حضرت خواجہ بندہ نوازؒ کی فارسی شاعری کا ایک سرسری مطالعہ

سید محمد جعفر محی الدین حسینی قادری شرفی
مولائے من خواجہ دکن ابوالفتح سید محمد محمد الحسینی خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ کبھی کبھی بے ساختہ غزل اور رباعیاں بھی کہہ دیتے تھے ۔ جن کو ایک دیوان میں جمع کردیا گیا ہے ۔ اس دیوان کے مرتب اور جامع حضرت مخدوم خواجہ بندہ نواز کے برگزیدہ اور ممتاز مردی ہے ۔ جنہوں نے بوجہ کمال ادب اپنا نام بھی ظاہر نہیں کیا ۔ دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ حضرت بندہ نوازؒ کے فرزند اصغر حضرت سید محمد اصغر حسینی نے انہیں طلب کیا جب وہ حاضر ہوئے ، اوراق کا ایک مجموعہ جن میں حضرت مخدوم کی غزلیں لکھی ہوئی تھیں ، انہیں دیا اور فرمایا کہ اس کو ترتیب دے کر دیوان مرتب کردو ۔ اس حکم کی تعمیل میں انہوں نے یہ دیوان مرتب و مدون کیا ۔ اور اس کا نام ’’انیس العشاق‘‘ رکھا ۔ مرتب نے ترتیب و تکمیل کی تاریخ بھی دیباچہ میں نہیں لکھی ہے مگر بقول مولوی عطا محمد صاحب مرحوم ان کی تحریر سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام حضرت مخدوم کی زندگی ہی میں ترتیب دیا گیا ہے۔
حضرت مخدوم بندہ نوازؒ کے ملفوظ مسمی بہ ’’جوامع الکلم‘‘ میں آپ کی متعدد غزلیں منقول ہیں ۔ جس زمانہ میں آپ کے فرزند اکثر ان ملفوظات کو قلمبند کررہے تھے ۔ حضرت مخدوم جب کبھی کوئی غزل یا رباعی کہتے اسی روز یا ایک دو روز بعد اپنے فرزند جاکبر کو دے دیتے اور وہ اس روز کے ملفوظ کو شریک کرلیتے ۔ یہ سب غزلیں اس دیوان میں موجود ہیں ۔ بحوالہ دیباچہ اسماء الاسرار حضرت مخدوم گیسو دراز نہ شعر گوئی سے دلچسپی رکھتے تے اور نہ اس جانب توجہ فرماتے تھے ۔ بلکہ جب کبھی مضامین کی آمد ہوتی یا غلبہ حال سے مجبور ہوجاتے تو بتقضائے خاصیت طبیعت غزل کہہ دیتے ۔ اس لئے آپ نے اپنی غزلوں کے جمع کئے جانے کا خیال بھی نہیں کیا ۔ آپ کی بہت سی ایسی رباعیاں اور غزلوں کے اشعار جو آپ کی تصانیف میں پائے جاتے ہیں ۔ اس دیوان میں نہیں ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں صرف وہی غزلیں اور رباعیاں جمع کی گئی جو حضرت سید محمد اصغر حسینی کے پاس محفوظ تھیں ۔ یہ دیوان جملہ 327 غزل اور 66 اشعار کی ایک مثنوی اور 9 رباعیوں کا مجموعہ ہے ۔
شعراء کے عام طریقہ کے خلاف حضرت مخدوم نے اپنا کوئی ایک تخلص مقرر نہیں کیا تھا ۔ القاب اور کنیت کے ساتھ آپ کا پورا نام صدر الدین ابوالفتح محمد حسینی گیسو دراز تھا ۔
ان میں جو مناسب معلوم ہوا غزل میں مقطع کے طور پر استعمال کیا ۔ اور ایک غزل کے مقطع میں یہ سب الفاظ جمع کردئے ملاحظہ
اے ابو الفتح محمد صدرِ دیں گیسو دراز
مختصر کن چند نالحے قصۂ خود گرد آر
ذیل میں حضرت مخدوم کا مختصر ومنتخب کلام حق لسان ارباب طریقت اور قارئین کرام کی ضیافت طبع کے لئے پیش کیا جاتا ہے ۔
