حصول تحفظات کیلئے شعور بیداری مہم

تلنگانہ؍ اے پی ڈائری         خیر اللہ بیگ
چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کا دورہ چین تلنگانہ میں سرمایہ کاری کا دریا بہادے گا تو ہر ایک کو خوشحالی نصیب ہوگی۔ چیف منسٹر کے دورے میں غیر ملکی سودے بازی یا ذاتی مصلحت نہیں ہے تو پھر حالات تیزی سے بدل جائیں گے۔ چیف منسٹر کو اپنی ریاست کی خشک سالی سے نمٹنا ہے۔ چین سے واپسی کے بعد ان کے سامنے خود ان کے ضلع میں کسانوں کی اموات کا مسئلہ پہلے سے زیادہ بھیانک شکل لے کر کھڑا ہوگا۔ چین کے لیو گروپ نے 1000کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی دکھائی ہے۔ چیف منسٹر کا یہ 10روزہ دورہ ورلڈ اکنامک فورم کا حصہ ہے۔ دورہ کی شروعات اچھی رہی ہے، ان کی مخالفت کرنے والوں کیلئے یہ بُری خبر ہے کہ چیف منسٹر نے تلنگانہ کی ترقی کے لئے اپنے ویژن کو پیش کرتے ہوئے چین کے اہم شہروں کے میئرس کے تجربات اور ان کے نظریات کو حاصل کرتے ہوئے تلنگانہ کے شہروں کو ترقی دینے کا مضبوط ارادہ کرلیا ہے۔ حیدرآباد کی ترقی چین کے اہم شہروں کے خطوط پر کی جائے گی لیکن ان کے کٹر مخالف تلگودیشم لیڈر نے چیف منسٹر کے دورہ چین کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ شیر کی حیدرآباد واپسی پر گیدڑ شہر چھوڑ کر چین چلا گیا ہے۔ ریونت ریڈی کو عدالت نے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے ضلع تک محدود رکھنے کی شرط بھی ہٹالی ہے۔ انہوں نے تلگودیشم کا تلنگانہ سے صفایا کردینے کی دھمکیوں کے جواب میںکہا کہ تلگودیشم کوئی شراب کی بوتل نہیں ہے جو راتوں رات خالی ہوجائے گی بلکہ یہ پارٹی تلنگانہ سرزمین پر اپنے قدم مضبوطی سے قائم رکھے گی۔ تلگودیشم کو تلنگانہ میں اول تو سیاسی پیچیدگیوں کا سامنا ہے اور اس کے لیڈران جیسے ریونت ریڈی اپنی پارٹی کے سربراہ چندرا بابو نائیڈو کی آرزوؤں کو پورا کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں مگر تلنگانہ میں تلگودیشم کا وجود کتنی دیر تک ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ تلنگانہ کی ترقی کیلئے ٹی آر ایس حکومت نے جو منصوبے بنائے ہیں یہ ابھی کاغذی کشتیاں بن کر تیررہی ہیں۔ ترقی پذیر معاشروں میں مطلوبہ سماجی تبدیلی کی عملی شکل اس روایت پرست معاشرہ میں روایتی طرز فکر اور تلنگانہ کے ساتھ اب تک ہوئی منفی کارروائیوں کو ختم کرکے ٹی آر ایس نے جس تیزی سے سماجی، معاشی تبدیلی لانے کی سمت قدم اٹھایا ہے۔ اس کے نتائج چیف منسٹر کے سی آر کے دورہ چین سے واپسی کے بعد دھیرے دھیرے سامنے آتے ہیں تو عوام کو ان کی حکومت سے اُمیدیں وابستہ کرنے کا حوصلہ ملے گا۔ تلنگانہ حکومت نے ضلع میدک میں کمزور طبقات کے لئے 285دو بیڈروم کے مکانات کی تعمیر کیلئے 7ستمبر کو احکام جاری کئے ہیں

