حضرت امیر خسرو

محمد قیام الدین انصاری کوثر

حضرت امیر خسرو 1253ء میں سلطان شمس الدین التمش کے عہد میں قصبہ پٹیالی (مومن آباد) ضلع ایٹہ (آگرہ) میں پیدا ہوئے ۔ آپ باپ کی طرف سے ترک اور ماں کی جانب سے ہندوستانی تھے ۔ خسرو نے سلطان غیاث الدین بلبن سے لے کر سلطان محمد تغلق تک گیارہ شاہان دہلی کا زمانہ تھا اور سات بادشاہوں کی ملازمت کی ۔ شاعری کا شوق ابتدائے عمر ہی سے تھا ۔ 16 برس میں جملہ رلوم عقلی اور نقلی میں یدطولی حاصل کیا ۔ غزل ، مثنوی ، قصیدہ اور رباعی پر دسترس رکھتے تھے ۔ عہد خلجی کے مشہور مورخ انہیں ملک الشعراء قرار دیتے ہیں ۔

سچ تو یہ ہیکہ سلطان الشعراء ، طوطی ہند حضرت ابوالحسن امیر خسرو دہلوی ان باکمال ہستیوں میں ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں ۔ حضرت امیر خسرو شاعر و ادیب ہونے کے علاوہ سپاہی ، صوفی ، محب وطن ، ماہر لسانیات و موسیقی ، رواداری ، وسیع المشربی کے علمبردار تھے ۔ خسرو قومی یکجہتی اور تہذیب ہم آہنگی کی عمدہ مثال تھے ۔ انہوں نے غزلوں ، نظموں ، گیتوں ، دوہوں میں وطن سے تعلق خاطر کا اظہار کیا ہے ۔ ان کے اشعار وطنیت اور قومیت کے جذبہ سے سرشار ہیں ۔ خسرو امن و شانتی ،صلح و آشتی کے امین وقدردان تھے ۔
تیرہویں صدی کے نصف اول میں آپ نے اپنی تصانیف اور عملی زندگی کے ذریعہ جو پیغام دیا تھا وہ آج بھی اہمیت کا حامل ہے اور ضرورت اس امر کی ہیکہ فی زمانہ بھی اسے عام کیا جائے جو وقت کا تقاضہ ہے
خسرو نے برج بھاشا کی زمین میں فارسی کا بیج بویا ۔ پہلے وہ ہندی بنی پھر ریختہ کہلائی اور آخر کار اردو کے نام سے مشہور ہوئی ۔ ان کا ایک صوفیانہ شعر ملاحظہ ہو

خشک تارو خشک چوب و خشک پوست
از کجامی آید ایں آواز دوست
یعنی اگر خدائے قوت کارگر نہ ہوتی تو بے جان اشیا میں حرکت کیوں پیدا ہوتی ۔
عشق حقیقی کے تعلق سے ان کا یہ شعر ملاحظہ ہو
من تو شدم تو من شدی من جاں شدم تو تن شدی
تاکس نہ گوید بعد ازاں من دیگرم تو دیگری
حضرت امیر خسرو کو ہندوستان کے پھولوں ، پھلوں ، زبانوں ، موسموں، جانوروں اور پرندوں سے عشق تھا ۔ آپ نے فارسی کے علاوہ ہندی اور قدیم اردو کو اظہار خیال کا ذریعہ بنایا ۔ ایک شعر ملاحظہ ہو
شبان ہجراں ، دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیرے رتیاں
آپ نے نہ صرف ہندوستانی موسیقی میں کمال حاصل کیا بلکہ کئی راگوں اور آلات موسیقی کے موجد سمجھے جاتے ہیں ۔ دربار شاہجہانی میں لکھا ہیکہ آپ نے چار خصوصی راگ ایجاد کئے جن میں سے ایک بہار راگ بھی شامل ہے ۔ آپ نے قوالی کی اختراع کی اس کے علاوہ موسیقی کی خاص قسم ’’خیال‘‘ کی ابتداء کی ۔ آلات موسیقی جس میں ستار ، ڈھولک اور جل ترنگ کی ایجاد کی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امیر خسرو کی رواداری ، وسیع المشربی اور وطن دوستی کے ان کے پیغام کو عام کیا جائے ۔ ہمارے ملک کے بعض عناصر میں قومیت کا صحیح احساس پیدا نہیں ہوا ۔ علاقہ ، زبان ، رنگ ، نسل اور مذہب کے اختلافات قومیت کے راہ میں حائل ہیں انہیں حضرت امیر خسرو کے وطن دوستی کے پیغام کو عام کیا جائے تاکہ ہم مشترکہ تہذیب اور متحدہ قومیت کے تصور کو عملی جامہ پہناسکیں ۔