حسن عسکری

 

میرا کالم مجتبیٰ حسین
پچھلے ہفتہ دوپہر کے کھانے کے بعد حسب معمول ہم قیلولے میں مصروف تھے کہ حسن عسکری کے برادر نسبتی ریاضؔ (جو اب آغا علمدار حسین کہلاتے ہیں) کا فون آیا کہ ابھی آدھا گھنٹہ پہلے مڈل سیکس (برطانیہ) میں آپ کے قدیم دوست پروفیسرحسن عسکری کا انتقال ہوگیا ۔ ایسی اندوہناک خبریں سن کر ہمارے دل پر بجلیاں سی ضرور گرتی ہیں لیکن ایسی بجلیاں اب اتنے تواتر اور تسلسل کے ساتھ گرنے لگی ہیں کہ ہمارا دل خود بخود صبر ایوبی کا عادی ہوتا چلا جارہا ہے (بیچارہ دل) ۔ تاہم یکبارگی ہمارا جی چاہا کہ کیوں نہ ہم خود ہی بے ساختہ اور برملا اس ناہنجار بجلی پر جاگریں جو ہمارے دل پر آن گری ہے۔ یہ تو خیر نہ ہوسکا البتہ یہ احساس ضرور ہوگیا کہ ہماری اور حسن عسکری کی دوستی کے جس سفر کا آغاز چھپن برس پہلے جون 1953 ء کی کسی تاریخ کو دبیر پورہ ریلوے اسٹیشن پر ہوا تھا اب وہ ہمیشہ کیلئے رُک گیا ہے۔ ہم گلبرگہ سے انٹرمیڈیٹ پاس کر کے عثمانیہ یونیورسٹی میں بی اے کے پہلے سال میں داخل ہوئے تھے اور غالباً حسن عسکری ان دنوں ایم اے کے آخری سال میں تھے ۔ ہم دونوں دبیر پورہ اسٹیشن سے آرٹس کالج جایا کرتے تھے۔ ہمارا ایک اور پیارا دوست نقی تنویر ہم سے دوستی کے معاملہ میں حسن عسکری سے دو تین دن سینئر تھا ۔ حسن عسکری عموماً اپنے ایک اور دوست عبدالرحمن کے ساتھ اسٹیشن پر آتے تھے ۔ دونوںہی کا قد چھ فٹ سے کچھ زیادہ ہی نکلتا ہوگا ۔ ہم اکثر مذاق میں نقیؔ سے کہتے تھے کہ یہ دونوں ٹرین کے مسافر نہیں بلکہ ٹرین کے سگنل ہیں اور یہ سچ بھی ہے کہ جب تک یہ دونوں نہیں آتے ٹرین بھی نہیں آتی تھی۔ عسکری کی شخصیت میں ایک ایسی کشش تھی اور ان کے رکھ رکھاؤاور چال ڈھال میں ایسا سلیقہ تھا کہ جیسے ہی انہیں دیکھا اسی وقت Friendship at first sight کا عمل ہماری ذات میں شروع ہوگیا۔ ہم نقی تنویر کے ساتھ دبیر پورہ ا سٹیشن پر ٹرین کا انتظار کرتے تھے اور حسن عسکری اپنے دوست عبدالرحمن کے ساتھ آتے تھے ۔ ایک دن نقی تنویر نہیں آئے اور دوسری طرف عبدالرحمن بھی غیر حاضر ہوئے تو ہم نے موقع کو غنیمت جانا اور کسی تکلف کے بغیر حسن عسکری سے اپنا تعارف کرایا کہ ’’جناب ! میں Rural Talent ہوں اور گلبرگہ سے آیا ہوں۔ بی اے کاطالب علم ہوں اور آپ سے ملنے کا مشتاق ہوں‘‘۔ حسن عسکری نے خالص علمی انداز میں ایک معتبر اور مستند قہقہہ لگایا اور کہا ’’ضرور ملئے ، مجھے بھی آپ سے مل کرنہ صرف خوشی ہورہی ہے بلکہ آئندہ بھی ہوتی رہے گی ‘‘۔ عسکری نے جب اپنی پاٹ دار آواز میں یہ جملہ ادا کیا تو ان کی آواز کے اُتار چڑھاؤ سے ہم کچھ ایسے متاثر ہوئے کہ یوں لگا جیسے کسی نے ہم پر جادو کردیا ہو۔ یوں ہم پہلے تو ان کے حلقۂ اثر میں چلے گئے اور جلد ہی ان کے حلقہ احباب میں شامل ہوگئے۔ ہم فرحت نگرمیں رہتے تھے اور وہ دبیر پورہ کے حسینی محلہ میں اپنے والد جناب علی نقی کے ساتھ رہتے تھے جو کسی زمانہ میں نواب آف بیگن پلی کی اسٹیٹ کے سیشن جج رہ چکے تھے ۔ آرٹس کالج میں تو حسن عسکری سے کم ہی ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ لیکن اورینٹ ہوٹل اوران کے گھرپر باقاعدگی سے محفلیں جمنے لگیں۔