لیکن اس سے قبل 6جون کو بھی حکومت نے ورنگل کے سلم علاقوں میں 1500 مکانات کی تعمیر کے لئے احکام جاری کئے تھے ۔ محبوب نگر کے تین سلم علاقوں میں 2000 مکانات  تعمیر کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے لئے ٹنڈرس کی طلبی کا مرحلہ پورا نہیں ہوا کہ اب ریاست کو شدید خشک سالی کا سامنا ہے تو کمزور طبقات کے لئے مکانات کی فراہمی کا منصوبہ بھی صرف ٹنڈرس تک ہی محدود رہے گا۔ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کا عمل بھی اب شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اب تک مسلمانوں کی معاشی، تعلیمی اور سماجی حالت پر تیار کردہ کمیشنوں اور کمیٹیوں کی رپورٹ کو برفدان میں ڈال کر حکومت تلنگانہ نے ایک نیا کمیشن بنایا ہے جو جامع رپورٹ تیار کرے گا تاکہ مسلمانوں کو تحفظات دینے کی راہ ہموار ہوسکے۔ اس طرح سے کمیشن کے قیام اور رپورٹ کی تیاری تک نئے انتخابات آئیں گے اور پھر مسلمانوں کو ان کی سماجی، تعلیمی اور معاشی مسائل سے چھٹکارا دلانے کا وعدہ کرکے ووٹ لینے کی کوشش کی جائے گی۔ ریٹائرڈ آئی اے ایس آفیسر جی سدھیر کی زیر قیادت کمیٹی تلنگانہ کے مسلمانوں کی معاشی حالت کا جائزہ لے رہی ہے اور ان کی آمدنی کے ڈاٹا تیار کررہی ہے جس سے مسلمانوں کی مالی حالت کا اندازہ ہوجانے کے بعد چیف منسٹر کیا اقدامات کریں گے آیا مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات دینے کا عمل شروع ہوجائے گا،

یہ وقت ہی بتائے گا ۔ مسلمانوں میں تحفظات کے لئے شعور بیداری مہم شروع کی گئی ہے اس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں ۔ہر منڈل اور ضلع سطح پر مسلم تنظیمیں اور افراد مختلف عہدیداروں کو یادداشتیں پیش کررہے ہیں۔ اگر اجتماعی کوششوں کو مضبوط بناکر حصول تحفظات میں پیشرفت ہوتی ہے تو یہ بڑی کامیابی کہلائے گی۔ جب کسی قوم کو اپنے حقوق حاصل کرنا ہوتا ہے تو اس میں شدت پیدا کرنی ضروری ہوتی ہے۔ جب عمارت تعمیر کرنی مقصود ہوتی ہے تو پہلے زمین ہموار کی جاتی ہے پھر بنیادیں کھودی جاتی ہیں اور پھر اینٹیں رکھ کر سمنٹ سے بنیادیں تعمیر کی جاتی ہیں، سال دو سال میں عمارت مکمل ہوجاتی ہے۔ قدرت کا اپنا نظام ہے اور وہاں بعض اوقات تعمیر کا یہ سفر صدیوں پر محیط ہوتا ہے اس لئے مسلمانوں کو اپنے حقوق کے حصول کیلئے بنیادی جدوجہد کرنی ہوتی ہے۔آج یہ مسلمان اپنے لئے لڑ رہے ہیں تو انہیں اس کے ثمرات ملیں یا نہ ملیں آنے والی نسلوں کو یہ یاد رہے گا کہ ان کے بزرگوں نے حقوق کے حصول کیلئے محنت کی تھی، یہ لوگ یہ ہرگز نہ سمجھیں گے کہ اس دور کے مسلمان کنگلے اور پھٹیچر حالت میں تھے اور صرف پیٹ پوجا میں لگے رہتے تھے، ان کا اپنے ملی و ملکی معاملات سے کوئی سروکار نہیں تھا، موجودہ دور کے مسلمان آنے والی مسلم نسلوں کے لئے اچھے کارنامے چھوڑ جائیں تو ماضی کے مسلم قائدین اور مسلم حکمرانوں کی طرح آج کے مسلمانوں کو بھی آنے والی نئی نسلیں یاد رکھیں گی کہ ان کے بزرگوں نے حکومت وقت سے اپنے حق کے لئے لڑا تھا، جس کے بعد ہی انہیں سرکاری اداروں اور کالجس میں ان کیلئے ملازمتوں میں 100دیگر طبقات میں سے 12مسلمانوں کو ملازمتیں حاصل ہوئیں۔ اگر کسی محکمہ میں 100 جائیدادیں خالی ہوں تو وہاں 12مسلمانوں کو ملازمت ملنا لازمی ہوجائے گا۔ اس طرح آئندہ برسوں میں مسلمانوں کے تحفظات کا مسئلہ سیاسی نوعیت سے کیا رُخ اختیار کرے گا یہ سوچے بغیر مسلمانوں کو اپنے اور اپنی آنے والی نسل کیلئے جدوجہد کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی کیونکہ بغیر کوششوں کے کچھ نہیں ملے گا۔ آج کی دنیا علم کی دنیا ہے

اس لئے مسلمانوں کے بچے بھی تیزی سے حصول علم کیلئے آگے آرہے ہیں۔ یہ خبر بھی دیگر مسلم خاندانوں کے لئے دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ ایک کارپنٹر کی لڑکی کو ایم بی بی ایس میں فری داخلہ ملا ہے۔ اس لڑکی نے اپنی عملی ذہانت اور جسجتو سے یہ سیٹ حاصل کی ہے۔ 11بھائی بہنوں میں تعلیمی مصروفیات کو جاری رکھ کر یہ ثابت کیا گیا کہ کنبہ بڑا اور مفلوک الحال ہونے سے کسی کے تعلیمی عزم میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی، اسے جدوجہد اور شوق کے ذریعہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کے تعلق سے  تاریخ شاہد ہے کہ یہ ایک شاندار قوم ہے اس کی بصیرت اور کردار کے اعلیٰ ترین نمونے موجود ہیں۔ حیدرآباد میں بھی  مسلمانوں کی شاندار تاریخ رہی ہے تاہم عظمت کی ان منزلوں میں نہایت بلند مقام ان شخصیتوں نے پایا ہے جو قوم کی خدمت کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس عظمت نشاں قوم نے ایسے بھی لیڈر منتخب کئے ہیں مگر ان لیڈروں نے انہیں کچھ نہیں دیا۔ میڈیکل کالج قائم کئے گئے مگر ان میں دولت مندوں کے بچے پڑھتے ہیں، دواخانے چل رہے ہیں جہاں مریض کو مرنے تک نہیں چھوڑتے، ان کے رشتہ داروں کو بھی ایسا پریشان کرتے ہیں کہ دواخانہ کا رُخ کرنے کے لئے گھبرا جاتے ہیں۔ پھر بھی خدا نے اس قوم کو اپنے فضل و کرم سے ایسی بے کراں بصیرت عطا کی ہے کہ وقت آنے پر اپنے حقوق کیلئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس قوم کے لیڈروں کے اختیارات کی حقیقت اور اقتدار کے سراب کہنے کی بھی صلاحیت پیدا کرلی ہے لیکن اپنے لئے پھر بھی تحفظات اور قانونی حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد کرنے میں پیچھے رہے ہیں۔ انہیں ایسی آزمودہ سیاسی طاقتوں سے چوکس و چوکنا رہنے کی بھی صحافت کے ذریعہ شعور بیداری مہم چلانی باقی ہے۔ اگر اس شعور بیداری کے ذریعہ قوم اجتماعی طور پر اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ ایک بڑی پیشرفت ہوگی۔ پہلی کوشش 12فیصد تحفظات کے حصول میں کامیابی ہے۔
kbaig92@gmail.com