حضرت جمیل بن معمرؓ خوف الٰہی سے لرزاں اور اطاعت الٰہی میں سرگرم رہتے

حیدرآباد ۔۱۹؍جنوری( پریس نوٹ) فتح مکہ سے پہلے مشرف بہ ایمان ہونے والے ہوں یا فتح مکہ کے بعد دولت اسلام سے مال مال ہونے والے ہوں جو بھی حضور انورؐ کے دامن اقدس سے وابستہ ہوا اور صحبت مقدسہ سے مشرف ہوا وہ رضاے حق کا مستحق اور صحابیت کے اعزاز و شرف سے دارین میں ممتاز و مفتخر ہو گیا تمام اہل ایمان پر ان کا تفوق اور فضیلت اظہر من الشمس ہے ان عظیم المرتبہ ہستیوں میں حضرت جمیلؓؓ بن معمر بھی شامل ہیں جنھیں ایک خاص وقت توفیق حق ہوئی اور انھیں داخل اسلام اور وابستہ دامان حبیب کبریا ؐ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح ۹ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور گیارہ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی، مالاکنٹہ روڈ،روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۰۷۸‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے علی الترتیب پہلے سیشن میں احوال انبیاء علیھم السلام کے تحت حضرت سلیمان علیہ السلام کے مقدس حالات اور ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے ضمن میں صحابی رسول ؐمقبول حضرت جمیل بن معمرؓ کے احوال شریف پر مبنی توسیعی لکچر دئیے۔قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے دونوں سیشنس کا آغاز ہوا۔مولانا مفتی سید محمد سیف الدین حاکم حمیدی کامل نظامیہ نے خیر مقدمی خطاب کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی جائنٹ ڈائریکٹر آئی ہرک نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا بعدہٗ انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۸۲۱‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔اہل علم حضرات اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔ ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوے کہا کہ یقینا متلاشیان حق نیک خو اور فطرتاً سلیم مزاج لوگوں کا خاصہ ہے کہ جب ان کے سامنے حق اور راستی کا کوئی امر پیش کیا جاتا ہے

تو وہ اسے قبول کر لیا کرتے ہیں حضرت جمیلؓ بن معمر بھی انہی میں شامل تھے اگر چہ کہ ایک عرصہ تک وہ شرف اسلام سے دور رہے تاہم جب حضرت عمر بن خطابؓ نے اسلام قبول کر لیا تو ان کے قبو ل ایمان کی اطلاع کے عام کرنے کے ضمن میں حضرت جمیل بن معمرؓ پیش پیش تھے جو ںہی انھیں معلوم ہوا کہ حضرت عمر بن خطابؓ مشرف بہ ایمان ہو چکے ہیں تو وہ سیدھے سردار ان قریش کے مجمع میں جا پہنچے اور انھیں حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کی خبر دی۔ ان کے پیچھے خود حضرت عمرؓ بھی پہنچے اور اپنے اسلام کی توثیق فرمائی۔ اس وقت تک حضرت جمیل بن معمر اپنے پرانے عقائد پر ہی تھے لیکن فتح مکہ میں خود بھی دولت ایمان سے مالا مال ہو گئے۔ اس ضمن میں ایک اور روایت ملتی ہے کہ حضرت جمیل بن معمرؓ فتح مکہ سے پہلے ہی ایمان لا چکے تھے اور رسول اللہؐ کی عنایات خاص سے بہرہ مند رہا کرتے تھے۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے کہا کہ حضرت جمیل ؓ قریش کے خاندان جمحی سے تعلق رکھتے تھے ان کا شجرہ نسب حذافہ بن جمح قرشی سے جا ملتا ہے۔ جب سے اسلام قبول کیا پوری استقامت کے ساتھ اس پر قائم رہے اور دین کی خدمت ، شوکت، تبلیغ و اشاعت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا غزوہ حنین میں حفاظت و حمایت دین میں ان کی تلوار کا چمکنا ان کے غیر معمولی اور پرجوش جذبہ کا آئینہ دار تھا ۔ ان کے شجاعانہ جواہر ہمیشہ کے لئے اسلام کے واسطے وقف ہو گئے۔ اسی معرکہ حنین میں انھوں نے زہیر بن ابجر کوکیفر کردار تک پہنچایا تھا۔

حضرت جمیلؓ بن معمر خوف الٰہی سے ہمیشہ لرزاں رہا کرتے اور اطاعت الٰہی میں سدا سرگرم رہتے۔ محبت رسول اللہؐ سرمایہ حیات تھا ۔ذات اطہر ؐ سے سچی وابستگی نے انہیں اتباع سنت کا پیکر بنا دیا تھا۔ حضرت فاروق اعظم ؓ کے ساتھ خاص تعلق اور چاہت تھی۔ عہد فاروقی میں معرکہ مصر میں ان کا نام نمایاں طور پر ملتا ہے۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ بھی انھیں بہت عزیز رکھتے تھے۔ حضرت جمیل بن معمرؓ نے طویل عمر پائی اور زندگی کی زائد از ایک سو بہاریں دیکھ کر اس دارفانی سے کوچ کیا۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت ؐ میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر اجلاس تکمیل پذیر ہوے ۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے ابتداء میں خیرمقدم کیا اور جناب محمد مظہر حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