حضرت مخدوم کو شیخ شرف الدین سعدی علیہ الرحمہ سے بے حد عقیدت تھی ۔ ایک غزل کے دو شعر نقل کئے جاتے ہیں جن میں آپ نے اپنی جانب نہایت ہی لطیف طریقہ پر شاعرانہ تخیل کا اظہار فرمایا ہے۔
نظر کردن بخوبان دین سعدی است
محمد اہل دیں را مقتدا ایئست
اگر سعدی ست مستے چشم بازے
سفیر اللہ محمد رہنمایئست
حضرت سیدی کی ایک نہاتی مقبول غزل جو اظہار حقیقت کے اعتبار سے نہایت بلند پایہ ہے اس کا مطلع ہے ۔
منزل عشق از جہانِ دیگر است
مرد معنی را نشان دیگر است
اسی غزل کے طرز پر اسی بحر اور ردیف و قافیہ میں حضرت مخدوم کی بھی ایک غزل دیوان ’’انیس العشاق‘‘ میں ہے ۔ اس کا مطلع اور ایک شعر
مرد معنی از جہان دیگر است
گوہر لعلش زکانِ دیگر است
کتشگان غمزۂ عشاق را
ہر زماں از لطف جانِ دیگر است
حضرت امیر حسن سنجری علیہ الرحمہ کی ایک غزل کا ایک عجیب و غریب اور حقیقت سے سراسر لبریز شعر جس کا مضمون نہایت لطیف پیرایہ میں ادا کیا ہے یہ ہے کہ
دوش دیوانہ چہ خوش می گفت
ہر کراء عشق نیست ایمان نیست
حضرت مخدوم کو یہ شعر اس قدر پسند آیا کہ اس غزل کی طرز پر ایک غزل کہی اور اس کے ایک شعر میں سحن کے شعر کے مصرعہ ثانی کو علی حالہ قائم رکھا ۔
عشق بر خط و قال مذہب و دین است
ہر کراء عشق نیست ایمان نیست
حضرت بندہ نوازؒ کے چند اشعار سرسری طور پر نقل کئے جاتے ہیں تاکہ اہل نظر دیکھیں کہ حضرت کا کلام کس قدر بلند پایہ اور اکابر شعراء کے کلام کے ہم پلہ ہے اور ان میں حقائق و معارف کس لطیف طریقے پر بیان کئے گئے ہیں ۔ ملاحظہ ہوں چند اشعار۔
گر یک نفسے شود میسر
با یار عزیز عمراں است
در در سر آں نفس بر آمد
جان و دل و تن مگر زیاں است
عشق بازی خطر کہ برجان است
عشق بازی تمام ایماں است
مئے صافی ندارم تاکنم غسل
تیمم بر در خمار کر دیم
زآب دیدگاں کردیم و ضوے
نماز جانب آں یار کر دیم
محمد تاکہ در صدر حیات است
کشادہ بیں ازیں اسرار کردیم
حضرت بندہ نواز کی ایک رباعی جس میں آپ نے ہجر و وصال کی کیفیت بیان کی ہے پیش خدمت ہے ۔
از درد فراق اگر نہ نالم چہ کنم
روز و شب اگر در نہ خیالم چہ کنم
می گوئی با نوام نہ ام ہرگز دور
در عین حضور بے وصالم چہ کنم
حضرت بندہ نواز کی ایک غزل
شاہ بارش اے عاشق دیدار یار
فارغ از نابود بود روزگار
غرقہ در دریائے مستی و خوشی ست
آنکہ او میگوں بے دارد کنار
ہر کہ باخوباں نشتہ خاستہ است
گرچہ باشد محنت درد و فگار
جرعۂ یابم اگر از جام عشق
جاں و دیں و دل کنم بروئے نثار
ہر کہ از یاراں رشد خوش تر بود
گرہ باشد محنت در و فگار
گر ترا با سر و بالائی فتد
پست گرد و زیر پائش شد غبار
جعد او دیدم محمد بر سریں
وہم بر دم بر کہے بر رفتہ مار
حضرت مخدوم کے اس شعر پر میں اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ
سخن کو تاہ کن گیسور درازا
چوں میدانی کہ محرم در جہاں نیست