عسکری کی باتوں میں کچھ ایسا سحر ہوتا تھا اور ان کے انداز بیان میں ایسی بصیرت ، دلآویزی ، فلسفیانہ تہ داریاں اور نئے نئے نکتے ہوتے تھے کہ وہ کہے اور سناکرے کوئی والا معاملہ ہوتا تھا ۔ ایک زمانہ میں حسن عسکری سائیکل پر اورینٹ ہوٹل جاتے تھے اور جاتے ہوئے بالعموم ہم ان کی سائیکل کے کیریئر پر اور واپسی میں ہم سائیکل کی سیٹ پر اور حسن عسکری کیریئر پر پائے جاتے تھے ۔ پھر واپسی میں دیر تک ان کے گھر کے برآمدے والے چبوترے پرمحفل جمتی تھی جس میں محمد ہادی صاحب (جو ان دنوں صاحب فراش ہیں) ، آصفیہ لائبریری کے حسن مرزا اور ہم موجود ہوتے تھے ، کبھی کبھار اختر زیدی بھی شریک ہوجاتے تھے ۔ البتہ رات کو گیارہ اور بارہ بجے کے درمیان ایک ضعیف بھکاری ضرور وہاں آجاتا تھا جسے عسکری بڑے چاؤ سے کھانا کھلاتے اور پیسے دیتے تھے۔ وہ ہماری باتوں میں شریک تو نہیںہوتا تھا البتہ ہماری باتیں بڑے غور سے سنتا تھا۔ علم و دانش، فلسفہ و مذہب ، شعر و ادب کا کوئی موضوع ایسا نہیں تھا جو ان بیٹھکوں میں زیر بحث نہ آیا ہو۔ ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ہماری ذہنی تربیت اور ذات کی تشکیل میں عسکری کی صحبتوں اور ان کے ہاں ہونے والی غیر رسمی بیٹھکوں کا بڑا دخل ہے ۔ مغربی ادب ، آرٹ ، موسیقی ، فلسفہ اور نئے نئے نظریات سے ہم پہلے پہل یہیں روشناس ہوئے ۔ حسن عسکری کے مشورے پر ہی ہم نے غفلت میں مشہور جرمن فلسفی نطشےؔ کو ذرا سنجیدگی سے پڑھ لیا ۔ تب ہم پر کچھ ایسی ذہنی کیفیت طاری ہوگئی کہ ہم اپنے ذہنی اور جذباتی بحران پر قابو پانے کی غرض سے راتوں کو حیدر گوڑہ کے عیسائیوں کے قبرستان میں اکیلے جاکر بیٹھنے لگے ۔ دو ایک دوستوں نے مشہور کر دیا تھا کہ ہماری کوئی نوخیز محبوبہ یہاں دفن ہے جس کی یاد میں ہم بے خوف و خطر آدھی رات کو قبرستان میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ عسکری کو اطلاع ملی تو تاڑ گئے کہ ناتجربہ کاری کے باعث ہم نطشےؔ کے فلسفہ سے پیدا ہونے والی بدہضمی کے عارضہ میں گرفتار ہیں۔ بعد میں اس کا علاج انہوں نے اپنی عالمانہ اور فلسفیانہ باتوں کے علاوہ برگساںؔ اور ڈکارٹؔ کے فلسفہ کے نسخوں سے کیا ۔ ہمارے دوست مجید صدیقی مرحوم (رفیعہ منظورا لامین کے بڑے بھائی) کا کہنا تھا کہ اگر نطشے کے فلسفہ نے تمہارے اندر دنیا کی ناپائیداری کا سچا ادراک پیدا کیا ہوتا تو تم مسلمانوں کے کسی قبرستان میں جاکر بیٹھ جاتے ۔ عیسائیوںکے قبرستان اتنے صاف ستھرے اور پاک ہوتے ہیں کہ یہاں جانے کے بعد آدمی میں زندگی کی ناپائیداری کا نہیں بلکہ زندگی اور دنیا کی پائیداری کا احساس اور بھی فزوں تر ہوجاتا ہے ۔ ایسی آرام گاہیں تو ہمارے گھروں میں بھی نہیں ہوتیں۔ اسی دور ناپائیداری میں ہم نے موت کے موضوع پر دس کہانیاں بھی لکھی تھیں جنہیں حسن عسکری نے بہت پسند کیا تھا ۔ ان کہانیوں کے بعض سامعین میں اسد جعفری ، احمد معظم ، احسن علی مرزا ، اعجاز قریشی اور چندر سری واستو بھی شامل رہے ہیں۔ موخر الذکر دو سامعین اب بھی ہمارے درمیان موجود ہیں ۔ بعد میں ہم نے مزاح نگاری کو اپنایا تو یہ کہانیاں بھی غالباً دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ ڈھونڈے سے بھی یہ کہیں نہیں ملیں۔ حسن عسکری کی زندگی کی بعض تلخیوں اور غمگین سچائیوں کا ہمیں بخوبی علم ہے جن کی تفصیل میں جانا اب مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ ایک ہی گھر میں رہنے کے باوجود وہ اپنے والد سے بوجوہ خوش نہیں رہے حالانکہ وہ بھی بڑے عالم و فاضل اور علم دوست آدمی تھے ۔

والد چونکہ بے حد کفایت شعار اور منظم آدمی تھے ، اسی لئے عسکری نے شاید انتقاماً اپنے آپ کو نہایت فضول خرچ، لاپرواہ ، بے راہرو اور غیر ذمہ دار انسان بنالیا تھا ۔ ان کی فضول خرچی کے پس منظر میں ہم نے ایک بار امریکہ کی مخالفت کی خاطر یہاں تک کہا تھاکہ اگر کوئی امریکہ سے واقعی بدلہ لینا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ کسی طرح حسن عسکری کو امریکہ کا پریسیڈنٹ بنوادے۔ ایک ہفتے کے اندر امریکہ کا سارا مالیہ خرچ ہوجائے گا اور اس کی معیشت نہ صرف تباہ و تاراج ہوجائے گی بلکہ اس کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی ۔ حسن عسکری ریس کھیلنے کے شوقین تھے اور ایک زمانہ میں ہم بھی شوقیہ طور پر ریس کھیلا کرتے تھے ۔ زندگی میں صرف ایک ہی مرتبہ ہم دونوں نے ساتھ مل کر ریس کھیلی تھی اور آٹھ دن تک لگاتار کھیلتے رہے تھے۔ اس کا حال ایک الگ ہی مضمون بلکہ ایک کتاب کا طلبگار ہے ۔ اس ایک واقعہ کو چھوڑ کر ہم نے کبھی مل کر ریس نہیں کھیلی ۔ آپ تو جانتے ہیں کہ ریس میں ہمیشہ ریس سے پہلے شائقین کو گھوڑوں کا دیدار کرایا جاتا ہے ۔ ہم عسکری کو ہمیشہ منع کرتے تھے کہ وہ گھوڑوں کا دیدار کرنے کیلئے نہ آیا کریں کیونکہ عسکری گھوڑوں کا اتنا دیدار نہیں کرتے جتنا کہ گھوڑے خود عسکری کا دیدار کرلیتے ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ عسکری کی اونچی پوری اور بھر پور شخصیت کو دیکھ کر گھوڑے اتنے مرعوب ہوجاتے ہیںکہ وہ بالآخر احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ان کی چستی اور پھرتی کافور ہوجاتی ہے ۔ نتیجہ میں ریس چوپٹ ہوجاتی ہے ۔ عسکری کے بارے میں ہم لکھنے پر اتر آئیں تو بلا مبالغہ ہزاروں صفحات کا دفتر کھل جائے گا ۔ ہم نے ان واقعات کو اپنی اُس خود نوشت سوانح عمری کیلئے اٹھا رکھا ہے جسے ہم نے لکھنا شروع کردیا ہے ۔ عسکری بہترین استاد تھے ۔ وہ اپنے طلبہ سے نہ صرف برادرانہ تعلقات رکھتے تھے بلکہ انہیں اپنا بڑا بھائی تک سمجھ لیتے تھے ۔ چنانچہ ان کے سینکڑوں شاگردوں سے ہمارے بھی برادرانہ تعلقات رہے ہیں ۔ 1972 ء میں ہم دہلی چلے گئے تو دو تین سال بعد حسن عسکری بھی پروفیسر خسروؔ کی عنایت سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سماجیات کے ریڈر ہیڈ بن کر آگئے ۔ یہ ان ہی کی کشش تھی کہ بسا اوقات ہم اسکوٹر پر سوار ہوکر موقع بے موقع دہلی سے علی گڑھ جانے لگے ۔ شہریار سے ملاقات بھی حسن عسکری کی معرفت ہی ہوئی ۔ ہمیں یاد ہے کہ حسن عسکری کو علی گڑھ آئے ہوئے ساتھ آٹھ دن ہی گزرے تھے کہ یوم جمہوریہ جشن آزادی کا موقع آگیا ۔ اس سلسلہ میں ایک تقریب وہاں کے ٹاؤن ہال میں آراستہ تھی جس میں وائس چانسلر اور علی گڑھ کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (کلکٹر) وغیرہ بھی موجود تھے۔

ہم نے عسکری کو بتائے بغیر منتظمین سے خواہش کی کہ وہ حسن عسکری کو بھی اظہار خیال کی دعوت دیں۔ ہم اور شہریار ہال کی بالکل پچھلی صف میں حسن عسکری کے ساتھ بیٹھے تھے ۔ اچانک حسن عسکری کا نام پکارا گیا ۔ اب جو حسن عسکری ہال کی راہداری میں سے اپنے اونچے پورے قد کے ساتھ ا پنے سینہ کو ذرا خم دے کر مخصوص انداز سے چلنے لگے تو علی گڑھ والوں کو پتہ چلا کہ بعض مقرر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی چال بھی ان کے زور خطابت کا حصہ ہوتی ہے ۔ جب عسکری نے اپنی پاٹ دار آواز میں مخصوص لب و لہجہ کے ساتھ انگریزی میں تقریر شروع کی تو سچ مچ سماں باندھ دیا ۔ یوں علی گڑھ والوں کو پتہ چلا کہ ان کے درمیان ایک جادو گر آگیا ہے۔ وہ جب بھی علی گڑھ سے دہلی آتے تو ہم سے اور عمیق حنفی سے ضرور ملتے تھے ۔ دنیا داری وہ بالکل نہیں جانتے تھے ۔ بے نیازی اور قلندری ان کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ چار پانچ برس بعد کسی کو بتائے بغیر وہ علی گڑھ سے اچانک شاید ایران گئے یا غالباً ہالینڈ گئے ۔ آگے کا حال علی ظہیر بہتر طورپر جانتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے دہلی آنے کے کچھ عرصہ پہلے ہی علی ظہیر ان کے سجادہ نشین بن گئے تھے ۔ ہم 1984 ء میں یوروپ گئے تو حسن عسکری اپنے بال بچوں سمیت برمنگھم میں مقیم تھے ۔ لندن میں ڈیڑھ مہینہ کے قیام کے دوران میں ہر ویک اینڈ پر حسن عسکری ہماری خاطر لندن آجاتے تھے ۔ ہماری ساری تقاریب میں شرکت کی اور ایک بار ہمیں برمنگھم بھی لے گئے ۔ پچھلے دنوں علی ظہیر نے یہ مژدہ سنایا تھا کہ حسن عسکری نے اوپنشد کا جو اردو ترجمہ کیا ہے وہ زیر طبع ہے اور جلد ہی نہ صرف کتاب چھپ کر آئے گی بلکہ اس موقع پر خود حسن عسکری بھی آئیں گے۔ اس سلسلہ میں ان سے ایک بار فون پر بھی بات ہوئی تھی ۔ ان کا ایک طویل خط بھی ہمیں ملا تھا جسے پڑھنے کے بعد ہمیں پہلی بار احساس ہوا کہ وہ ہمارے بارے میں مبالغہ آمیز حد تک اچھی رائے رکھتے ہیں۔ ہم حیدرآباد میں ان کے قدموں کی آہٹ کو سن ہی رہے تھے کہ ان کا بلاوا آگیا اور وہ اس دنیا کو ہی چھوڑ کر چلے گئے ۔ شخصی طور پر ایسا دوست، ایسا مخلص انسان ، ایسا عالم ، ایسا قلندر ، ایسا مشفق اب ہمیں کبھی نہیں ملے گا ۔ تاہم ایک اطمینان یہ ہے کہ خود ہماری عمر کی نقدی بھی اب قریب الختم ہے۔
(2 مارچ 2008 ء)