمندہ ہوئے اس کے بعد توفیق صاحب نے فارسی میں بھی طبع آزمائی کی۔حضرت توفیق کے شعر و سخن کا زمانہ یوں گذرا کہ آپ نے اپنی شاعری کے دور وسطیٰ میں شہرت کے تمام زینہ طئے کرلئے۔ ان کے اکثر مصرعے زبان زدخاص و عام ہوجاتے تھے۔ پورے شہر میں ان کے کلام کی دھوم تھی ان کی غزلیں غالب اور مومن کی یاد دلاتی ہیں۔ اسی لئے ان کو دکن کا غالب کہا جاتا ہے۔علامہ اقبال کی ایک بہت ہی مشہو ر غزل ہے۔
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدہ تڑپ رہے ہیں میری ایک جبین نیاز میں
اس شعر میں حضرت توفیق کی ایک مشہور غزل سامعین کے ذوق مطالعہ کے لئے پیش خدمت ہے۔
کبھی پردہ در ہوں میں راز کا کبھی ہوں میں پردۂ راز میں
کہ حقیقت اک مری مشترک ہے حقیقت اور مجاز میں
یہ کہاں کے جلوے سما گئے، یہ کہاں کی حیرتیں چھاگئیں
کہ ہزاروں آئینہ لگ گئے ہیں نگاہ آئینہ ساز میں
کبھی تو بھی طالب رحم ہو کبھی تو بھی غیر پہ جان دے
کبھی جلوہ گر ہو خدا کرے ترا ناز میرے نیاز میں
کہیں یہ بھی دیکھتے دیکھتے مری آنکھ سے نہ ٹپک پڑے
کہ گداز عالم خون دل ہے مرے جگر کے گداز میں
نہ کروں سلام جو کعبہ کو نہ کروں جو سجدہ تو کیا کروں
ہے خیالِ بت مرے سامنے میں کھڑا ہوا ہوں نماز میں
تری برق جلوہ جلا چکی تھی اٹھا کے پردۂ رخ مگر
مری بے خودی نے چھپالیا مجھے اپنے پردۂ راز میں
مری شہرتیں مجھے کھینچ لائیں فریب دے کے و گرنہ میں
وہ طلسم عالم راز ہوں کہ رہا ہوں مدتوں راز میں
در دل سے گوش قبول تک مرے مدعا کا گزر نہیں
وہ دہن ہوں جس میں زباں نہیں وہ زباں ہوں جس میں اثر نہیں
حضرت توفیق کے کچھ اور اشعار پیش خدمت ہیں…
بات بن جائے مری اور وہ سن لیں توفیقؔ
ہائے اس طرح کے اسباب کہاں سے لاؤں
مجھ کو نہ دشمن کی سی چالیں آتی ہیں نہ مکر و فریب کی گھاتیں پھر کامیابی کیوں کر ہوگی
حسن ملیح یار سے ڈرتے ہیں بادہ خوار
ظالم کہیں نمک نہ ملادے شراب میں
مزے کا شعر ہے نمک ملادینے سے شراب کا نشہ زائل ہوجاتا ہے۔
خود توفیقؔ اپنی گمنامی اور معدومیت کی نسبت فرماتے ہیں۔
پیدا ہوا ہوں جب سے آمادہ فنا ہوں
بے تابی شرر ہوں بربادی ہوا ہوں
اگر توفیقؔ دہلی یا لکھنؤ میں پیدا ہوئے ہوتے تو ہندوستان کے شمال و جنوب اور مشرق و مغرب میں ان کے کلام کے ڈنکے بجتے اور جوق و جوق سینکڑوں اشخاص ان کے فیض صحبت کو ڈھونڈتے پھرتے۔
’’فانوس خیال‘‘ کے مطالعہ سے اس امر کا پتہ چلتا ہے کہ مومن خاں اور مرزا غالبؔ دہلوی کا رنگ حضرت توفیقؔ کو اپنے ابتدائی دور شاعری سے بہت مرغوب تھا۔ ان دونوں اساتذہ کے رنگ میں کہتے کہتے اپنا ایک خاص طرز پیدا کرلیا۔طبعین غالبؔ میں شیفتہؔ میرٹھی، حالیؔ پانی پتی، ظہیر وذ کی دہلویؔ، سوزاںؔ سہارنپوری، وفاؔرامپوری اور توفیق حیدرآباد مشہور گزرے ہیں۔ فانی بدایونی، غالبؔ ہی کے خوشہ چین ہیں وحشت کلکتوی، غالبؔ ہی کے مقلد ہیں۔ اقبالؔ بھی غالبؔ ہی کے پیرو اور دور جدید میں غالبؔ کے نعم البدل سمجھے جاتے ہیں۔غالبؔ و توفیقؔ کے چند اشعار ہم مضمون یا ہم قافیہ اس امر کے ثبوت میں یہاں پیش کئے جاتے ہیں کہ توفیق پر غالب ؔ کا رنگ کس قدر غالب ہے۔
غالبؔ:  نہ لڑنا ناصح سے غالبؔ کیا ہوا اگر اس نے شدت کی
ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ے گریباں پر
توفیقؔ: فریب زندگی وابستہ جوش جنوں نکلا
رگ جاں کا گماں ہونے لگا تار گریباں پر
غالبؔ: افسردگی نہیں طرب افشائے التفات
یاں درد بن کے دل میں مگر جاکرے کوئی
توفیقؔ: دعویٰ ہے حسن کا تو ذرا بے حجاب ہو
بن کر شرار سنگ میں کیوں جاکرے کوئی
غالبؔ:  بسکہ روکا میں نے اور سینہ میں ابھریں پے در پے
میری آنکھیں بخیۂ چاک گریباں ہوگئیں
توفیقؔ: کی دفور ناتوانی نے تلافی چاک کی
جھک گئیں آنکھیں تو پیوند گریباں ہوگئیں
غالبؔ: اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالبؔ
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے
توفیقؔ:  دیکھ تو چل کے شہیدان وفا کا عالم
خون زخموں سے نکلتا ہے بہار آئی ہے